فلم ’’دی کشمیر فائلز ‘‘۔۔۔؟ | وہ جھوٹ بول رہا ہے بڑے سلیقے سے!

دی کشمیر فائلز نام کی فلم ابھی چند روز قبل ریلیز ہوئی ہے۔ اور کامیابی کے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ یہ فلم وویک اگنی ہوتری کی ہدایت میں بنائی گئی ہے۔کوئی بھی با شعور شخص فلم دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ فلم ایک خاص ایجنڈے کے تابع ہے۔یعنی نفرت کا ایجنڈا ۔ وہ ایجنڈا ہے اکثریت کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف لگاتار مشتعل رکھنا۔ جس میں ہدایت کار پوری طرح کامیاب ہے ۔ ظاہر ہے یہ اشتعال اور نفرت صرف جموںکشمیر کے مسلمانوں کے خلاف محدود نہیں رہیگا  بلکہ ملک گیر سطح پر اس میں اضافہ ہو گا۔ اس سے پہلے کشمیر کے موضوع پر ایک فلم ’ شکارہ‘ بھی آئی تھی لیکن اس حد تک جذبات ابھارنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ دی کشمیر فائلز میں انوپم کھیر اور متھن چکروتی کے کردار کافی اہم ہیں ۔ فلم شروع ہوتی ہے کچھ بچوں کے کرکٹ کھیلنے کے منظر سے جن پر ملیٹنٹ حملہ کرتے ہیں۔ فلم میں کشمیری پنڈٹوں پر ہونے والے مظالم کی عکاسی کی گئی ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تشدد کے مناظر جس تواتر سے شامل کئے گئے ہیں اس کے پیچھے ڈائرکٹر کا مقصد کیا ہے۔رُلانے والے سین بھی رکھے گئے ہیں،کہیں کہیں آدھے سچ کے ساتھ۔ اور آدھے سچ اور جھوٹ میں فرق کر پانا بڑا  مشکل ہوتا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو ظالم اور دہشت گرد ثابت کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ یہی نہیں جے این یو سے ملتے جلتے ادارے اور وہاں کے پروفیسر سے ملتے ناموں کا استعمال کر کے جے این یو کو بھی بدنام کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچانے کی کوشش میں کئی صوبائی حکومتوں نے فلم کو ٹیکس فری کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہر محب وطن کو یہ فلم دیکھنی چاہئے گویا نہ دیکھنے والے غدا رٹھہریں گے۔ گویا دیش بھگت ہونے کے لئے ایک طبقے کے لئے دل میں نفرت ہونا ضروری شرط ٹھہری۔ بالی وڈ کے جو بھی ایکٹر اس کے پروموشن میں شامل نہیں ہوئے وطن دشمن قرار دئے جا رہے ہیں۔ کپل شرما جو کہ ایک مشہور مزاحیہ شو ہوسٹ کرتے ہیں، انہوں نے اس فلم کو اپنے شو میں پروموٹ کرنے سے انکار کیا۔ تو ان کے خلاف سوشل میڈیا میں طوفان کھڑا ہو گیا۔ ٹویٹر پر ’بائیکاٹ کپل شرما شو‘  ٹرینڈ کرنے لگا۔  حالانکہ کپل شرما نے اپنے شو میں اس فلم کو پروموٹ نہ کرنے کی وجہ بتائی تھی کہ اس میں کوئی بڑا اسٹار کاسٹ نہیں کیا گیا ہے۔ در اصل وہ مزاحیہ شو میں اس قسم کی فلم کو شامل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں کپل شرما نے اپنے ٹویٹ میں ایک جواب میں مزید وضاحت کی کہ آ ج کی سوشل میڈیا کی دنیا میں کبھی بھی ایک طرفہ کہانی پر یقین نہ کریں۔یہ فلم حقیقت سے کتنے فاصلے پر ہے، اس سلسلے میں ایک اور وافعہ قابل غور ہے۔اس فلم میں ایک منظر میں شہید اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ کو دکھایا گیا ہے۔ان کی اہلیہ مسز کھنہ نے عدالت میں درخواست دی کہ ان کے شوہر کے بارے میں دکھائے گئے مناظر حقیقت کے بالکل منافی ہیں۔ اس پر عدالت نے یہ مناظر ہٹانے کے لئے حکم دیا۔ روی کھنہ ان چار انڈین ایر فورس افسران میں شامل تھے جنہیں 25 جنوری 1990  کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ مسز شرما نے اس سین کو غلط طریقے سے پیش کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے سوال قائم کیا کہ کرفیو لگا ہے، بند کی کال ہے ہر طرف دہشت اور قتل و غارت گری ہے، سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے، ان حالات میں پیٹھ پر بیگ لئے ڈریس میں ملبوس بچے افسران کو پھول پیش کر رہے ہیں اور افسران بچوں کو ٹافیاں بانٹ رہے ہیں۔ بھلا ایسا کس طرح ممکن ہے۔  پوری فلم میں اسی طرح کے مناظر ہیں۔ دو سری طرف مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جب کہ مسلمان دوہری چکی میں پس رہے تھے ۔ سیکیورٹی فورسز کے لوگ انھیں دہشت گردوں کا  ہمدرد  ہونے کے الزام میں گرفتار کرتے تھے اور ملیٹنٹ پولیس کا انفارمر سمجھ کر ان پر حملہ کرتے تھے۔ اس طرح ہزاروں مسلمانوں کا قتل ہوا۔ پولس تصادم کے دوران اکثر بے گناہ شہری بھی زد میں آتے رہتے تھے۔ حقیقت سمجھنے کے لئے آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے ایک سوال پر سری نگر پولیس ہیڈ کوارٹر کا جواب ہی کافی ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ 1990  میں ملیٹینسی کی شروعات سے 89 کشمیری پنڈت اور دیگر مذاہب کے 1635 لوگ ہلاک ہوئے۔ کیرالہ کانگریس کے ایک ٹویٹ میں بتایا گیا کہ 1990  سے2007 کے درمیان سترہ سالوں میں 399 کشمیری پنڈتوں اور 15000 مسلمانوں کا قتل ہوا۔
         کسی محب وطن فلم ساز یا اداکار کو ملک میں امن ، یکجہتی اور رواداری کے فروغ کے لئے فلمیں بنانی چاہئے۔ بالی وڈ کی روایت شروع سے محبت کے موضوع پر فلم بنانے کی رہی ہے۔ لازوال محبت کی داستانوں پر بار بار فلمیں بنتی رہی ہیں۔ لیلیٰ مجنوں ، شیریں فرہاد ، ہیر رانجھا  اور نار کلی کی کہانیوں کو لیکر درجنوں فلمیں بن چکی ہیں۔ سماجی موضوعات ہوں یا ڈاکو، چور ،بدمعاش، اسمگلر، جاسوس کسی بھی موضوع پر بنی فلمیں پیار محبت کا موضوع ضرور شامل رہتا تھا۔ لیگن اب لگتا ہے محبت کا دور گزر چکا ہے۔ کسی زمانے میں محبت کا نشہ ہوتا تھا، اب ادھر چند سالوں سے نفرت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سیاست دان ووٹ بینک کے لئے نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں او رحکمراں بن جاتے ہیں۔ فلم ساز بھی  حکمرانوں کی خوشنودی میں ایسی فلمیں بنا رہے ہیں جو سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے میں معاون ہوں ۔ دی کشمیر فائلز دیکھ کر لوگوں کے آنسو بند نہیں ہو تے تو آخر آپریشن پولو ( سقوط حیدرآباد) پر نیلی ، دہلی اور گجرات کے قتل عام پر آنسو کیوں نہیں آتے یا ان قتل عام کی فائلز کیوں نہیں بنتی۔اور تو اور گودھرا واقعہ پر بن نے والی فلم ’پرزانیہ‘ آج تک ریلیز نہیں ہو سکی ،جب کہ وہ حقیقت پر مبنی فلم تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں ہزاروں سال تک اچھوت سمجھے والے طبقوں کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک ہوتا رہا ہے۔ آج بھی جگہ جگہ اس کے مثالیں ملتی رہتی ہیں۔ اس کے متعلق بن نے والی فلمیں جیسے شودر دی رائیزنگ، آرٹیکل  15 ، جے بھیم وغیرہ دیکھ کر تو نام نہاد دیش بھکتوں کا کلیجہ پھٹ جانا چاہئے تھا،  لیکن ایک آنسو تک نہیں آتا۔
          اب دیکھئے اس فلم پر تبصرہ کرنے اور اس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دینے والے کون لوگ ہیں۔ ایک تو حکمراں طبقے کے لوگ کہ جن کا ایجنڈا یہ فلم پورا کرتی ہے ، دوسرے گودی میڈیا کے وہ اینکر اور رپورٹر جنھیں تاریخ کی کو ئی سمجھ نہیں ہے ۔ نہ تو انھیں ملک کی تقسیم  کے محرکات کا علم ہے اور نہ کشمیر کے ہندوستان میں الحاق کی بنیادوں کا کوئی شعور۔ یہاں تک کہ ان کو اپنے ملک کی تیس پینتیس سال کی تاریخ کا بھی علم نہیں ۔ بڑے سمجھے جانے والے صحافی اور اینکر بھی یہ سمجھنے سے معذور ہیں کہ فلم میں دکھائے گئے مناظر کی حقیقت کیا ہے ۔اس طرح ایک معمولی درجے کی فلم کو تاریخی دستاویز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ لوگ فلم دیکھ کر نہ صرف روتے ہوئے باہر آتے ہیں  بلکہ کانگریس کو کوستے ہوئے بھی سنائی دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے بے خبر ہو کر کہ 19جنوری 1990 کو جموں کشمیر سے لاکھوں کشمیری پنڈتوں کے گھر بار چھوڑنے کے  وقت مر کز میں کانگریس کی نہیں بلکہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت تھی اور یہ حکومت بھاتیہ جنتا پارٹی کی حمایت پر قائم تھی۔ اور آر ایس ایس کے پسندیدہ جگموہن صاحب جموں کشمیر کے گورنر تھے۔ اس دور میں بی جے پی نے کشمیری  پنڈتوں  کے مسئلے کو لے کر کوئی احتجاج نہیں کیا تھا بلکہ کچھ ماہ بعد وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لی تھی، وہ بھی رام جنم بھومی معاملے میں لال کرشن اڈوانی کی گرفتاری کو لے کر۔چودہ کروڑکی لاگت سے بنی اس فلم نے تین روز میں ہی پچیس کروڑ کما لئے ہیں۔کئی صوبائی حکومتوں نے اس کو ٹیکس فری کر دیا ہے۔ وزراء اس فلم کو دیکھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ پولیس اور فورس کے اراکین کو یہ دیکھنے پر آمادہ کرنے کے لئے چھٹیوں کا نظم بھی کیا جا رہا ہے۔ اس فلم کے بہانے نہ صرف سماج  میں بلکہ پولیس اور فوج میں بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو گا۔ظاہر ہے فلم میں مکمل سچ نہیں دکھایا گیا ہے آدھے سچ اور جھوٹ میں فرق کر پانا مشکل ہوتا ہے ۔ لیکن جھوٹ بھی اگر سلیقے سے بولا جائے تو لوگ سچ سمجھتے ہیں۔اعتبار کرتے ہیں۔
  (رابطہ۔Mb.9450191754,  )