قابلِ ستائش فیصلہ

مرکزی کابینہ نے 12سال سے کم عمرکے بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کیلئے سزائے موت کا تعین کرکے ایک اہم فیصلہ لیاہے جس سے نہ صرف جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی رونما ہوگی بلکہ کٹھوعہ میں پیش آئے واقعہ پر متاثرہ کنبے کو بھی انصاف مل سکے گا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی طرح کا قانون ریاستی سرکار کی طرف سے بھی منظور کیاجائے ،جس کا وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ذکر بھی کیاہے ۔واضح رہے کہ گزشتہ روزمرکزی کابینہ کے ایک اجلاس میں12سال سے کم عمرکے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کیلئے سزائے موت کے آرڈیننس کو منظوری دی گئی اور  اُس قانون کی منظوری بھی دی جس میں ملزمان کی ضمانتوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ ترمیم شدہ اس نئے قانون کی رو سے اب ملک میں جنسی زیادتی کی کم از کم سزا عمر قید کردی گئی ہے جو اس سے پہلے 7سے 10 سال کی قید تھی۔ساتھ ہی16 سال سے کم عمر لڑکی سے زیادتی کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 سے بڑھا کر 20سال قید کردی گئی ہے جس میں عمر قید کیلئے توسیع بھی ہوسکتی ہے ۔نئے آرڈیننس کے مطابق زیادتی کے کیسوں میں تحقیقات اور سماعت 2ماہ میں مکمل ہوگی ۔کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات تو پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں لیکن حالیہ کچھ عرصہ میں ان واقعات میں تیزی سے اضافہ ہواہے اور عصمت ریزی کرنے کے بعد متاثرہ کا قتل کردیا جانا ایک سنگین مسئلہ بن گیاہے ۔ ریاست جموں و کشمیرمیں بھی ایسے درندہ صفت عناصر موجود ہیں جو بچیوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب پائے جاتے ہیں ۔ اس کی تازہ مثال رسانہ کٹھوعہ واقعہ ہے، جس میں آٹھ سالہ بکروال لڑکی کی عصمت ریزی کرنے کے بعد اسے بڑی بے دردی سے قتل کردیاگیا اور اس واقعہ کے بعد عوامی و سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ دن بدن زور پکڑتاجارہاتھا کہ ایسے کہ ملزمان کو پھانسی کی سزائیں دی جائیں جبکہ ریاستی وزیر اعلیٰ نے بھی اس بات کا اعلان کیاہے کہ ریاست میں سزائے موت دینے کا قانون بنایاجائے گا۔وزیر اعلیٰ نے مرکزی کابینہ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس عزم کو دہرایا ہے کہ ان کی حکومت ریاست میں بھی اسی طرح کے قوانین لانے کا ارادہ رکھتی ہے تا کہ خواتین کے خلاف جرائم کا خاتمہ کیا جاسکے۔وہیںریاستی وزیر قانون عبدالحق خان نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت نے کم عمر بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے اس حوالے سے پہلے ہی صلاح و مشورہ شروع کیا ہے اورآنے والی کابینہ میٹنگ میںقانونی ترمیم کو منظوری کےلئے پیش کیاجائے گا۔رسانہ واقعہ کودیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ اب ایسا قانون وقت کی ضرورت بن گیاہے اس لئے جتنا جلد ممکن ہوسکے ضروری اقدامات کرکے پہلے سے موجود قانون میں ترمیم کی جانی چاہے اس کیلئے ریاستی اسمبلی کاہنگامی اجلاس ہی کیوںنہ بلاناپڑے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پہلے ہی اس حوالے سے ریاستی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مشورہ دیا ہے۔پہلے ایسا امکانی خدشہ ظاہر کیاجارہاتھاکہ رسانہ واقعہ پر خوا ہ مخواہ کا واویلا مچانے والے اور کیس کی تحقیقات سی بی آئی سے کروانے کا مطالبہ کرنے والے عناصر اس قانون میں ترمیم کی بھی مخالفت کرسکتے ہیں لیکن مرکزی کابینہ نے ریاستی حکومت کیلئے یہ کام سہل کردیاہے اور اب اس کی منظوری میں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے ۔ خاص کر ایسےحالات میں جب رسانہ کٹھوعہ کے واقع پر ردعمل ملک کی سرحدوں کوپھاند کر عالمی پیمانے پر سامنے آیاہے۔اس قانون کے وجود میں آنے سے جہاں عد ل و انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکتے ہیں وہیں رسانہ کٹھوعہ کے متاثرین کے ساتھ بھی انصاف ہوسکتاہے ۔سزائے موت کا قانون ایسے ارادوں اور افتاد وطبع کے حامل افراد کےلئے عبرت ناک بھی ثابت ہوگا اور آئندہ کوئی بھی شخص اس طرح کے جرم کا ارتکاب کرنے سے قبل سومرتبہ اپنے انجام کے بارے میں سوچے گا ۔بہر حال صف بندیوں کے آر پار عوامی حلقوں کی جانب سےمرکزی حکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور اب ریاستی حکومت سے بھی ایسا ہی طریقہ کار اختیار کرنے کی قوی امید کی جارہی ہے۔