یو این آئی
سرینگر// اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے فلاح عام ٹرسٹ کے ذریعے چلائے جانے والے سکولوں پر پابندی کے فیصلے کو بلاجواز اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وادی میں درسی اور اخلاقی تعلیمات کے فروغ میں ان سکولوں کا ایک تاریخی کردار رہا ہے۔اپنے ایک بیان میں سید الطاف بخاری نے کہا ہے کہ فلاح عام ٹرسٹ سے منسلک سکولوں پر پابندی کے فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں طلبا و طالبات کا مستقبل داو پر لگادیا گیا ہے بلکہ ان سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ اور دیگر ملازمین کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوجانے کا احتمال پیدا ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا’’فلاح عام ٹرسٹ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے اور اگر ٹرسٹ کے کسی رْکن کے خلاف کوئی شکایت بھی ملی ہے، تو اس سے دْرست طریقے سے نمٹا جاسکتا تھا۔ فلاح عام ٹرسٹ سے وابستہ سکولوں پر پابندی ایک غیر مناسب فیصلہ ہے جسکی وجہ سے نہ صرف ان سکولوں سے میں زیر تعلیم طلبا و طالبات متاثر ہونگے بلکہ اس اقدام سے بے روزگاری بھی پیدا کی جارہی ہے۔‘‘بخاری نے مزید کہا’’یہ اقدام عوام کے ساتھ بھی ایک زیادتی ہے اور جمہوری اقدار کی نفی کرتا ہے۔ لوگ ان سکولوں کی عمارتیں تعمیر کرنے اور ان کے لئے اراضی حاصل کرنے کے لئے اپنے عطیات دیتے آئے ہیں۔”اپنی پارٹی کے صدر نے کہا، “فلاح عام ٹرسٹ سے منسلک سکولوں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات سے کہا گیا ہے کہ اْن کا داخلہ مقامی سرکاری سکولوں میں ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے سرکاری سکول پہلے ہی انفراسٹکچر کی قلت کا شکار ہیں۔ لگتاہے کہ متعلقہ حکام نے فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں کے بچوں کا داخلہ سرکاری سکولوں میں کرانے کی تجویز آنکھیں بند کرکے دی ہے۔”انہوں نیکہا، “جو بچے سرکاری سکولوں میں فی الوقت زیر تعلیم ہے وہ ان سکولوں میں افراسٹکچر اور سٹاف کی قلت کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ اب جبکہ ان سکولوں پر فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں کے طلبا کا بوجھ بھی ڈلا جائے گا تو اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔”بخاری نے کہا ہے کہ فلاح عام ٹرسٹ سے منسلک تین سو سے زائد سکولوں میں فی الوقت گیارہ ہزار سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران ان سکولوں نے وادی میں تعلیم و تربیت کو عام کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن پابندی کے اعلان نے سب کو دھچکہ پہنچا دیا ہے۔انہوں نے لیفٹنٹ گورنر سے فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں پر پابندی کے فیصلے پر از سر نو غور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں بچوں کے مستقبل اور ان سکولوں میں تعینات اساتذہ اور دیگر اسٹاف ممبران کے روزگار کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے فیصلے پر از سر نو غور کرنا بہت ضروری ہے۔