ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ملک میں آئین اور قانون کے ہو تے ہوئے جس انداز میں حکومت خود لا قانونیت اور ظلم وجبر کا بدترین مظاہرہ کر تے ہوئے مسلمانوں کے لئے عرصہِ حیات تنگ کرتی جا رہی ہے، اس سے عالمی سطح پر یہ بات کھل کر واضح ہوگئی کہ اس وقت ہمارے ملک ہندوستان میں اقلیتوں کا جینا کتنا دوبھر ہو گیا ہے۔ جن انسانیت دشمن عناصر نے اپنی ہرزہ گوئی کے ذریعہ ساری انسانیت کے لئے رحمتہ اللعالمینؐ بناکر مبعوث کئے گئے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ،اُن پر قانون کے مطابق کوئی کاروائی آج تک نہیں کی گئی۔ حکمران پارٹی بی جے پی کے نپورشرما اور نوین کمار جندل اپنی شرمناک حرکتوں کے باوجود آزاد گھوم رہے ہیں اور اب تو اُن کی منافرانہ کارستانیوں پر فسطائی طاقتوں کی جانب سے شاباشی دی جا رہی ہے اور ان بَدزبان افراد کی تائید میں چند ذلیل گروہ جلوس بھی نکال رہے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنے نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوںکے خلاف جلوس نکالا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان بد زبانوں کی زبان کو لگام دے، اُن پر پولیس نے لاٹھیاں بر سائیںاور بندوق کی گولیاں داغ کر معصوم بچوں کو شہید کر دیا۔ یہ کون سا قانون ہے کہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے نکلنے والوں کوبےدردی سے مار دیا جائے۔ آخر مسلمان اس جمہوری ملک میں اتنا بھی حق نہیں رکھتے کہ وہ اپنے پیغمبررسول اللہؐ کی محبت میں نعرے لگاتے ہوئے پُرامن احتجاج کریں۔ ’’اسلام زندہ آباد ‘‘کہنا کیا اتنا بڑاجرم ہے کہ کسی کی جان لے لی جائے؟ ملک بھر میں ابھی تک کتنے جلوس نہیں نکلے۔ کیاپُرامن احتجاجی جلوس کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ کا حق پولیس کو دے دیا گیا ہے۔ احتجاج کا حق ہر شہری کو حاصل ہے، لیکن حکومت اس ملک کے مسلمانوں کو اس حق سے محروم کر دینا چاہتی ہے۔ سوال یہی ہے کہ اس وقت ملک جس بحرانی دور سے گزر رہا ہے، اس کی ذ مہ داری کس کے کندھوں پر آ تی ہے۔ پورے ملک میں فرقہ واریت کی آگ کس نے لگائی؟ نپور اور جندل کی پشت پناہی کون کررہے ہیں ؟ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے اکثریتی طبقہ کو باور کرانا چاہتی ہیں یہ سب ملک میں ہندوراشٹر لانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ یہ عجیب و غریب صورت حال دیکھی جا رہی ہے کہ ایک طبقہ کے جذبات مجروح کئے جا تے ہیں، اس سے مطالبہ کیا جا تا ہے کہ وہ اسلامی اصطلاحات کو استعمال کرنا چھوڑ دے، اُسے مجبور کیا جا رہاہے کہ وہ اپنے تشخص سے دستبردار ہوجائے اور پھر نِت نئے انداز میں اسے ہراساں کرنے کے طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ان سب مظالم کے خلاف جب وہ قانون اور دستور کے حدود میں رہتے ہوئے احتجاج کرتا ہے تو اُسی پر حکومت اپنا غصہ اُتارتی ہے۔ایک جمہوری ملک میں ہر ایک کو دوسرے کے مذہب کے احترام کی تلقین کی جاتی ہے ،اگر کوئی فردیا گروہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی تعلیمات اور ان کی قابل احترام شخصیات کے بارے میں یاوہ گوئی کرے تو کس طرح ملک میں امن و امان قائم رہے گا۔ رسول اکرم ؐ کی شان میں گستاخی کا معاملہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ آپؐ کی ذات ِگرامی مسلمانوں کے دین اور ایمان کا حصہ ہے۔ کوئی بھی مسلمان اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی بھی آپؐ کی شان میں گستاخی کا ایک لفظ بھی ادا کرے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی باطل قوتوں نے حضور اکرمؐ کی شان میں ناشائشہ الفاظ استعمال کئےتو اہلِ ایمان نے اس کا منہ توڑ جواب دیا اور یہ سلسلہ اِن شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ کوئی یہ گمان کرے کہ اس معاملہ میں مسلمانوں خاموش رہیں گے تووہ احمقوں کی جنت میں ہے۔ مرکز کی موجودہ حکومت نے بیرونی دباؤ کی بنیاد پر نپور شرمااور جندل کو پردے سے تو ہٹا دیا لیکن قانون کے مطابق ان کو سزا دینے میں کیا امر مانع ہے۔ آخر حکومت ان کے ساتھ نرمی کا رویہ کیوں اختیار کی ہوئی ہے۔ ان کے زہریلے بیان سے پورے ملک میں ایک ہیجانی فضاء پیدا ہوگئی ، لیکن اس کے باوجود ان کو گرفتار نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کو مزید کریدناچاہتی ہے۔حکومت ان خاطیوں کو سزا دینے سے آخر کیوں کترا رہی ہے؟ شرپسند عناصر کا تحفظ اگر حکومت کا مطمح نظر بن جائے تو پھر قانون کی حکمرانی کا تصور ناپید ہو جائے گا۔ ایک طرف جہاں حکومت اس ملک میں رہنے والی دوسری بڑی اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والوں کی طرفدار بن کر کھڑی دکھائی دیتی ہے وہیں اس نے جن کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، اُن سے احتجاج کا بھی حق بھی چھین لیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ان پر بے بنیاد الزامات لگا کر ان کے مکانوں اور دکانوں کو مسمار کر دیا جا رہا ہے۔ الہ آباد میں جاویدمحمدکے عالیشان مکان پربلڈوزر چلادیا گیا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ شہر میں ہونیوالے واقعات کے ماسٹر ماینڈ تھے۔ جاویدمحمد، کوئی دہشت گرد نہیں ہیں، وہ شہر کی ایک معروف شخصیت ہیں، وہ ویلفئیر پارٹی آف انڈیا کے قائد ہیں اور کئی ملّی جماعتوں سے بھی اُن کا تعلق ہے۔ یوپی حکومت نے محض انتقام لیتے ہوئے ان کے گھر کو ڈھا دیا۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے 2019 میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف چلائی گئی تحریک میں بھر پور حصہ لیا تھا۔ اسی کو نبیاد بناکر یہ ظالمانہ کاروائی کی گئی۔ اُن کی بیٹی آفرین فاطمہ جو، جواہر نہرو یونیورسٹی ( جے این یو ) کی طالبہ ہے ایک سماجی جہدکار ہے۔ جاویدمحمد اور ان کی بیٹی سے دراصل انتقام لیا جارہا ہے اور اسی لئے ان کے آشیانے کو بغیر کسی قانونی نوٹس کے زمین دوز کر دیا گیا۔ اگر پولیس اور بلدیہ کو یہ حق دے دیا گیا کہ وہ کسی کے بھی گھر کو بغیر کوئی وجہ بتائے منہدم کردے تو پھر ملک میں عدلیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گوئند ماتھر نے جاویدمحمدکے مکان کے انہدام کو مکمل طور پر غیر قانونی اقدام قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تکنیکی مسئلہ نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی کا سوال ہے۔غیر قانونی تعمیر یا تعمیری قوانین کی خلاف ورزی کا بہانہ تراش کر مکانات کو منہدم کردینا شہریوں کے بنیادی حقوق کی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ گزشتہ اپریل میں دہلی کے جہانگیر پوری علاقہ میں بھی اسی قسم کی کاروائی کرتے ہوئے غریب مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلادئے گئے تھے۔یہ ایسے غریب افراد تھے جو روز کماکر روز کھاتے تھے۔ اگر کسی نے غیر قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے بھی گھر بنایا ہے تو اسے اچانک منہدم نہیں کیاجا سکتا ۔ اس کے لئے بھی کچھ قائدے قانون موجود ہیں۔ لیکن یوپی کی حکومت نےگھروں پر بلڈوزر چلانے کی جو بدترین پالیسی اپنائی ہے اس سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اب ملک میں پریشان حال لوگوں کی مدد کے لئے کوئی سہارا باقی نہیں رہا۔ کسی بھی مسلمان پر کوئی بھی الزام لگا کر اس کی املاک تباہ برباد کردی جائیں گی۔ جاوید محمد ، جیسی عوامی شخصیت کے مکان کو نشانہ بنایا گیا ہے تو پھر دوسرے غریب مسلمانوں کا کیا حال ہوگا۔ یوگی حکومت نے گھروں پر بلڈوزر چلانے کی جوپالیسی اختیار کی ہے وہ دراصل مسلمانوں کے حوصلے پست کردینے کا ایک حربہ ہے تا کہ مسلمان کوئی احتجاج نہ کریں۔ مدھیہ پردیش اور جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، اسی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ملک کی عدالتیں بھی اس معاملے میں فوری طورکوئی اقدام کرنے سے کترا رہی ہیں۔ اس سے حکومت کے ارادے اور بلند ہو تے جارہے ہیں اور معصوموں کے گھروں کو ڈھیر کردیا جا رہا ہے۔ قانون کی بالادستی کے نام پر ہونے والی اس ریا ستی غنڈہ گردی کی مذمت ہر سطح پرہونی چاہئے۔
اُتر پردیش کی حکومت تشدد کے معمولی واقعات کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلارہی ہے ،اس کے خلاف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق ججس اور سینئر وکلاء نے چیف جسٹس آف انڈیا این ۔ وی۔ رمنا کو ایک مکتوب لکھتے ہوئے ان سے خواہش کی کہ وہ یوپی میں ہونے والی حالیہ انہدامی کاروائی کا ازخود نوٹ لیتے ہوئے حکومت کی سرزنش کریں۔ انہوںنے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بتایا کہ اترپردیش میں نظم وضبط کی جو صورت حال ابتر ہو تی جا رہی ہے اس کو روکنے میں حکومت ناکام ہو گئی ہے ۔ پولیس اور ریاستی حکام کے ظلم اور زیادتیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس پر فوری روک لگانے کی چیف جسٹس آف انڈیا سے گزارش کی گئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ سابق ججس اور ماہرین قانون کے اس پٹیشن پر جسٹس رمنا کیا کاروائی کر تے ہیں۔ امید ہے کہ وہ مظلوموں کو انصاف دلانے میں اپنے عہدہ کا بھرپور استعمال کر یں گے۔ اس وقت ملک کی عدلیہ سے ہی توقع کی جا سکتی ہے، وہ اس ظلم کے خلاف حکومت اور قانونی ایجنسیوں کو وارننگ دے گی۔ کسی اور میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ یو پی حکومت کی بلڈوزر پالیسی کے خلاف آواز اٹھاسکے۔ ملک کے وزیراعظم بہت سارے مسائل پر بولنے کے عادی ہیں لیکن اس وقت ایک خاص طبقہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف انہوں نے چُپ سادھ لی ہے۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ نپور شرما اور جندل نے پیغمبر اسلام ؐ کے خلاف جو گستاخانہ کلمات ادا کئے ہیں یہ بھی حکومت کے اشاروں پر کی گئی کارستانی ہے اور یوپی حکومت نے کسی جلوس میں مبینہ طور پر پتھر مارنے والوں کے گھروں کو ڈھانے کی جوپالیسی اپنائی ہے، اس کے لئے بھی مرکزی حکومت کا آشیرواد بھی انہیں حاصل ہو گا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ پورے ملک میں فرقہ واریت کی آگ لگی ہوئی ہے اور وزیر اعظم زبان کھولنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حالات کو بگاڑنے میں حکومت کے رول کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔ جن بد طینت افراد نے دنیا کی مقدس ترین ہستی کی شان میں گستاخی کی ،اگر فوری طوراُن کو گرفتار کرلیا جا تا تو مسلمان کوئی احتجاج منظم ہی نہیں کرتے اور نہ تشدد کے واقعات رونما ہو تے۔ لیکن حکومت کسی نہ کسی طرح ان کے بچاؤ کے لئے آگے آگئی، اس سے مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھے اور سڑکوں پر نکل پڑے۔لیکن انہوں نے کسی دوسرے مذہب کی مقدس ہستی کے تعلق سے کوئی بُری بات نہیں کی۔ ان کا مطالبہ تو بس یہ تھاکہ جس نے بھی ہمارے رسولؐ کی شان میں گستاخی کی اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ دنیا کا ہر انصاف پسند آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے۔حکومت مسلمانوں کے مطالبہ پر عمل کرتی تو مسلمان بھی مطمئن ہوجاتے اور دنیا میں ہندوستان کے متعلق یہ تاثر اُبھرتا کہ یہاں قانون کی حکمرانی اب بھی باقی ہے۔ اس کے برعکس جن کے جذبات سے کھیلا گیا انہیں ہی موردِ الزام قرار دے کر پولیس ان کو گرفتار کرتی ہے، ان کے بچوں کو شہید کر تی ہے اور پھر ان کے گھروں پر بلڈوزر چلاکر اپنی مردانگی کا بدترین مظاہرہ کر تی ہے۔ یہ قانون کے نام پر حکومتی دہشت گردی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسرائیل جس طرح بے گناہ فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرکے انہیں زیر آسمان رہنے پر مجبور کر تا ہے۔شائد یہی پالیسی ہندوستان میں بھی اپنائی جا رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ صیہونی اور ہندوستانی منافر طبقہ ایک دوسرے کے عاشق بن گئے ہیں۔ اس وقت ملک میںمسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کا جو سلسلہ چل رہا ہے کہیں وہ اِسی گیم پلان کا نتیجہ تو نہیں ہے جس کے تحت یہاں بھی فلسطین جیسے حالات پیدا کر دئے جائیں۔ مسلمان اس چیلنج کا کیسے مقابلہ کر تے ہیں یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جبکہ مسلم قیادت ابھی بھی کانفرنسوں کو منعقد کرنے اور قراردادوں کو منظور کرنے میں مصروف ہے ۔ ان نازک حالات میں مسلم قیادت کو سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرکے آگے آنے کی ضرورت ہے۔
(رابطہ۔9885210770)