قاضی عبدالستار اُن معدودے چند ادیبوں میں سے ہیںجنہوں نے ناول،افسانہ،شاعری اور ادبی تنقید کے اعلیٰ نمونے پیش کیے ہیں۔اُنہوں نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات شاعری سے کی تھی اور عہدِ جوانی میں ہی ـ نظم’’گومتی کی آواز‘‘ لکھ کر اپنی فنی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے۔ تاریخی اور معاشرتی ناول لکھ کر ادبی حلقوں میں اپنی فنی و تخلیقی بصیرت نیز اپنے منفرد انداز بیان سے اپنی پہچان بنالی ہے۔اُن کے افسانوں کے صرف دو مجموعے ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ اور’’ آئینۂ ایام ‘‘منظر عام پر آئے ہیں جن میں کل 28 افسانے شامل ہیں۔
قاضی عبدالستار نے اپنے افسانوں میںپریم چند کی طرح دیہات کی سیر کرائی ہے مگراُنہوں نے دیہاتی زمین دارانہ نظام کی تصویر کشی میں حقیقت نگاری کا رنگ بھر دیا ہے۔یہ تصویر پریم چند اور ترقی پسند ادیبوںکی طرح یک رخی نہیں ہے ،جن کے یہاں زمین دار ظالم و جابر اور کسان،مزدورو محنت کش مظلوم قرار پائے ہیں۔اس کے برعکس قاضی عبدالستار کے افسانوں میں جاگیرداروں کا کسانوں و مزدوروں تئیں ظلم وجبرکے ساتھ ساتھ رحم دلی اور انصاف پرستی بھی سامنے آتی ہے جس سے اُن کے افسانوںمیں حقیقت نگاری کا مظہرصاف نظر آتا ہے۔
کسی بھی زُبان کا ادب انسان کی تہذیب،کلچر،روایت اور مذہب کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات،سماجی رویوں اور ذہنی رجحانوں کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔مصنف فن پاروں میں اپنے خیالات،سماجی حالات و واقعات نیز کرداروں کی نفسیات اور اُن کی جذباتی و ذہنی رویوں کو پیش کر کے معاشرے کی تہذیبی،سیاسی،مذہبی،ثقافتی،معاشی حالات سے بڑی حد تک آگاہ کر دیتا ہے۔ اس لیے کسی بھی مصنف کے فن پاروں کا جائزہ اُس وقت تک نامکمل ہے جب تک مصنف کے سماجی و معاشرتی حالات کا بغور مطالعہ نہ کیا جائے۔اس لیے افسانوںکا جائزہ لینے سے پہلے مصنف کی ذہنی و جسمانی نشوونما جن حالات میں ہوئی اس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔
قاضی عبدالستار اودھ کے صاحب حیثیت زمیںدار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اودھ کی جاگیردارانہ تہذیب وثقافت،اقدارو روایت میںاُن کی فکر پروان چڑھی۔ اُنھیں گھر میں وہ سارا عیش و آرام ملا جو ایک زمین دارگھرانے کا خاصا تھا۔ ابھی یہ اُن کا عہد شباب ہی کا زمانہ تھا کہ ہندوستان میں زمین داری کا خاتمہ ہوا جس کی وجہ سے زمین دار افلاس، لاچاری اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ اِن ہی حالات میں قاضی عبدالستار کی ذہنی و جسمانی ساخت و پرداخت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے افسانوں میں جاگیردارانہ تہذیب و ثقافت نیز اس تہذیب سے جڑے مسائل و مصائب کی جیتی جاگتی تصویر ملتی ہے۔ اُنہوںنے دیہات اور دیہاتی جاگیردارانہ تہذیب کے ٹوٹتے بکھرتے نظام نیز اس نظام سے جڑے مسائل سے اپنے تخلیقی کارناموں میں حقیقت نگاری کا رنگ بھر دیاہے۔ زمینداروں کی شان و شوکت،اعمال واحوال،جذبات و نفسیات اور زمینداری سے جڑے لوگوں کی بُرائیوں کو سامنے لا کر نیز زمینداری کے خاتمے کے بعد زمینداروں کی مفلسی،مجبوری،لاچاری اوربے بسی کو اپنی فنی مہارت سے افسانوں میں پیش کیا ہے۔اُنہوں نے اس تہذیب کی یک رخی تصویر پیش نہیں کی ہے بلکہ اس تہذیب کی یہ تصویر مکمل اور پہلودارہے۔اُن کے افسانوں میں ایک طرف زمین داروں کے عیوب ونقائص پیش ہوئے ہیںمثلاً قرض پرفخر محسوس کرنا،بے دریغ دولت لٹانا،فضول خرچی،ظلم و جبر ،قتل و غارت،مقدمہ بازی ،انانیت ، وغیرہ تو دوسری طرف اُن کی انصاف پرستی،غریبوں سے ہمدردی،رحم دلی بھی پیش ہوئی ہے۔ افسانہ’’ٹھاکر دوارہ‘‘ اس کی ثبوت میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔اس افسانے میں ’’پتمبر پاسی ‘‘ کے باپ کے قتل ہو نے پر ٹھاکر نواب علی پیتمبر سے جس طرح پیش آتے ہیں ،اس سے ٹھاکر نواب علی کی انصاف پرستی اور رحم دلی سامنے آتی ہیں۔اقتباس ملاحظ کیجئے۔
ـ ’’تمہارے مقتول باپ کا مقدمہ ہمارا ہے۔یہ کٹھار تمہارا ہے۔یہ بڑا باغ تمہارا ہے۔دریاپور کی سرکاری آرضی تمہاری ہے۔تمہارے باپ کی جگہ ہمارے پلنگ کا پہرہ بھی تمہارا ہے۔ اتنی بہت سی چیزیں ایک ساتھ پا کر وہ بوکھلانے بھی نہیں پایا تھا۔ ‘‘
زمین داری کے خاتمے کے بعد زمین دار طبقہ افلاس اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔وہ گھر کا سامان بیچ بیچ کر گھر کا چولھا جلانے پر مجبور ہوئے تھے۔ یہ طبقہ نہ صرف مالی طور پر مفلوج ہوا بلکہ ذہنی طور پر بھی مصائب ومسائل کا شکار ہوا تھا۔ سماج کا یہ طبقہ محنت و مزدوری کا عادی نہ تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُنھیں قرض اور گھر کا سامان بیچ بیچ کر پیٹ کی آگ بجھانی پڑی تھی۔افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ میں قاضی عبدالستار نے جاگیرداروں کی مفلسی ،لاچاری اور مجبوری کی نہایت فنکارانہ ڈھنگ سے جیتی جاگیتی تصویر پیش کی ہے۔افسانے سے یہ مثال ملاحظ کیجئے۔
’’دادی تو سامنے ہی کھڑی تھیں۔دھلے ہوئے گھڑوں گھڑونچی کے پاس دادا اِن کو دیکھ کر سٹپٹا گئے۔وہ بھی شرمندہ کھڑی تھیں۔پھر اُنہوں نے لپک کر الگنی پر پڑی مارکین کی دھلی چادر گھسیٹ لی اور دوپٹہ کی طرح اوڑھ لی۔چادر کے ایک سرے کو اتنا لمبا کر دیا کہ کرتے کے دامن میں لگا دوسرے کپڑے کا چمکتا پیوند چھپ جائے۔‘‘
دوسری جگہ اُن کے گھر کی حالت زار کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’وہ باورچی خانے میں چلی گئیں ۔وہ ایک تین دروں کا دالان تھا ۔بیچ میں مٹی کا چولھا بنا تھا۔المونیم کی چند میلی پتیلیاں، کچھ پیپے،کچھ ڈبے،کچھ شیشے،بوتل اور
دو چار اسی قسم کی چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ وہاں کچھ نہ تھا۔
تاریخ بھی قاضی عبدالستار کا ایک اہم اور پسندیدہ موضوع رہا ہے۔اُنہوں نے تاریخ پر مبنی کئی ناول تخلیق کیے ہیںجن میں داراشکوہ،صلاح الدین ایوبی،خالد بن ولید اور غالب خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ناول کے علاوہ اُنہوں نے افسانے میں بھی تاریخ کو موضوع بنایا ہے اور نہایت کامیابی سے تاریخی حقائق اور افسانویت کو متوازن کر کے پیش کیا ہے۔تاریخ میں افسانے کی مورت تراشنا بہت مشکل اور پیچیدہ کام ہوتا ہے ۔یہاں جگہ جگہ پر فن کار کا امتحان ہوتا ہے کیونکہ اُسے بیک وقت تاریخی حقائق اور افسانے کے فن کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ تاریخ حقائق پر مبنی ہوتی ہے اور ان حقائق کی تصدیق دوسرے ذرائع سے ممکن ہے۔ افسانہ تخیل کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور افسانوی واقعات کی تصدیق ممکن نہیں۔اس طرح تاریخ اور افسانہ ایک دوسرے کے متضاد نظر آتے ہیں ۔ تاریخ اور افسانہ اگر چہ ایک دوسرے کے متضاد اور مخالف ہیں مگر دونوں میں ایک چیز مشترک ہے وہ یہ کہ دونوں انسانی زندگی کو پیش کرتے ہیں۔ افسانے میں بھی زندگی کی باز تعمیر ہوتی ہے ۔افسانہ وہ ادبی تحریر ہے جس میں زندگی کے کسی گوشے کی عکاسی کی گئی ہو اور تاریخ میں گذشتہ زمانے کی زندگی کی بازیافت ہوتی ہے اس طرح دیکھا جائے تو دونوں تاریخ اور افسانے کا تعلق زندگی سے ہوتا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ افسانے میں زمانے کی قید نہیں ہوتی ہے ۔تاریخ ماضی کی جانب پلٹتی ہوئی چیز ہے جس کے آئینے میں ہم ماضی کی انسانی سرگرمیوںکو دیکھتے ہیں ۔غرض تاریخ میں بھی انسانی زندگی موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے تاریخ بھی افسانے کا موضوع بن گیا ہے اور تاریخ کو کامیابی سے افسانوی پیکر میں ڈھالا گیا ہے ۔
تاریخی افسانے کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ جس عہد کا ذکر افسانے میں ہو، اُس عہد کے رسم و رواج،بات چیت کے طریقے،کھانے پینے کے انداز،وغیرہ کی مکمل تصویرکشی ہو ،تاکہ قاری کو افسانے کی تاریخیت پر یقین ہو جائے۔افسانہ پڑھتے وقت قاری خود کو فراموش کر کے اُس ماحول میں پائے جس کا تذکرہ افسانے میں ہو۔قاضی عبدالستار کے تاریخی افسانے اس منزل سے کامیاب نظر آتے ہیں۔اُنہوں نے ’’نیا قانون‘‘ آنکھیں‘‘ ’’بھولے بسرے اور ’’سات سلام ‘‘ جیسے تاریخی افسانوں میں گذشتہ زمانے کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی ہیں ۔چنانچہ افسانہ ’’نیا قانون ‘‘میں محفل ِ رقص کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بادشاہ پنچ گوشہ تاج پہنے جواہرات میں ڈھکا ہوا سونے کے تخت پر بیٹھا تھا اور مشہور زمانہ سازندوں کے فن کار ہاتھوں سے غنا کے بادل برس رہے تھے اور سدھے ہوئے ،سجے ہوئے ،کڑھے ہوئے گوشت پوست کی زندہ بجلیاں تڑپ رہی تھیں۔‘‘
تاریخ اور افسانے کے درمیان جو واضح فرق ہے، وہ یہ ہے کہ تاریخ میں کسی شخص کی باطنی زندگی کو پیش کرنے کی گنجائش افسانے کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔افسانے میں اس کی بہت گنجائش ہوتی ہے جس سے افسانہ نگار کام لے کر تاریخ میں افسانویت کے فنی لوازمات کے لیے جگہ پیدا کرسکتا ہے۔قاضی عبدالستار کے افسانوں کی یہ خوبی ہے کہ جو کردار پیش کیا گیاہے، اُس کے ظاہر و باطن کو پیش کر کے افسانویت پیدا کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کرداروں کی ذہنی و جذباتی کشمکش سے اپنے افسانوں میں جاذبیت پیدا کی ہے۔ افسانہ ’’آنکھیں‘‘ اس کی بہترین مثال ہے جس میں مغل بادشاہ ’’جہانگیر‘‘ کی ذہنی اور جذباتی کشمکش نہایت خوبصورتی اور فنکارانہ چابکدستی سے بیان ہوئی ہیں۔
فن پارے کی انفرادیت کا دارمدار بڑی حد تک فن کار کے انداز بیان اور طرز تحریر پر ہوتا ہے ۔کسی بھی تحریر کوادبی زویہ دینے میں طرز بیان کابھی بڑا دخل ہوتا ہے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ ہر موضوع اپنے ساتھ اپنا ایک اسلوب لے کر آتا ہے لیکن اس کے باوجود مصنف کا اپنا ایک انوکھا اور منفرد انداز بیان ہوتا ہے جس سے مصنف کی پہچان ہوتی ہے۔قاضی عبدالستار بھی اپنا ایک منفرد اسلوب بیان رکھتے ہیں جس سے اُن کے افسانوں میں انفرادیت پیدا ہوئی ہے۔اُن کے اسلوب بیان کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ اُنھیں لفظیات پر مکمل دسترس حاصل ہے ۔وہ لفظوں کے ذریعے مردہ جسموں میں روح پھونکنے کا گُر جانتے ہیں۔شہری زبان ہو یا دیہاتی ،علامتی ہو یا استعارتی ،اُنھیں اس پر مکمل قدرت حاصل ہے جس سے اُن کے افسانے حسنِ پیکر کے نمونے ثابت ہوتے میں۔اُن کے اسلوب بیان پر شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں:
’’قاضی عبدالستار Paradoxes کے بادشاہ ہیں۔اُن کا فن ایڈگر ایلن پو کی یاد دلاتا ہے۔اُن کے قلم میں گذشتہ عظمتوں اور کھوئے ہوئے ماحول کو دوبارہ زندہ کرنے کی حیرت انگیز قوت ہے۔اُن کی سب سے بڑی قوت ان کی حاضراتی صلاحیت ہے جو دو جملوں میں کسی مکمل صورت حال کو زندہ کر دیتی ہیں۔‘‘
قاضی عبدالستار جس منظر کوبیان کرتے ہیں اُس کا نقشہ آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔اُنہوںنے افسانوں میں ہندو مسلم جاگیردارانہ معاشرے کے کرداروں کو پیش کیا ہے ا ور کرداروں کی مناسبت سے زُبان کا برمحل استعمال کیاہے ۔اُنہوں نے جہاں ہندو کرداروں کی زبان کے لب و لہجہ کا خیال رکھا ہے، وہیں مسلم کرداروں کی مکالمہ نگاری میں اس فرق کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔اُن کے افسانوں میں جدلیاتی انداز بیان،طنز اور بدیعات کے جملے جا بجا ملتے ہیں۔اودھی بولی کے استعمال سے افسانوںکے تاثیر میں اضافہ ہوا ہے۔ محاوراتی اور استعاراتی زبان کا بھی برمحل استعمال کیا ہے۔ نسوانی کرداروں کے زُبان دانی کا خوبصورت مظاہرہ کیا ہے ،جس میں انانیت کی آمیزش بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔افسانہ ’’رضوباجی ‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظ کیجئے :
’’کیا تم مجھ سے یہ چاہتے تھے کہ میں سارنگ پور سے ستو باندھ کر چلوں اور چتر ہٹہ کی ڈیوڑھی پر دھونی رما کر بیٹھ جاؤں اور جب تم برآمد ہو تو اپنا آنچل پھیلا کر کہوں کہ حضور مجھ کو اپنے نکاح میں قبول کر لیں کہ زندگی سوارت ہو جائے۔تم نے رکھو میاں کی بیٹی سے وہ بات چاہی جو رکھو میاں کی طوائفوں سے بھی ممکن نہ تھی۔‘‘
اُن کے افسانوں میں نادر تشبیہات اور استعارات کا استعمال موقع و محل کے مناسبت سے ہوا ہے جس سے افسانوں میں غیر معمولی دلچسپی پیدا ہوئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قاری کو یہ افسانے پڑھتے وقت اُکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی ہے۔ذیل کے اقتباسات میں پرکشش تشبیہات اور استعارات کے بہترین نمونے ملاحظ کیجئے:
’’کچھ راتیں اتنی بھاری ہوتی ہیں کہ صدیوں میں کبھی کبھی کسی کسی ملک پر اترتی ہیں۔ان کی کوکھ سے وہ سورج جنم لیتا ہے جن کی روشنی میں سونا پیتل اور پیتل سونا ہو جاتا ہے‘‘
’’راج کمار اس کا تعارف کرا رہا ہے جیسے کوئی گائیڈ رنگون سے آئے ہوئے بہادر شاہ ظفر کو لال قلعہ دکھلا رہا ہو۔‘‘
’’ریذیڈنٹ کا لہجہ جلاد کی طرح بے امان تھا اور اس کے لفظوں میں بارود کے بکوٹوں کا اشتعال تھا۔‘‘
قاضی عبدالستار کے انداز بیان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ بعض اوقت چند جملوں ہی سے کرداروں کی درد مندی اور روحانی کرب کا اندازہ ہوتا ہے۔ اُن کے افسانوں کا اندازِ بیان بلیغ اور مفکرانہ شان رکھتا ہے۔ افسانے ’’نیا قانون ‘‘اور ’’رضوباجی‘‘سے یہ مثالیں دیکھئے
’’جانوروں میں شیر بادشاہ ہوتا ہے اور گھوڑا تاجر ۔مشاہدہ ہے کہ شیروں کے مصاحب لکڑبگھے اور بھیڑیے تک گھوڑوں کا شکار کر لیتے ہیں۔لیکن جب دنیا پرانی ہو جاتی ہے تو نئی دنیا کے لیے نئے قانون وضع ہوتے ہیں اور اب زمانہ آگیا ہے کہ تاجر گھوڑے بادشاہ شیروں پر غالب ہوتا جائے کہ آج یہی قانونِ قدرت ہیں۔‘‘
’’سیتا پور تحصیل سدھولی اپنی جھیلوں اور شکاریوں کے لیے مشہور تھی،اب جھیلوں میں دھان بویا جاتا ہے۔بندوقیں بیچ کر چکیّاں لگائی گئی ہیں اور لائسنس پر ملے کارتوس بلیک کر کے شیروانیاں بنائی جاتی ہیں۔‘‘
خطیبانہ رنگ،ڈرامائی شان،بلند آہنگ،انانیت،بعض اوقات ہم وزن الفاظ کا استعمال اُن کے اسلوب بیان کے عناصرِ خمسہ ہیں۔
قاضی عبدالستار افسانوں میں تکنیکی تجربات کے قائل نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اُن کے افسانوں میں ایسی تکنیکیں نظر آتی ہیں جن سے افسانوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔اُن کے بیشتر افسانوں میں ’’فلیش بیک اور بیانیہ تکنیک کا استعمال ہوا ہے۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ زمانہ حال کی خستہ حالی اور تباہی کو بیان کرتے وقت یہ ماضی کی خوشحالی اور رعناؤں میں پناہ لیتے ہیں۔اس لیے فلیش بیک تکنیک کا استعمال ناگزیر تھا۔انہوں نے فلیش بیک تکنیک سے جن افسانوں کو دلچسپ بنایا ہیں اُن میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘ رضو باجی ‘ٹھاکر دوارہ‘گرم خون میں غلطاں‘نوری وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ’’شعور کی رو ‘‘ تکنیک کا بھی بہترین استعمال کیا ہے۔’’دھندلے آئینے‘‘ اور ’’سوچ ‘‘اس کی بہترین مثالیں ہیں۔اسی طرح افسانہ ’’آنکھیں ‘‘ میں مکالماتی تکنیک کا بہترین نمونہ پیش ہواہے ۔افسانوں میں اِن تکنیکوں کے باوجود قاضی عبدالستار تکنیکی تجربے کو سطحی مانتے ہیں ۔چنانچہ تکنیکی تجربے پر کہتے ہیں:
’’تکنیک میں تجربے ’چھٹ بھیئے ‘کرتے ہیں ۔وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس لکھنے کو کچھ نہیں ہوتا ۔جن کو قلم کی طاقت پر،صلابت پر بھروسہ نہیں ہوتا ،جو صرف تکنیک کی کرتب بازیوں سے عصری ادب کی تاریخ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ جو کچھ جس طرح بہتر سے بہتر کہہ سکتا ہوں ،وہ میں کہوں۔‘‘
افسانے کا فن زبان بیان اور تخلیقی قوت پر مکمل گرفت چاہتا ہے اور جس شخص کے پاس یہ صلاحیت ہو وہ اس فن میں اپنے کارناموں سے ادب میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ قاضی عبدالستار نہ صرف زُبان و بیان پر مکمل قدرت رکھتے ہیں بلکہ افسانے کے فن سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے افسانوں میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے اور افسانوی ادب میں وہ اپنا منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہیں۔
رابطہ: لکچرر اردو دیوسر کولگام
فون نمبر 9796144147-