ساون کا مہینہ تھا ۔آسمان پر تھوڑے تھوڑے بادل چھائے ہوئے تھے۔ سورج بادلوں کے پیچھے اپنی منزل کی جانب گویا لڑھکتا ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہواچل رہی تھی ۔
میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھی تھی ۔میرے ہاتھ میں ایک کتاب اور میں اسکا مطالعہ کر رہی تھی۔میں نے بائیں جانب دیکھا ۔اپنے پڑودسی کے لڑکے عد نان کو پایا۔اس کی عمر یہی کوئی دس،گیارہ سال کی ہوگی۔وہ خندہ پیشانی سے میرے روبروہوا اور مجھ سے پوچھا ،
’’دیدی آپ کیا پڑ ھ رہی ہو‘؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’سائنس پڑ رہی ہوں ‘‘۔’’
’’اوہ!۔آپ بھی ڈاکٹر بنو گی؟‘‘اس نے حیرت سے پوچھا ۔
’’نہیں میں ٹیچر بننا چاہتی ہوں َ‘‘۔
میں نے سر سری نظر سے سے اسکی جانب دیکھ کر کہا ۔میں بدستور اپنی کتاب کا مطالعہ کرنے لگی۔عد نان مجھ سے سوال پہ سوال کرنے لگا ۔میں نے ان کی باتوں پر توجہ نہ دی اور نہ ہی میں نے ان کی کسی بات کا جواب دینا مناسب سمجھا۔ اُسے بھی کوئی فرق نہ پڑا۔
خیرکچھ ساعت کے بعدمجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی کتاب بند کرنی پڑی۔میں خاموشی سے عدنان کے چہرے کا معائنہ کرنے لگی۔اس نے مجھ سے کہا ۔
’’دیدی میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنو نگا۔۔۔۔۔سب کو انجکشن لگائوں گا؟۔دیدی، امی کہتی ہیں کہ محنت کرنا اور خدا سے دعا مانگنا وہی آپ کو ڈاکٹر بنائے گا‘‘ ’’ کیا خدا میری دعا قبول کرے گا؟‘‘۔
اس نے حیرت سے میری جانب دیکھ کر کہا ۔۔۔یہ بات میرے دل میں پیوست ہوگئی۔۔۔میں نے بڑی شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر کیا ۔’’ہاں ہاں میری جان خدا تمہاری دعا ضرور قبول کرے گا‘‘۔’’تم جو اس قدر معصوم ہو ۔۔۔۔۔۔۔پھول کی مانند‘‘ ۔۔۔۔۔
ہمارے درمیان گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ اچانک عد نان کا چھوٹا بھائی ثاقب ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔۔۔۔ اور ہنس کر بولا۔۔۔۔۔’’ٹھنگے کا ڈاکٹر! اس جیسے کا اگر کوئی ڈاکٹر بنے گا ۔تو لوگوں کو انجکشن سے ہی مار دے گا۔ ‘‘
’’دیکھنا دیدی ۔میں بڑا ہو کر ڈارئیور بنوں گا اور گاڑی چلاوں گا‘‘۔۔۔۔۔۔
’’ہاہ ہاہ ہاہ ہاہ۔‘‘عدنان یہ سن کر زور زور سے قہقے مار نے لگا۔کچھ وقت کے بعد اپنی ہنسی پرقابو پاکر اس نے میری جانب متوجہ ہو کر کہا۔
’’دیدی ۔بچے بڑے ہو کرڈاکٹر،انجینئر ،پروفیسر،تاجر بنتے ہیںاور ثاقب بڑا ہو کر ڈارائیور بنے گا‘‘۔۔
یہ کہتے ہوئے عد نان اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ثاقب کو یہ بات ناگوار گزری۔ثاقب کا چہرہ مارے غصے کے سرخ ہو گیا۔اس نے جھپٹ کر عد نان کا کالر پکڑااور زور کاطمانچہ مارا۔عد نان کو جھٹکا سا لگا۔دونوں جھگڑنے لگے۔۔۔میںنے دونوں کو ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس لایا۔۔۔۔شفقت سے بٹھایا۔دونوں کو سمجھایا۔دنیا میں کوئی بھی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔کام کام ہوتا ہے چاہے وہ کچھ بھی کیوں نہ ہو ؟یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے فیرن کی جیب سے دو ٹافیاں نکالیں۔دونوں کو ایک ایک دی۔ ٹافیوں کو دیکھ کر دونوں بہت خوش ہوئے ۔ایسا لگ رہاتھا کہ انہیں پورے جہاں کی خوشیاں مل گئیں۔۔ وہ ابھی ایک ساتھ کہ عد نان نے ثاقب کی جانب دیکھ کر کہا ۔ ’’دیکھو میری ٹافی اندر سے سنگترے کے رنگ کی ہے ۔‘‘؟
’’اوہ! واقعی میں‘‘
ثاقب سے حیرت سے کہا۔۔۔۔
’’آپ بھی کھولو اپنی ٹافی‘‘ عد نان بولا۔
’’ہاں میں بھی دیکھوں گا میری ٹافی کس رنگ کی ہوگی ‘‘۔۔
یہ کہتے ہوئے ثاقب نے اپنی ٹافی کھولی ۔۔۔۔
’’اوہ! میری بھی سنگتری رنگ کی ہے‘‘ثاقب نے چونک کر بولا ۔دونوںخوشی خوشی چبانے لگے۔جیب سے گونٹیاں نکال کر کھیلنے لگے ۔انہیں دیکھ کر میں بھی خفیف سی مسکرائی۔ لیکن پھر میری مسکراہٹ مایوسی میں تبدیل ہوئی ۔میرے دل میں خیال آیا آج انسان ذلیل و خوار ہو رہا ہے ۔انسانیت کھو چلی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ایک قوم دوسری قوم کی بربادی کی پیاسی ہے ۔ بغض،نفرت،حسد،اونچ نیچ،ذات پات،سماجی نا برابری،قتل و غارت عام ہو گئی ہے۔میں سوچنے لگی کہ اگر اس دنیا میں عدنان اور ثاقب کے جیسے صاف دل انسان رہتے ہوںتو یہ دنیا کتنی خوبصورت ہوگی؟‘‘ میں ان ہی خیالوں میں محو تھی کہ دفعتاًساجہ چاچی نے زور سے عدنان کو آواز دی۔۔۔۔۔
عد نان آو۔۔عدنان۔۔۔۔ ۔عدنان۔۔۔آو۔۔۔۔ عدنان۔یہ آواز سن کر مجھے یک دم جھٹکا سا لگا، جیسے میں کسی گہری نیند میں تھی اور اچانک سے کسی نے مجھے جگا دیا ۔میں نے پیچھے مڑ کردیکھا عدنان اورثاقب گھونٹیاں کھیل رہے تھے۔انہیں اپنی امی جان کے بلانے کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ایک بار ساجہ چاچی نے اور زور سے آواز دی ۔یہ سن کر یکدم عدنا ن بول پڑا۔
’’جی امی آیا‘‘اس پر ساجہ چاچی نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔
’’ ذر ادھر تو آنا’’ثاقب کو بھی اپنے ساتھ لانا اور ہاں جلدی آنا مجھے اور بھی باقی کام ہیں ‘‘
’’جی امی آیا‘‘یہ کہتے ہوئے عدنان نے ثاقب سے کہا۔۔۔
’’انشا ء اللہ !بھیڑوں سے واپس آکر پھرکھلیں گے ۔۔اور دیکھنا اس بار ہم جیتے ہیں گھونٹیاں ‘‘
’’ہاں ۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔دیکھتے ہیں کون جیتا ہے ‘‘؟ثاقب طنز سے بولا۔
اسی لمحے میں ساجہ چاچی نے بھیڑوں کو کھول کر ان کے پاس لایا ۔میں نے پوچھا
’’ کہاںلے جا رہے ہو ان بھیڑوں کو ؟‘‘
عدنا خوش ہو کر بولا
’’آج ایتوار ہے ۔ہم جائیں گے ۔۔۔آج بھیڑوں کے ساتھ‘‘
اس نے ایک چھوٹی سے چھڑی ہاتھ میں لی اور بھیڑوں کو ہانکنے لگا۔۔۔۔۔اس کے ہونٹوں پر ایک البیلی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔یہ دوچار قدم آگے جا کر میرے پاس آیا۔اپنی جیب کو ٹٹول کر گونٹیاں نکال مجھ سے کہا ۔
’’یہ دیکھو دیدی میں نے کل جیتی تھیں۔اپنے دوستوں سے ‘‘
میں نے غور سے ان گونٹیوں کی جانب دیکھا ۔واقعی کچھ دس پندرہ تھیں۔
’’دیدی آنا شام کو ہمارے ساتھ کھیلنے‘‘اس نے مسکرا کر ہماری جانب دیکھ کر کہا ۔۔
نہیں آپائوں گی۔ مجھے در اصل آج شہر جاناہے،قیوم چاچا کے ساتھ ۔ امتحانات آرہے ہیں میرے اگلے ہفتے سے‘‘
یہ سن کو عد نان کا بھرا لمحہ اُداس ہوا ۔لیکن جلدہی یہ اداسی مسکراہٹ میں تبدیل ہوئی ۔اس نے یک دم خوش ہو کر جیب میں ہاتھ ڈال دیا ۔جیب کو ٹٹول کر ریزگاری ایک ایک کر کے نکالی اور اپنی معصوم سی ہتھیلی پہ انہیں گن کر مجھ سے کہا۔
’دیدی یہ لو دس روپے۔۔۔۔۔۔ہم نے سُنا ہے ،شہر میں کافی گونٹیاں ملتی ہیں ۔جب آپ واپس آئوگی ۔شہر سے ہمارے لئے گونٹیاں لے کرآنا‘‘میں نے مسکرا کر کہا۔۔۔
’’عد نان آپ یہ پیسے اپنے پاس رکھ لو۔میں خود آپ کے لئے گونٹیاں لے کر آوں گی‘‘
ہمارے درمیان گفتگو ہو رہی تھی کہ اسی اثنا ء میں ساجہ چاچی نے گھر کی سے آواز دیکر مجھے سے کہا
’’تجھ کو کوئی کام نہیں ۔۔۔۔اتنی بڑی ہو کر بچوں کے ساتھ گونٹیاں کھیلتی ہو‘‘ ۔ ’’ارے عدنان !بھیڑیں بھاڑی میں گُھس گئیں، ساری سبزی کھاگئیں ہیں۔دوڑکے جا ۔دیکھ تو آ۔بھیڑیں کہیںپڑوسیوں کی بھاڑی میں تو نہیں‘‘۔۔۔۔
جی ہاں! امی جان جا رہا ہوں۔۔۔خوامخواہ دیدی کو کوستی رہتی ہو‘‘۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے عدنان دوڑ پڑااور دوڑتے دوڑتے مجھ سے کہا۔۔۔۔دیدی۔۔۔۔گونٹیاں لے کے آنا بھولنا نہیں۔میں جا رہا ہوں، یاد رکھنا۔اور ہاں الگ الگ قسم کی لانا‘‘۔۔۔
میں عدنان کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔۔اسکے چہرے پر خوشی چھائی تھی۔ہاتھ میں ایک معمولی سی چھڑی۔۔بھیڑوںکو ہانکتے ہانکتے آگے کی جانب بڑھنے لگااور سُریلی آواز میں گنگنانے لگا۔اس کے گنگنانے سے سارا نالہ گونج اُٹھا۔یہ گو نج درختوںپر بیٹھے پرندوںکے کانوں میں گئی۔وہ بھی مد ہوش ہو کربرابر عدنان کے ساتھ گُنگنانے لگے۔یہ آواز سن کر ناکہیں ہوانے بھی اپنی رفتار تیز کر دی،جو دُور کسی پہاڑی سے چل رہی تھی ۔میں نے پہاڑی کی جانب دیکھا۔دفعتاً ایک ہوا کا جھونکا آیا ۔اس نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے ۔۔۔۔’’میرے لئے بھی گونٹیاں لے کر آنا’’‘‘میرے لئے بھی گونٹیاں لے کر آنا‘‘’’ ہاں ضرور لانا ‘‘میں یکدم کھڑی ہوئی اور دونوں کانوں میں انگلیاں ڈالی دیں ۔ادھر اُدھر دیکھنے لگی تو نگاہ پھر سے عدنان کی جانب گئی ۔
وہ برابر بھیڑوں کو ہانکتا رہا۔میں زیر لب مُسکرائی اور اسے دیکھتی رہی۔
جب تک نہ وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔۔۔۔۔دفعتاًامی جان نے مجھے پیچھے سے آواز دی ۔
’’فاطمہ بیٹا ادھر آنا‘‘
’’جی امی جان آئی ‘‘اسی لمحے میں تُندقدموں سے اَمی کی روبُروہوئی۔امی بولی۔۔۔۔۔
بیٹا فاطمہ شہر جانے کی تیاری کرو۔آپ کے قیوم چچا، بس ابھی آتے ہوں گے۔وہ کہہ رہے تھے کہ فاطمہ کو تیار رہنے کے لئے کہنا ورنہ وقت پر گاڑی نہیں ملے گی‘‘
ہم دونوں کی ابھی بات ہی ہو رہی رہی کہ دفعتاً قیوم چچا آیا۔۔۔۔۔۔اس نے مجھ سے کہا
’’بیٹا جلدی تیاری کر‘‘۔
خیر میں تیار ہوئی۔امی سے رخصت لی ۔۔۔۔۔۔۔کچھ وقت کے بعد ہم بس اسٹینڈ پہنچے۔۔۔بس نکلنے والی ہی تھی ۔ہم بس کی جانب دوڑتے ہوئے آگئے ۔بس میں پیچھے صرف دو نشستیں خالی تھیں ۔ہم بیٹھ گئے اورشہر کے لئے روانہ ہوئے ۔کچھ وقت کے بعد ہم شہر پہنچے ۔میں گاڑی سے نیچے اُتری۔میں نے بائیں جانب دیکھا،وہاں ایک دکان کے شوکیس میں میں نے کافی گونٹیاں دیکھیں ۔ان گونٹیوں کو دیکھ کر بہت مایوس ہوئی ۔
عدنان ہوتا توکتنا خوش ہوتا۔اوہ!آج ایتوار تھی ۔لایا ہوتا میں نے اسے اپنے ساتھ۔چلو کوئی بات نہیں اگلی بار میں ساجہ چاچی سے بات کر کے اسے یہاں لائوں گی ‘‘۔
میں خود سے بڑ بڑا کر دکان کے اندر داخل ہوئی ۔اپنے پرس سے20روپے نکال کردکاندار سے کہا ۔
بھائی جان مجھے بیس روپے کی ہر رنگ کی گونٹیاں دینا ‘‘
اُ س نے گونٹیوں سے بھرا لفافہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔شکریہ کہتے ہوئے میں نے رقم ادا کی۔قیوم چاچا نے اشارے سے رکشا والے کو پاس بُلایا۔میں رکشا میں بیٹھی۔کچھ وقت کے بعد ہم اُس جگہ پہنچے جہاں پر ہم نے کرایہ پر رہنے کے لئے کمرہ لیا۔ہم نے کھانا کھایا۔قیوم چاچا کام کے سلسلے میں بازار چلے گئے۔،میری آنکھ لگ گئی۔۔میں نے خواب دیکھا۔میں نے عدنان اور ثاقب کو سفید کپڑوں اور ہاتھوں میں رنگ برنکی گونٹیوں کا گچھا لے کہ کہیں دورپھولوں کی وادی کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھا ۔میں بیدار ہوئی۔ ادھر ادھر دیکھا ۔کسی کو نہ پایا۔ٹیبل پر رکھی ہوئی گونٹیوں کی جانب نظر پڑی،جو میںنے کچھ وقت پہلے ٹیبل پررکھی ہوئی تھیں ۔ گونٹیوںکو دیکھ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
میں جلدی سے تیار ہو کر کالج کے لئے نکلی۔دوستوں سے ملی۔امتحانات مؤخر ہوئے۔یہ سن کر میں بے حد خوش ہوئی۔دوستوں سے رخصت لے کر میں واپس لوٹی۔قیوم چچا انتظار کر رہا تھا۔میں بھی انکے ساتھ اپنے گائوں واپس لوٹی۔اچانک موسم تبدیل ہونے لگا۔آسمان پر کالے کالے بادل چھائے ۔تیز ہوا چلنے لگی۔ایسا لگ رہا تھاکوئی تیزطوفان آنے والا ہے،جو سارے گائوں کواپنی لپیٹ میں لے گا۔سچ کہوں آسمان کو دیکھ کرتو لگتا تھاکہ بلائیں نازل ہونے والی ہیں۔ہم ابھی اپنے گھر کے آنگن ہی میں تھے کہ اچانک ہمارے گائوں کے قریب تقریباً جنگل میں بم پھٹنے سے ایک زور دار دھماکہ ہونے کی آواز آئی۔ اسکے ساتھ ہی گولیاںٹپ۔ٹپ۔ٹو۔ٹو۔چلنے لگی۔۔۔۔۔کچھ ساعت یہاں خاموشی چھا گئی۔
عجیب قسم کا دہشت انگیز سکون تھا۔ایسا لگ رہاتھا۔جیسے ابھی حضرت آدم زمین پر اُترے۔کچھ ساعت بعد ہر طرف لوگوں میںافراتفری مچی۔دھماکہ کہاں ہوا!؟ کدھر ہوا؟ ایک طرف لوگوںکی افراتفری دوسری جانب ۔۔۔کتوں اور گیدڑوں کے چلانے کی آوازیں۔۔۔۔کسی کو باپ کی فکر ،کسی کو بھائی اورکچھ مائیں اپنے بچوںکو ڈھنڈنے میں لگیں۔۔میں نے بائیں جانب نظر دوڑائی تو ساجا چاچی کو بین کرتے ۔۔۔۔ہوئے سُنا
’’ہائے میرا عدنان۔میرا ثاقب!۔نہ جانے کہاں ہوںگے؟۔ہائے جنگل کے قریب دھماکہ ہوا۔۔وہ بھیڑوں کے ساتھ ہیں‘‘
یہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔
’’کوئی تو بولو میرے بچے کہاں ہیں؟
یوں تو کچھ لوگ اسے تشفی دے رہے تھے لیکن انہیں کسی کی بات سے کوئی فرق نہ پڑا۔ان کا کلیجہ پھٹنا جا رہا تھا۔اسے لگتا تھا،کہ زمین و آسمان ایک ہو رہے ہیں۔ وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئےننگے سر اورننگے پیر جنگل کی جانب دوڑی۔بہت سے لوگ اسکے ہم قدم ہوئے۔میں بھی ان لوگوں کے ساتھ دوڑ پڑی۔یہاں گلا ب کی کلی کی ماننددو من موہنی صورتیں ،جن کی مخمل سے زیادہ ملائم ریشمی زلفیں تھیں۔خون میں نہائی ہوئی پڑھی تھیں انکے مہتاب سے بھی خوبصورت چہرے ابھی بھی جیسے کِھل رہے تھے۔
یہاں ہر طرف شور و گُل بپاہوا۔میں نے کچھ لوگوں کوباتیں کرتے ہوئے سُنا ۔۔۔۔جنگل کے قریب فوج اور جنگجوئوں کے درمیان جھڑپ ہوئی ۔ادھا دھند فائرنگ میں پھنس کر عدنان اور ثاقب اپنی معصوم جانیں گنواں بیٹھے۔ساجہ چا چی ،چیخ چیخ کر بین کرنے لگی
’’ہائے میرے لال۔میں آپ دونوں کے سر و قد قربان ہوجائوں۔ہائے میرے بیٹو!۔میں اب کس کے سہارے جی لوںگی۔ہائے میرے خُداتو نے مجھ پر یہ کیسا قہرڈھایا‘‘۔یہ کہتے ہوئے وہ دھڑک کر زمین پرگر پڑی۔
���
برس وانہ ڈوڈہ، جموں