فکری دور میں لٹریچر کی اہمیت اور افادیت

انسانی تاریخ کا المیہ ہے کہ صنف نازک کو ہر دور میں مکمل اکائی سمجھنے کے بجائے محض ایک ضمیمہ تصور کیا گیا۔تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو ہمیں قبل اسلام عورتوں کا کوئی کلیدی کردار سماج کو بنانے میں نظر نہیں آتا۔زمانہ ٔجاہلیت میں بعض قبائل عرب تو درندگی کی حدکو پھلانگ چکے تھے، چنانچہ وہ اپنے بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے، لیکن اسلام نے حواکی بیٹیوں کوعزت واحترام سے نوازا۔عہدنبوی اور خلافت راشدہ میں ہر شعبہ زندگی میں خواتین اسلام کے نمایاں اور واضح نقوش نظر آتے ہیں۔ نبوت جیسی اہم ذمہ داری کو نبھانے اور ثابت قدمی کے ساتھ دعوت ِالٰہی کو عام کرنے میں حضرت خدیجہ ؓ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی ہی نہیں بلکہ سب سے پہلے ایمان لاکر ان کی صداقت و امانت داری کی شہادت اور غیر متزلزل ستون بن کر آپ کو سہارا دیتی ہیں۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ خواتین کے حوالے سے زمانہ جاہلیت کے تصورات نے دوبارہ انگڑائی لے کر اسلام کی تعلیمات پر بظاہر 'غلبہ پاکر تعمیر معاشرہ کے تئیں خواتین کے رول کو کسی حد تک محدود کیا یا پھر انہیں سرے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے روکا گیا۔اس بات کی کوئی ٹھوس کوشش ہوئی ہی نہیں کہ خواتین مقصد حیات سے وابستہ ہوں۔وہ آبادی کا نصف ہیں، اس لحاظ سے انہیں نظر انداز کرنا سراسر ظلم ہے۔اگرچہ خواتین کے حقوق کے نام پر کچھ کتابیں اور تقریریں کی جاتی ہیں لیکن عملاً کوئی روڑ میپ موجود نہیں ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین خود پہل نہیں کرتیں ، اگر کرتی بھی ہیں تو وہی دو چار مسائل مثلاً پردہ، حیا، بچوں کی تربیت وغیرہ پر ان کا فوکس ہوتا ہے۔دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور صحابہؓ میں معاشرہ کی تعمیر میں خواتین کا ایکٹو رول رہا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ رول سمٹ کر رہ گیا۔دوسرے قوموں کے رسوم کی وجہ سے ان کی کی یہ چلت پھرت بہت کم ہوگئی، جب تک نہ خواتین خود آگے آئیں، اپنے مسائل پر غور و فکر کریں، معاشرہ کی تعمیر کے سلسلے میں پروگرام و پالیسی خود بنائیں، تب تک کسی ٹھوس تبدیلی کے امکانات کم ہیں۔ہمارے ارد گرد ایسی بہت سی خواتین ہیں جو با صلاحیت ہیں لیکن مردوں نے انہیں حقوق اور ذمہ داریوں کے نام پر کافی ڈرا دیا ہے۔اس وجہ سے وہ اپنا رول معاشرہ میں نہیں نبھا پاتی اور اپنی صلاحیت وہاں دیتی ہیں، جہاں صرف اور صرف استحصال ہے۔
آج کا دور فکری دور ہے۔فکری دور میں اپنی بات پہنچانے کے لیے لٹریچر کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے خواتین کے حوالے سے ایسی کوششیں کم ہوئی ہیں ، البتہ کچھ خواتین جو با صلاحیت ہیں اور دردِ دل بھی رکھتی ہیں، اب آگے آنے لگی ہیں۔چند ماہ قبل ایسی ہی خواتین کے ذریعہ ایک 'ای میگزین کی شروعات کی گئی ۔یہ میگزین روایات سے ہٹ کر ہے،میگزین کی presentation بہت ہی اعلی ہے۔مواد تو بہترین ہے ہی لیکن عملی بھی. ماہ اکتوبر کا شمارہ بچیوں کا عالمی دن (حقوق، تحفظ اور ترقی) ہے، شمارہ کی خاص بات یہ ہے کہ لکھنے والوں کی اکثریت خواتین ہیں۔وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔اس شمارے میں میگزین کی ایڈیٹر خان مبشرہ فردوس لکھتی ہیں: ’’بیماری کے بعد اس سے بچاؤ کے لیے دوا کھانا تو لازمی ہے، تاہم تحفظ کے اقدام سے پہلے بھی ایک مرحلہ ہے اور وہ ہے احتیاط کا۔ احتیاطی تدابیر وہ لوگ کرتے ہیں جو دور رس نگاہ رکھتے ہیں، جنہیں نتائج کا اندازہ وقت سے بہت پہلے ہوجاتا ہے۔ پینڈمک کے اس دور میں ہر شخص دل سے اس بات کا قائل ہے کہ احتیاطی تدبیر، علاج سے بہتر ہے‘‘۔
خواتین اور بچیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں تحفظ تو سکھاتی ہیں، لیکن احتیاط کو غلامی سے عبارت کرتی ہیں۔ جبکہ احتیاطی تدبیر کا اختیار کرنا کسی کی غلامی نہیں، بلکہ معقول، حکیمانہ اور فطری طرزِ عمل ہے۔کہا جاتا ہے کہ کورونا سے بچنا ہے تو ماسک لگانا ضروری ہے۔کیا احتیاطاً ماسک لگانا ،سینی ٹائزر کا استعمال کرنا اور سوشل ڈسٹینسنگ کو ملحوظ رکھنا غلامی ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر خواتین کی احتیاطی تدابیر کو کیوں کر غلامی سے تعبیر کیا جاتا ہے ؟‘‘مزید لکھتی ہیں :
"عورت کو عریاں کرنے والا معاشرہ بھی عورت کے تحفظ کے لیے از حد پریشان ہے کہ کیسے عورت کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے؟ضروری ہے کہ ان اقدامات کو لائحہ عمل بنائیں جو اسلامی شریعت کی دین ہیں۔ صرف انھیں کو اپنا کر خواتین کا تحفظ ممکن ہے۔" مدیرہ خواتین کا تحفظ کرنے والی نام نہاد تنظیموں پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: "خواتین اور بچیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں تحفظ تو سکھاتی ہیں، لیکن احتیاط کو غلامی سے عبارت کرتی ہیں۔ جب کہ احتیاطی تدبیر کا اختیار کرنا کسی کی غلامی نہیں، بلکہ معقول، حکیمانہ اور فطری طرزِ عمل ہے۔"سمیہ عنایت اللہ سبحانی نے درس قرآن کے تحت سورہ النساء آیت 4 کے تحت 'مہر کی وضاحت کی ہے لکھتی ہیں :" عورتوں کو ان کے مہر دے دو۔ ’ان کے مہر‘ سے مراد ہے کہ یہ ان کی قیمت نہیں کہ جب دل چاہے دے دینا اور یہ بھی نہیں کہا کہ دے دیا تو اچھا ہوگا،بلکہ فرمایا ہے کہ’ دے دو‘۔ پھر مزید وضاحت ہے کہ ’نِحْلَۃً‘،یعنی دل کی آمادگی، خوشی اور محبت سے دو اور اس میں زبردستی یا مجبوری والی کیفیت نہ ہو۔ عموماً سماج میں یہ مزاج عام ہے کہ مہر کی قیمت کا کئی گنا جہیز لے کر بھی لوگ مہر ادانہیں کرتے۔"نام نہاد فمنسٹ مہر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ ایک طرح سے لڑکی کو بیچناہے، اس سے خواتین کی تذلیل ہوتی ہے۔سمیہ اس کا جواب دیتی ہوئی رقمطراز ہیں :" اس آیت کے دو حصے ہیں: پہلے حصہ میں مہر کے ادا کرنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مہرعورت کے باپ یا بھائی کے حوالے نہ کیا جائے، کیوں کہ وہ عورت کی قیمت نہیں ہے۔ بلکہ عورت کو ہی دیاجائے، کیوں کہ وہ اس کا حق ہے۔ اس کی ادائیگی میں اختلاف اور طلاق کا انتظار نہ کیا جائے، بلکہ شادی کے ساتھ ہی خوش گوار ماحول میں ادا کر دیا جائے۔"خان سعدیہ نے مسلم شریف کی حدیث: ’’جس شخص نے جمع خوری کی، وہ خطا کار ہے‘‘ کے تحت بہترین وضاحت کی ہے،لکھتی ہیں:" اسلام نے معاشی حقوق کے جو ضابطے بنائے ہیں، ان میں ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے، چاہے تاجر کرے یا صنعت کار۔شریعت نے عوام الناس کو نقصان پہنچا کر اشیائے ضرورت کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے سے منع کیا ہے۔ فقہ کی اصطلاح میں ا سے ’احتکار‘ کہا جاتا ہے۔" 
شائستہ رفعت نے بچیوں کا عالمی دن حقوق، تحفّظ اور ترقی. پر بہترین مضمون لکھا ہے، انہوں نے اپنے مضمون میں ہر پہلو کا جائزہ لیا ہے لکھتی ہیں " لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک، لڑکوں کو لڑ کیوں پر ترجیح، مساوی مواقع سے لڑکیوں کو محروم رکھنا ، یہ وہ رویے ہیں جو لڑکیوں کی نشو نما اور ان کی صلاحیتوں کو جلا پانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ جہیر اور لین دین کے بے جا اور بڑھتے ہوئے رواج نے بچیوں کے وجود کو بو جھ بنادیا ہے ۔ جہیزی اموات، گھر یلو تشد داور بچیوں پر تشدد کے واقعات اس بات کے مظہر ہیں کہ سماج میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔" ظاہر ہے جس معاشرہ میں عورت کو کم تر سمجھا جاتا ہے اس معاشرہ میں خواتین کیسے اپنا رول ادا کر سکتی ہے۔ایک دن منانے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں شائستہ لکھتی ہیں :" صنفی امتیازات کا شکار ، تعلیم اور مساوی مواقع سے محروم ، ان چاہی اور بوجھ سمجھی جانے والی یہ لڑکیاں جو غیر محفوظ ماحول میں ڈری سہمی ہوئی ہیں، یہ ہمارے خوابوں کی تعبیر کیسے دے سکیں گی۔ ایک دن بیٹی کے نام کر کے کیا ہم ان کو تحفظ دے پائیں گے؟ کیا کچھ نعرے بلندکر کے ہم ان کے حقوق کی پاسبانی کا فریضہ انجام دے سکیں گے؟ سماج کی ذہنیت ایک ڈے منانے سے نہیں بدلی جاسکتی۔"       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
رابطہ۔ بارہمولہ 
مبصر کا واٹس اپ۔ 9906653927
میگزین کا رابطہ haadiya.in
������