فیصلہ قُدرت کا

مشتاق اور رابعہ دونوں نے اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت بھی تقریباً اکٹھے ہی کی۔ چونکہ انھوں نے اتنے سالوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لیا، پہچان لیا۔ اس لیے ان دونوں نے اب شادی کے بندھن میں بندھ جانے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ 
اس مقصد کے لیے انھوں نے بہت جتن کیے کہ یہ کارِ خیر والدین کی باہمی رضا مندی سے انجام پذیر ہو جائے۔
 مگر ایسا نہ ہوا۔ کوئی نہ کوئی رُکاوٹ آڑے آ جاتی ۔
مایوس ہو کر دونوں نے مل کر مشورہ کیا کہ آخر کیا کیا جانا چاہیے۔
قرعہ رابعہ کی تجویز پر پڑا۔
 چنانچہ اس نے مشتاق کے نام سے گمنام خط لکھا اور پھر اس خط کو اپنے والد صاحب ابراہیم کے باہر جانے والے راستے میں ڈال دیا۔
جب ابراہیم روز مررہ کی طرح اپنے کام کے لیے نکلا تو انھوں نے راستہ میںپڑا وہ خط اُٹھایا۔ خط چونکہ ہندی میں تھا، اس لئے واپس مڑ کر وہ خط رابعہ کو دینے کے لیے اندر آیا۔
’’بیٹی! مجھے یہ خط راستے میں پڑا ہوا ملا۔یہ خط ہندی میں ہے۔ ہمارے زمانہ میں اردو اور فارسی پڑھائی جاتی تھی۔ فی زمانہ ہندی کو زبردستی رائج کیا جا رہا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہندی کو بھی پڑھاتے۔ باقی زبانوں کو بھی رائج رہنے دیتے۔ مگر ہماری بد قسمتی !اردو، فارسی، عربی کو بتدریج ختم کر دیا جا رہا ہے۔‘‘
’’خیر! آپ اس خط کو پڑھیں۔ کیا معلوم اس میں کوئی ضروری کام یا مسئلہ ہو جو ہم حل کر سکیں یاکسی کی مدد کر سکیں۔‘‘
’’ویسے کسی کا خط پڑھنا بد اخلاقی ہے۔ مگر ہماری نیت نیک ہے۔‘‘
شام کو جب ابراہیم صاحب واپس گھر آئے تو انھوں نے رابعہ سے اُس خط کے بارے میں پوچھا۔
’’ابو! یہ کسی لڑکے نے اپنے اور ایک لڑکی کے والدین کے سلوک کے بارے میں شکایتاً لکھا ہے کہ وہ دونوں اتنے سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اکٹھے پڑھے لکھے ہیں اور اب نوکری بھی ایک ہی کمپنی میں لگی ہے۔ بڑی بات یہ لکھی ہے کہ وہ دونوں بالغ ہیں۔ سنتِ رسول ؐ کو نبھا کر شادی کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح کسی ممکنہ گناہ کے ارتکاب سے بچنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’بالکل صحیح لکھا ہے۔‘‘ ابراہیم نے خط کی تائید میں کہا۔
 رابعہ کو لگا کہ تیر نشانے پر لگا ہے۔اُس نے مشتاق کو یہ خوش خبری سنائی کہ والد نے خط کے متن کو پسند کر لیا ہے۔
سن کر مشتاق بھی خوش ہوا۔
اب پروگرام کے مطابق رابعہ نے اپنی ماں سے بات چھیڑی۔
ماں نے کہا:
’’ لڑکا کون ہے؟ کہا کا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کہاں رہائش پذیر ہے؟ یہ سب جاننا توضروری ہے۔‘‘
اب مشتاق ابراہیم صاحب سے اجازت لے کر ان کے گھر آیا۔
پوچھنے پر اس نے اپنی پوری کہانی بتا دی۔
’’ میرے والدین کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی معاملہ ہوا تھا۔ جیسا ہم دونوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ان کے بھی دونوں طرف کے والدین اس شادی کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔‘‘ 
’’آخر کار میری والدہ کی ایک سہیلی بیچ میں آ پڑیں اور ان کی شادی کروانے میں مدد کی۔ ‘‘
’’ایک سال کے اندر میری پیدا ئیش ہوئی تھی۔‘‘
’’بد قسمتی سے میرے والدین ایک کار حادثہ میں جاں بحق ہوئے۔ پھر میری پرورش میری والدہ کی اِسی سہیلی نے کی۔‘‘
’’آپ کی والدہ کی سہیلی کا کیا نام تھا؟‘‘ابراہیم کی زوجہ نے پوچھا۔
’’اس کا نام رضیہ تھا۔‘‘مشتاق نے جواباً کہا۔
’’اور آپ کے والدین کے کیا نام تھے؟‘‘
’’والد صاحب کا نام افضل اور والدہ کا نام حمیدہ تھا۔‘‘
’’اب سمجھی! میرے میاں اکثر ان دونوں کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کا ہمارے ساتھ کیا رشتہ ہے۔ ان کی شادی کن حالات میں ہوئی۔پھروہ کہاںجا بسے وغیرہ وغیرہ۔‘‘
’’مگر ان میاں بیوی کے ساتھ ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ کیونکہ انھوں نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔‘‘
’’ہمیں صرف یہ معلوم تھا کہ آپ کی ماں کی سہیلی نے ان کی شادی کروانے میں مدد کی ہے۔‘‘
’’پھر اسی کے صلاح مشورہ سے وہ کسی دوسرے شہر میں بھی جا بسے تھے۔‘‘
مشتاق نے یہ سب سُن کر کہا:
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں رابعہ کے چچا کا بیٹا ہوں اور رابعہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔جس کا مطلب یہ نکلا مہ میرے والد اور رابعہ کے والد آپس میں سگے بھائی ہیں۔‘‘
’’کیا اب ہم آپ کی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں ۔ جبکہ سارا مسئلہ صاف ہو گیا۔‘‘ مشتاق نے رابعہ کی والدہ سے کہا۔
٭٭٭
حال، جموں،موبائل نمبر؛8825051001