فلسطین مسئلے پر مغربی ممالک میں بڑھتا آپسی خلفشار ندائے حق

اسد مرزا

گزشتہ پانچ ماہ سے فلسطین میں جاری جنگ نے اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کو بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں الجزائر کی پیش کردہ قرار داد کو امریکہ کی جانب سے روکنے کی فرانس، برازیل جیسے مغربی ممالک اور ایران اور چین نے بھی مذمت کی۔اس نئی پیش رفت کے بعد یہ گمان ہورہا ہے کہ جہاں ایک طرف گلوبل ساؤتھ چین ، روس، ایران، سعودی جیسے ممالک اسرائیل کے خلاف ہیں ویسے ہی خیالات اب مغربی ممالک میں بھی بڑھتے جارہے ہیں۔

الجزائر کی قرارداد کو روکنے کے امریکی فیصلے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ الجزائر کی تجویز کردہ قرارداد جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والی بات چیت کو ’’خطرے میں ڈال دے گی۔‘‘ دوسری طرف امریکہ نے اپنی عارضی جنگ بندی کی قرارداد پیش کی ہے جس میں اسرائیل کو رفح شہر پر حملہ نہ کرنے کی تنبیہ بھی کی گئی ہے۔ بڑھتے ہوئے تشدد اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان امن کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے،امریکہ کی مجوزہ قرارداد، اسرائیلی اسیران کی رہائی سے منسلک، محدود حمایت کا ہدف رکھتی ہے۔ایران نے غزہ میں جنگ بندی کی ایک اور قرارداد کو ویٹو کرنے پر امریکہ کی مذمت کی ہے اور اسے ‘سفارتی تباہی’ قرار دیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے امریکہ پر صیہونی حکومت کی حمایت کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ عالمی احتساب پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے سوشل میڈیا پر واشنگٹن کے اقدامات پر تنقید کی۔ یو این ایس سی کی قرارداد کو امریکہ کا ویٹو، جس کی حمایت 13 ارکان نے کی ہے، اس طرح کا تیسرا اقدام ہے۔ وہیں پر برطانیہ کی عدم شرکت منقسم رائے کو واضح کرتی ہے۔

چین نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے پر امریکہ کی کڑی تنقید کی ہے۔ بیجنگ نے کہا کہ اس اقدام نے ’’غلط پیغام‘‘ بھیجا ہے اور مؤثر طریقے سے ’’مسلسل قتل عام کو ہری جھنڈی‘‘ دیکھائی ہے۔امریکہ کے بعض اتحادیوں نے بھی الجزائر کی مجوزہ قرارداد کو ویٹو کرنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ فرانس کے اقوام متحدہ میں ایلچی نکولس ڈی ریویئر نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’’زمین پر تباہ کن صورتحال کے پیش نظر‘‘ قرارداد کو منظور نہیں کیا گیا، وہیں برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ رفح شہر میں اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی ’’قتلِ عام‘‘ کا باعث بن سکتی ہے۔ اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینٹز نے کہا کہ اگر حماس 10 مارچ تک تمام یرغمالیوں کو آزاد نہیں کراتی تو زمینی حملہ کیا جائے گا۔اس کے ساتھ ہی الجزائر کی قرارداد میں جنوری میں دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی طرف سے دیے گئے عارضی اقدامات پر عمل درآمد کا بھی مطالبہ کیا گیا، جس میں اسرائیل کو ہدایت کی گئی کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی جارحیت کو کم کرے، غزہ میں امداد کے بہاؤ میں رکاوٹیں نہ ڈالے اور نسل کشی کی زبان استعمال کرنے والے اسرائیلی سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کرے۔

G20 کا موقف : G20 کے وزرائے خارجہ بدھ (21 فروری) کو ریو ڈی جنیرو میں غربت، موسمیاتی بحران اور بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ برازیل جس نے G-20 کی سالانہ صدارت سنبھال لی ہے،اس نے اپنی ترجیحات کا تعین کرلیا ہے جس میں خاص طور پر عالمی گورننس اداروں اور کثیر جہتی بینکوں میں ترقی پذیر ممالک کی مضبوط نمائندگی پر زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی برازیل نے غزہ اور یوکرین کی جنگوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مفلوج ہونے پر تنقید بھی کی ہے کیونکہ اس نے بدھ کے روز G20 اجلاس کا آغاز کیا جہاں بین الاقوامی برادری کی تقسیم صاف دکھائی دے رہی ہے۔

برازیل، جس نے دسمبر میں ہندوستان کے بعد G20 کی صدارت سنبھالی تھی اس نے امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ گروپ ایسے سوالات پر پیش رفت کرنے کا ایک فورم ہو سکتا ہے، جن کے ذریعہ عالمی امن کو یقینی بنایا جاسکے اور اس کے لیے سب سے اہم اقدام فلسطین میں جنگ کا خاتمہ ہے۔برازیل کے صدر لولاڈاسلوا امریکہ کے دیرینہ مخالف رہے ہیں اور ان کی صدارت کے دوران G20 کو امریکہ مخالف پوزیشن لینے کے امکانات بہت قوی لگتے ہیں۔وہیں دوسری جانب اسرائیل کے رویے نے امریکہ کے اہم اتحادی برطا نیہ کی داخلی سیاست میں بھی اپنا نقش چھوڑنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہاؤس آف کامنس میں اس وقت افراتفری کا نظارہ تھا جب ہاؤس آف کامنس کے اسپیکر لنڈسے ہوئل نے فلسطین معاملے پر پیش کی گئی قرارداد پر لیبر اورکنزرویٹیو دونوں پارٹیوں کو ترامیم کی تجویز
پیش کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے بعد ایک غیر معمولی اقدام میں، ہوئل نے ان دونوں ترامیم کو ووٹ دینے کے لیے منتخب کیا، اس نظیر کو توڑتے ہوئے جس کے تحت ایک اپوزیشن پارٹی دوسری کی تحریک کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ عام طور پر، صرف حکومتی ترمیم کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ برطانیہ نے اس بات کے بھی اشارے دیے ہیں کہ اگر اسرائیل نے رفح شہر کی ناکہ بندی ختم نہیں کی اور شہر پر اپنی مجوزہ فوجی کارروائی منسوخ نہیں کی تو برطانیہ اسے ہتھیاروں کی برآمد بھی منسوخ کرسکتا ہے۔ ان دونوں واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ جو کہ امریکہ کا سب سے اہم اور نزدیکی اتحادی ہے جب اس ملک میں عوامی و سیاسی سطح پر اسرائیلی کاررائیوں کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فرانس جیسے ممالک نے بھی اسرائیل کی مذمت شروع کردی ہے تو اب وہ دن دور نہیں لگتا جب اس مسئلے پر خود مغربی ممالک میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اقوامِ متحدہ کو اپنی سرپرستی میں مختلف ممالک کی حمایت کے ساتھ اسرائیل کو اس کی جارحیت روکنے کے لیے کافی مدد بھی مل سکتی ہے اور اس قضیے کا حتمی تصفیہ بھی ممکن ہوسکتا ہے۔وزارتی ذرائع نے کہا کہ اگرچہ ہتھیاروں کے برآمدی لائسنس کی معطلی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، برطانیہ کے پاس فوری جواب دینے کی صلاحیت ہے اگر وزراء کو قانونی مشورے میں کہا گیا کہ اسرائیل بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

برطانیہ نے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل پر رفح میں زمینی حملے سے بچنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ منگل کو شائع ہونے والے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کے کنٹرول کے بارے میں خارجہ امور کی سلیکٹ کمیٹی کو لکھے گئے خط میں سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ وہ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ رفح میں حملہ عام شہریوں کو نقصان پہنچائے اور گھروں کو تباہ کیے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔

مجموعی طور پر اس تاثر میں اضافہ ہورہا ہے کہ جہاں امریکہ کے اتحادی اس کے خلاف موقف اپنا رہے ہیں وہیں ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں جیسا کہ حالیہ امریکی قرار داد میں سامنے آیا ہے کہ خود امریکہ بھی اسرائیل کو رفح پر حملہ نہ کرنے کی تنبیہ دے رہا ہے، لیکن وہ کھل کر سامنے نہیں آرہا ہے۔ اس پس منظر میں یہ امید کیا جانا کہ جلد ہی امریکہ بھی اسرائیل کے خلاف ہوسکتا ہے، ایک ناقابلِ فہم بات لگتی ہے لیکن اگر صدر بائیڈن کو امریکی حمایت حاصل نہ ہوئی تو یہ حقیقت بن سکتی ہے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
�������������������������