قانونِ الٰہی کے خلاف سرکشی

اس زندگی میں انسان کے درمیان دائمی کشمکش کی بنیاد یہی ہے کہ ظلم و خود پرستی کے حیوانی جذبات کو غلبہ حاصل ہو یا کمال۔اَمن ،محبت اور ایثار چاہنے والے انسانی جذبات کا ہم مسلمانوں نے دنیا کے سامنے وہ تہذیب پیش کی جس میں انسان کی قدرومنزلت بڑھی اور اُسے یہ احساس ہواکہ آسمانوں اور زمین کو اُس کی خدمت کے لئے بنایا گیا ہے ۔انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ آقا بنے نہ کہ غلامی کی زنجیریں پہنے وہ زلیل و خوار ہو،آسمانوں میں فرشتوں کے ذریعے اُسے سجدہ کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روئے زمین پر باعزت و با حیثیت آقا کی حیثیت سے رہے گا کیونکہ اُس کا کام زمین پر اللہ کی جانشینی ہے لیکن زمین پر رہتے ہوئے اپنی مادی ضروریات کی تکمیل میں انسان اس طرح غرق ہوا کہ وہ اپنے خالق کے حقوق ہی فراموش کرگیا جبکہ اُسی نے انسان کو ساری صلاحیت اور طاقت بخش دی ہے۔
اسلام نے اپنی تعلیمات میں جسم و روح کے تقاضوں اور دنیا و آخرت کے فرائض کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی ہے گویا اسلام کی پیدا کردہ اس ہم آہنگی کے بعد انسان ایسا وجود بن گیا ہے جس کے لئے موت و حیات کی دنیا ئوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا ۔چنانچہ اسلام میں دنیا کے لئے عمل اور آخرت کے لئے عمل کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں کیونکہ دنیا کے لئے عمل بھی عبادت بن جاتا ہے ،اگر اُسے نیک اور بلند مقصد کے ساتھ انجام دیا جائے ۔اسلام میں جسم کو روح پر غالب کرنے یا روح کو جسم پر غالب کرنے کا کوئی تصور نہیں،دونوں کے درمیان نظم و ربط ہے جس کے ذریعے انسان کا رروحانی پہلو اُس کی رہنمائی کرتا ہے ،وہ نہ تو فطری تقاضوں کو کچلنے والا راہب بننا چاہتا ہے اور نہ ہی روح کے تقاضوں اور نہ اس کی سربلندی و دائمی کامرانی کے شوق کو روندنے والا مادہ پرست۔زمین پر اسلام ہر انسان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آسمانی نسبت اور روح ِ الٰہی کے سرچشمہ سے نکلی ہوئی اپنی اصل کو نظر انداز اور فراموش نہ کرے۔بلاشبہ جسم کے کچھ اپنے حقوق ہوتے ہیں لیکن ان حقوق کی ادائیگی دل و دماغ کی صلاحیتوں کے تحفظ کا ذریعہ ہے ۔اسلام نے بدن کی صفائی اور روح کے تزکیہ کا حکم دیا ہے اور روح کی صفائی و پاکیزگی کی بنیاد اللہ تعالیٰ سے تعلق پر ہے ،بدن کو گندگی سے صاف کرنا اس لئے ضروری ہے کہ گندگی اُس انسان کے مرتبہ مقام کے شایان ِشان نہیں جو رب کے نزدیک معزز ہے اور جسے آسمانی پیغام سے نوازا گیا ہے۔
جسم کی پرستش ،مادہ کی پرستش اور انسانی زندگی میں الہٰی بنیاد کے خلاف سرکشی ایسی کجی ہے جو بُرائی اور مصیبت کا ہی زریعہ بن سکتی ہے ۔مادی تہذیب کی آفت یہ ہے کہ اُس نے ذہنوں کو شہوت پرستوں کے  لئے مسخر کیا اور روح کی آواز کاگلا گھونٹ دیا ،اُس نے مٹی کے تقاضوں کو تو کھلی چھوٹ دی اور اس بات کو نہ مانا کہ انسان میں روحِ الہٰی کی پھونک شامل ہے ،اُسے یہی نظر آتا ہے کہ انسان کُلی و جُزوی ہر طرح سے مٹی سے پروان چڑھا ہے اور اُس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنا سَر اوپر کی طرف اُٹھائے اور اپنے آقا ئے نعمت کو یاد کرے اور اُس کی عظمت کے راز کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔یہ بات زور دے کر کہی جاسکتی ہے کہ انسان عزت اول و آخر دونوں اعتبار سے اللہ کے ساتھ اُس کے تعلق ،اُس سے مدد طلبی اور اُس کے قوانین و ہدایتوں کی پابندی میں ہے ۔انسان کے حق میں حقیقی آزادی یہ نہیں ہے کہ وہ جب چاہے اپنے آپ کو پستیوں سے آلودہ کرے اور جب چاہے بلندی اختیار کرے۔حقیقی آزادی تو یہ ہے کہ ’’وہ کمال کی شرطوں کی پابندی کرے اور اُسی کے حدود کے اندر سرگرم رہے۔‘‘
آخر یہ آزادی ہے کیا ،جس کی طرف قومیں لپکتی رہی ہیں اور بڑے دل والے اس کا نعرہ بلند کرتے رہے ہیں؟آزادی تو نام ہے انسان کے اُس حق کا کہ اُسے اُن تمام وسائل کی ضمانت دی جائے جن کے ذریعے وہ صاف ستھری زندگی گذار سکے،یہ کسی بھی انسان کا حق نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی فطرت کے خلاف بغاوت ،اور سرکشی کرے ۔آزادی انسان کے اس حق کا نام نہیں کہ اگر وہ چاہے تو حیوان بن جائے یا اپنے پروردگار کی طرف اپنی روحانی نسبت کا انکار کردے ،یا ایسے افعال کا مرتکب ہو جو اُس کا تعلق آسمان سے کمزور کردیں اور مٹی کے ساتھ مضبوط کردیں ،اس مفہوم کے ساتھ تو آزادی کا مطلب ہوگا حقائق کو اُلٹ پلٹ دینا اور معاملات کو فطری طریقوں سے دور دور کردینا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اُس شخص سے زیادہ غلام کسی کو نہیں پائیں گے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ آزاد ہے جبکہ اُس کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اُسے شہوت پرستوں کا مکمل پیرو کار پائیں گے ،وہ تو پیٹ کا بندہ ہوگا یا جنسی خواہشات کا ،اگر وہ اس طرح کی کسی بھی چیز سے محروم کردیا جائے تو ہم اُسے حقیر ترین انسان پائیں گے چاہے وہ بلند ترین منصب ہی پر فائز کیوں نہ ہو یا کوئی بادشاہ ہی کیوں نہ ہو جس کے سامنے گردنیں جُھکتی ہوں۔
حقیقی آزادی کا سرچشمہ تو صرف خدائے واحد کی صحیح بندگی ہے ،جو دل اللہ تعالیٰ سے مربوط ہوگا وہ انسان کو ہر چیز سے بلند کردے گا ،اُسے نہ کوئی ڈرذلیل کرسکے گا اور نہ کوئی خواہش اُس کا سَر جُھکاسکے گی۔اس لئے ہم آزادی کی ہر اُس دعوت کی تکذیب کرتے ہیں جو لوگوں کو اللہ تعلیٰ کے حدود و احکام کی خلاف ورزی پر اُبھارے یا انسان کو اُس کے شایان ِشان آسمانی مقام سے نیچے گرائے۔انسان ایسی صورت میں کتنا حقیر اور بے قیمت ہوگا جب زندگی میں اُس کا کردار صرف اتنا ہی ہو کہ وہ زمین پر چند برس گذارے اور بس۔جس طرح جنگل میں بھیڑیے ،چراگاہوں میں بھیڑ بکریاں اور اصطبل میں گھوڑے اپنی مدت گزار کر ختم ہوجاتے ہیں۔ 
9697334305