! قانون شکن عناصر اور محکمہ ٔ اِنسداد

وادیٔ کشمیر میں جہاں ناجائز اور غیر قانونی دھندے،منشیات کا کاروبار ،نقلی ادویات کی فروخت ،ناجائز منافع خوری ،لوٹ کھسوٹ اور رشوت خوری کے رجحان میںکوئی کمی نہیں ہورہی ہے وہیں جرائم کی وارداتوں کے ارتکاب میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ظاہر ہے کہ بےروزگاری،معاشی بدحالی،مفلسی اور بھوک ایک ایسی لعنت ہے جو بہت سی ایسی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔جن سے نہ صرف معاشرے میںاخلاقی اور ذہنی بیماریاں پھیل جاتی ہیں بلکہ چوری چکاری، ڈاکہ زنی ،لوٹ مار،عصمت فروشی اور قتل جیسے جرائم کا سلسلہ بھی فروغ پاتا ہے اور پھر ایسے ایسے واقعات منظرِ عام پر آتے رہتےہیں کہ انسانی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔بغور جائزہ لیا جائے تو گذشتہ ایک دہائی کے دوران وادی ٔ کشمیر میں اسطرح کے بہت سارے ایسے المناک اور حیران کُن واقعات رونما ہوتے چلے آرہے ہیں جن سے محض انسان کے دِل ہی دہل نہیں جاتے بلکہ آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔گذشتہ شب بھی وادی ٔ کشمیر میں چوری کا ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے ،جو کہ وادی میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق رات کی تاریکی میں چوروں نے رفیع آباد ،بارہمولہ کے ایک علاقے میں نصب 250-KVبجلی ٹرانسفارمرکو سپلائی ہونے والی بجلی لائینوں سے منقطع کرکے کھول دیا اور اس میں موجود قریباً چھ لاکھ روپے مالیت کے تانبے کے کورکوائل( تاریں) اور 30ہزار روپے کا تیل سمیت دوسرا قیمتی سامان نکال کر ایک کھوکھلا ڈھانچہ چھوڑکر رکھ دیا ہے ،جس کے نتیجے میں اس بجلی ٹرانسفارمر سے منسلک علاقے کے لوگ بجلی سے محروم ہوچکے ہیں اور محکمہ بجلی بھی حیران ہے۔اگرچہ پولیس نے چوروں کے کھوج کے لئے کاروائی شروع کردی ہے تاہم ابھی تک اس چونکا دینے والی چوری کا اَتہ پتہ نہیں مل سکا ہے۔یہاں اس خدشہ کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ چوری کی اس واردات میں وہ لوگ شامل ہوں جو محکمہ بجلی کے ورک شاپوں میں ٹرانسفارمر کھولنے اور جوڑنے میں مہارت رکھتے ہیں۔کیونکہ ہر محکمہ کی طرح بجلی محکمے میں بھی ایسے بدعنوان اور بے ایمان لوگوں کی کوئی کمی نہیں،جنہوں نے پہلے ہی اپنی بد عنوانیوں اور کالی کرتوتوں سے اس محکمہ کو کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے ،جس کا خمیازہ عوام کو آج تک بھگتنا پڑرہا ہےاور وہ بدعنوان عناصر ریٹائر منٹ کے بعدآج کروڑوں میں کھیل رہے ہیں اور معزز شہری بن بیٹھے ہیں۔ہمیں اُس زمانہ کو بھی یاد رکرنا چاہئے جب وادی بھر میں بجلی کی تمام مین اور ترسیلی لائنیں تانبے کی ہوا کرتی تھیں اور بجلی کے کھنمبےاور کراسنگ شاخیں دیودار لکڑی کے ہوا کرتے تھے،جو آج بھی کہیں کہیں موجود ہیں،اُس دور میں بھی محکمہ میں کام کررہے ادنیٰ و اعلیٰ بدعنوان عناصر نے تانبے کی ترسیلی لائینوں اور دیودار کے کھنبوں(پول) کراسنگ شاخوں ،یہاں تک کہ لوہے کے نَٹ اور بولٹ کے انباروںکے لُوٹ کھسوٹ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جبکہ صارفین بجلی سےوصولیابی فیس میں بھی گھپلےبازیوں سے محکمہ بجلی کاستیانس کرکے رکھ دیا تھا۔ جس کی تفصیل پیش کرنااس کالم میں ممکن نہیں۔خیر !جرائم کی روک تھام کے لئے ذمے دار محکموں میں پولیس کا ادارہ ساری دُنیا میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے اور ہمارے یہاں بھی یہ محکمہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے، تاہم بعض اوقات اس حوالے سے ذمہ دار محکمہ کی صورت حال خاصی مختلف بھی نظر آتی ہے۔اگرچہ محکمے میں فرض شناس افسروں اور اہلکاروں کی موجودگی سے بھی ہرگزانکار نہیں کیا جاسکتا جو انسداد جرائم کی مہمات میں اپنی زندگیاں تک دائو پر لگادیتے ہیںاور مجرموں کے تعاقب میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔در حقیقت یہاں کی انتظامیہ کے تقریباً سبھی شعبوں میں بدعنوانیاںجڑ پکڑ چکی ہیں اور بغیر کسی خوف و کھٹکے لوٹ کھسوٹ اور غیر قانونی کاروائیاں انجام دی جارہی ہیں،جبکہ ہر محکمہ میں موجودکچھ ذمہ دار ملازمین،عام اہلکار اور افسر بھی اپنے پیش رَوئوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ذاتی مفادات کی آڑ میں بدعنوان اور جرائم پیشہ عناصر کی کالی کرتوتوں پر پردہ ڈال رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں کشمیر کو جرائم اور غیر قانونی دھندوں سے صاف و پاک کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں ہورہی ہیں۔حالانکہ یہ طے ہےکہ کوئی بھی مجرم زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتا کیونکہ بُرے اعمال انسان کو بالآخر تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورت حال کو یکسر بدل دیا جائے تاکہ بہت جلد تمام قانون شکن لوگ اور جرائم پیشہ عناصر کے لئے تمام راہیں مسدود ہوجائیںاور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔