بشارت بشیرؔ
مسلمان جس دین قیم کے ساتھ وابستہ ہیں اُس نے سب سے پہلے اُن کے عقیدہ و ایمان کو مستحکم و مضبوط بنانے کے سامان کئے ہیں اور دائرہ ایمان و اسلام میں داخلہ ہی اس بات سے مشروط ہے کہ بندہ شعور کی پوری بیداری کے ساتھ ما سِوا اللہ کا ابیٰ و انکار کرکے صرف ذات واحد و یکتا رب العالمین کو اپنا معبود ومسجود تصور کرے تو لازمی طور وہی چارہ گر بھی ہوگا چارہ ساز بھی ۔ غم و الم اور فرحت و خوشی کی ساری کڑیاں اُسی کے دست قدرت میں ہیں۔اُسی کو اس کائنات کا واحد مدبر،متصرف اور تنہا نفع و ضرر کا مالک ماننا جاننا ایمان کا تقاضا ہے۔یہ جو شب و روز اور ماہ و سال اور ساعات و گھڑیاں ہیں ،سب اس کی مخلوق اور ہماری زندگی کے مراحل و منازل ہیں۔ایام و اوقات کا ہمارے لئے اچھا یا بُرا ہونا خود ہمارے اعمال پر موقوف ہے۔اگر یہ لمحات زندگی خیر کے امور میں صرف ہوئے تو فلاح یاب ہوئے اور شَر و باطل سے یارانہ اور خرافات کےپھیلائو کا وطیرہ رہا تو خسران سے بچنا امر محال ہے ۔یہی سعدونحس کا اسلامی نقطہ نظر ہے جبکہ دور جاہلیت میں یہ تصور کچھ مختلف تھا اور اُس زمانے میں بدشگونی و بدفالی کے تصور نے اُن کی زندگیوں کو خرافات کی آما جگاہ بنایا تھا اور اُنہوں نے فرحت و غم مختلف ساعات و واقعات سے منسوب کرکے اپنی زندگی کو اجیرن بنانے کے ساما ن کرلئے تھے۔اسلام نے ان سارے باطل عقائد پر خطِ تنسیخ پھیر دی اور اللہ رب العزت کی ذات پر کامل اعتماد و توکل کرکے اپنے امور کی انجام دہی کے لئے جٹ جانے کی تاکید فرمائی ۔تاریخ دیکھ چکی کہ مسلمان ان ادھام و توہمات کی جال سے باہر آئے تو دنیا اُن کے زیر نگین ہوکے رہ گئی ،وہ اللہ پر توکل کے راستہ پر گامزن رہے اور بد فالی ،بدشگونی اور نحوست کے سارے جاہلی تصورات کو لتاڑتے ہوئے ہر میدان میں فائز المرام ثابت ہوئے۔صحابی رسول ؐ حضرت ابو ہریرہؒ سے مروی ہے کہ سرور دو عالم ؐ نے فرمایا کہ نہ کوئی مرض معتدی ہے نہ بد شگونی جائز ہے ،نہ الُو کے بولنے میں کوئی تاثیر ہے اور نہ ہی ماہ صفر کی کوئی نحوست ہے (مسلم۲۲۲۰)اس واضح ارشاد نبویؐ کے بعد آج بھی مختلف مسلمان معاشروں میں بھی بدشگونی اور بد فالی کا مرض جڑ پکڑ تا جارہا ہے ۔اُلو کے بولنے ،کُتّے کے بھونکنے ،بلی کی چیختی صدائوں،چیل کے چھت پر بیٹھنے کو وہ ضرررساں تصور کرتے ہیں ۔مقام تاسف ہے کہ یہ مرض اُس ملت و اُمت کو لگ چکا ہے جو ان خرافات کو مٹانے آئی تھی اور انسان میں خود و خدا اعتمادی کی صفت کو پروان چڑھانا جس کی ذمہ داریوں میں شامل تھا ،اس نے ماہ و سال کے ساتھ بھی فرحت و غم منسوب کررکھا ہے ،شادیاں ،دکانوں ،مکانوں کا افتتاح ،امور خیر کی انجام دہی کے لئے اس نے کئی ماہ و ایام قطعی اپنے لئے ممنوع بناکے رکھا ہے ،بالخصوص محرم وماہ صفر سے تو اس نے نعوذ باللہ سارا شر منسوب کر رکھا ہے ۔اسی لئے سرور دو عالم ؐ نے اس جاہلی تصور کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ماہ و سال میں کوئی نحوست نہیں ۔نبی دو عالم ؐنے اسلامی معاشرے کو بہ نفس نفیس بفضل اللہ وجود بخشا ،اُسے صحیح اسلامی عقائد کے مطابق اعمال کو اختیار کرنے کا راستہ دکھایااور پھر اس معاشرہ نے اس راہ پر چل کے دکھائے ہوئے اپنی عظمتوں کے جھنڈے ہر قدم اور گام پر گاڑتے ہوئے اللہ پر اپنے کامل ایمان کا مظاہرہ کرکے دکھایا ۔سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیںکہ عرب شوال کو بھی منحوس سمجھتے تھے ۔ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس ماہ میں کوئی شادی انجام دی جائے اور نہ کسی مہم پر نکلا جائے کیونکہ اس ماہ میں کوئی عمل اور کام کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوتا ۔مزید فرمایا کہ نبی کریمؐ نے اس غلط رسم کو ختم کردیا اور آپؐ نے میرے ساتھ شوال میں ہی نکاح فرمایا تھا ۔پھر یہ دیکھیں کہ رسول اللہ ؐ کی کون سے زوجہ مجھ سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوئیں(مسلم ۳۵۴۸)اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ سیدہ عائشہؓ اپنے خاندان کی بچیوںکی شادی کے لئے شوال کے مہینے کا ہی تعین کرلیتی تھی تاکہ اس ماہ کے بارے میں کہیں پھر وہ جاہلانہ عقائد سر اُٹھاکر اُمت کے اللہ پر صفت توکل و اعتماد کی عمارت کو نہ ڈھادیں۔اب ماہ صفر کو لیجئے ،اہم امور کی انجام دہی اس ماہ مبارک میں ہوچکی ہے ۔اسی صفر کے مہینے میں آپ ؐکا نکاح حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓسے ہوا ہے اور سیدہ فاطمہؓکا نکاح بھی اِسی ماہ میں سیدنا علیؓ سے انجام پایا ہے۔اسی ماہ مظفر میں تاریخ اسلام کے چند واقعات کی رونمائی بھی ہوئی ،غزوہ ابو اودان صفر ۲ ھ میں ،واقعہ رجیع ۴ ھ میں اور واقعہ بیر معونہ صفر ۴ ھ میںرونما ہوچکے ہیں جبکہ سیدنا خالد بن ولیدؓ اور سیدنا عمر و بن عاصؓ سال ۸ ھ کے ماہ ِ صفر میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں اور اس ماہ میں سیدنا عثمانؓ بن طلحہ بھی مسلمان ہوچکے ہیں ۔وفد بنو عزرہ بھی ۹ ھ،صفر کے مہینے میں ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوچکا ۔لشکر سیدنا اُسامہؓ بن زید کی تیاری صفر ۱۱ھ میں ہوئی ،فتح مدائن صفر ۱۶ ھ میں نصیب ہوئی ۔ پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ بھی صفر ۱۳۳۷ ھ میں ہوا۔اس طرح بہت سارے واقعات کو گِنا جاسکتا ہے جو ان ماہ وسال میں انجام پاتے ہیں ۔اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو بھی کلی طور مسلمان کے ایمان میں یہ بات داخل ہے کہ ان گھڑیوں میں بذات خود کوئی نفع و ضرر نہیں بلکہ یہ اختیار اللہ کی مبارک ذات کو ہی حاصل ہے۔اس لئے ان مہینوں میں شادیوں اور امور خیر کی انجام دہی سے رُک جانا یہ شرکیہ اعمال ہیں اور ان سے اجتناب لازمی ہے۔واضح رہے کہ کسی وقت یا ساعت کو منحوس سمجھنے کی نہ صرف اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ ایک قبیح عمل ہے۔اور یہ دراصل اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے زمانہ میں جو شب وروز پر مشتمل ہے ،نقص اور عیب نکالنے کے مترادف ہے۔اس بات سے نبی رحمت ؐ نے اُمت کو یوں روک دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے۔وہ وقت (دن ،ماہ اور سال)کو گالی دیتا ہے ،حالانکہ وقت (زمانہ) میں ہوں، بادشاہت میرے ہاتھ میں ہے اور میں ہی دن اور رات کو بدلتا ہوں (صحیح بخاری ۔کتاب التفسیر)قرآن و سنت کی تعلیمات کا خلاصہ اور نبی کریم ؐ و اصحاب رسول ؓ کی مبارک زندگیوں سے ہدایت کا یہی نور پھوٹتا ہے کہ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل توکل رکھے اور اللہ کے اس فرمان پر اُس کا کامل ایمان ہو۔’’اگر اللہ تجھے کسی رنج میں ڈالے تو خود اس کے سِوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو کوئی پھیرنے والا نہیں ۔وہ اپنے بندوں پر جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگذر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے (یونس)۔
اللہ کی ذات پر اصل ایمان کا اعتماد اتنا قوی ہو کہ ساری دنیا درپۓ آزار ہوجائے تو بال بیکا نہیں کرسکتی اور کُل عالم کی مخلوق دینے پر آجائے ،نہیں دے پائے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی رضا نہ ہو۔ارشاد ِسرور دو عالم ؐ ملاخطہ فرمائیے،اور ہم اس روشنی میں اپنے شب و روز کا جائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔فرمایا :’’جان لو اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچائیں تو وہ کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے مگر وہی جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھا ہے ،اور اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچائیں تو وہ تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ،مگر وہی جو اللہ نے تم پر لکھا ہو۔‘‘
ہاں اللہ تعالیٰ پر کامل توکل ہی ایک اہل ایمان کی فلاح و صلاح کا ضامن بن جاتا ہے اور اس صفت اور زیور سے جو مومن مزین ہو ا اُس کی قسمت کے کیا کہنے ۔نبی دو عالم ؐ کا ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ہے کہ ’’مجھے میری اُمت کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ آپ کی اُمت ہے ،اُن میں سے ستر(۷۰)ہزار ایسے ہیں جو پہلے جنت میں جائیں گے ،ان پر کوئی حساب او ر عذاب نہیں ہوگا ،نبی ؐ نے فرمایا :میں نے پوچھا یہ کس وجہ سے بغیر حساب و کتاب جنت میں جائیں گے تو جبریل ؑ نے جواب دیا :(ان کی صفت یہ ہے) کہ وہ اپنے جسم کو نہیں داغتے ،نہ ہی دم کرواتے (اگرچہ شرعی طوردَم کرانا جائز ہے)نہ کسی چیز کو منحوس سمجھتے ہیں اور وہ اپنے رب پر کامل توکل و اعتماد کرنے والے تھے۔‘‘ان ارشادات کی روشنی میں آئیے ہم اپنی زندگی کا محاسبہ کریں کہ ہم کتنے و اہمات و خرافات کے شکار ،شکوک و شبہات کے جال کے اسیر اور شگون و بد شگونی کے جھنجٹ میں پھنسے ،کس قدر اپنی زندگیوں کو دوبھر بنائے ہوئے ہیںاور کون سا ایسا کا م ہے جس کے بارے میں اس معاشرے کے لوگ یہ یقین نہیں رکھتے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ یہ کام کیا جائے یا موخر کردیا جائے یا کلی طور چھوڑ دیا جائے ۔ کچھ شکم پرست لوگوں نے تو دین اور روحانیت کا لبادہ اوڑھ کر ان کمزور عقائد کے لوگوں کاخوب استحصالی دھندہ عرصہ سے شروع کر رکھا ہے اور یہ لوگ بھی ’’خیر و شر‘‘کی پوٹلی لے کر یہ باور کررہے ہیں کہ وہ بندوں کے نفع و نقصان کے حوالہ سے خوب علِم رکھتے ہیںاور اس بنیاد پر وہ امور کی انجام دہی کے لئے اُنہیں مخصوص اوقات میں کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور انہوں نے عام لوگوں کے ذہن کو مسموم کرکے رکھدیا ہے۔یہ سال کیسا ہوگا ،اس ہفتہ کیا حال رہے گا ،یہ ماہ ترقی کے لحاظ سے کس حد تک فائدہ مند ہوگا ،بہت سارے لوگ بے چارے اس پریشانی میں ان دوکانوں کی زینت بن رہے ہیں اور جس رب جلیل کی چو کھٹ کے پاس مفت اُن کے درد کا درماں پوری فراوانی سے موجود ہے اُس جانب یہ جاتے ہی نہیں ،یقیناً اللہ کے سوا کوئی خیر و شر دینے پر قادر و غالب نہیں۔یاد رہے جو لوگ کمزور عقائد کے ہوتے ہیں ،بزدلی اُن کے مزاج کا خاص حصہ بن جاتی ہے اور نتیجتاً وہ کام میں خوف کھاتے ہیں اور انہیں منزل ہاتھ نہیں آتی ،اور ایسے لوگ جب ان کی مراد اِدھر اُدھر سے بھر نہیں آتی ہے تو خود مضحکہ خیز بن جاتے ہیں اور اپنے کردہ افعال پر نہ صرف نادم ہوتے ہیںبلکہ جس پر تکیہ کیا تھا ،واشگاف الفاظ میں اُسے اِدھر اُدھر کی کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔
اس عالم ہست و بود میں نجم اور ستاروں کا علم رکھنے کے دعویدار بھی اپنی دنیا خوب بنا رہے ہیں اور یہ بے چارے جہلاء یہ تک نہیں جانتے کہ یہ محض دعوے اور اندازے میں اوروںکی دنیا کی چولیں ہِلاکر اپنی دنیا آباد کرنے کا راستہ ہے اور کچھ نہیں۔اقبال نے اسی مقام کی جانب اشارہ کرکے ان’’ انجم شناسوں‘‘ کے کوچوں کی خاک چھاننے والوں سے مخاطب ہوکے کہاتھا ۔؎
تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ ؒاک ِ زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں
ملت کی درماندگی کے دوسرے اسباب کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے عقیدہ کی اس کمزوری نے بھی اقبال کو زار زار رُلایا تھا اور اُس نے برملا کہا تھا ۔ ؎
منجم کی تقویم فردا ہے باطل
گرے آسماں سے پرانے ستارے
یعنی :اے مسلمانو!نجومیوں کی پیشگوئیوں پر اعتماد مت کروان کی تقویم باطل ہے مطلب یہ کہ تم جاہل پیروں ،فقیروں کے ہتھے مت چڑھ جائو ،کیونکہ جن علوم پر ان کا مدار تھا وہ تو مدتوں سے ساقط الاعتبار ہوچکے ہیں،تقویم پارینہ بن چکے ہیں۔اے کاش اہل ایمان نفع و ضرر کے قرآنی اور نبویؐ اصولوں کو سمجھ لیں اور راحت و خوشی کے حصول اور غم و اندوہ کے خاتمہ کے لئے اُسی ماخذ کی جانب رجوع کریں تو فلاح یاب ہوں گے ۔سورۃ الفلق،سورۃ الناس کا ورد کریں ،شیاطین سے بچائو اور ہموم و غموم سے دوری کے لئے معتبر کتابوں سے مسنون دعائیں پڑھ کر یاد کرلیں پھر ان میں خشوع و خضوع کا جو ہر ہو تو مستجاب اور عوات بن جائیں گے ،رزق حلال اور صدق مقال ہو تو راحت گھر کی دہلیز پہ آئے گی اور ہر کام کی انجام دہی کے لئے یوں دست بدعا ہوں ۔رَب َیسِر ولا تُعَسِر و تَمِم با الخیر ۔(ترجمہ):اے میرے رب میرے کام کو آسان بنادے ،مشکلات دور فرمادے اور اس کام کو خیر و برکت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچادے ،تو یقیناً کام ہوکے رہے گا ۔اللہ تعالیٰ ہدایت سے نوازے ،آمین
(رابطہ۔7006055300)