! فریضہ حج کی ادائیگی پر غیر یقینی کے بادل

کورونا وائرس کی عالم گیر وبا کے بیچ سعودی عرب سے جو خبریں آرہی ہیں،وہ مایوس کن ہیں۔سعودی عرب میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے اور ایسے میں 1932میں سعودی شاہی سلطنت کے قیام کے بعد پہلی دفعہ حج بیت اللہ کا فریضہ منسوخ کرنے پر غور کیاجارہا ہے ۔ سعودی عرب میں جس رفتار کے ساتھ کورونا معاملات بڑھ رہے ہیں،وہ یقینی طور پر سعودی وزارت حج و عمرہ کو پریشان کررہے ہیں اور یقینی طور پر سعودی حکومت کو حج کے حوالے سے فوری کوئی فیصلہ لینا ہوگا کیونکہ حج کے ایام اب قریب آتے جارہے ہیں۔جولائی کے وسط میں دنیا بھر سے عازمین حج کی حجاز مقدس روانگی کا سلسلہ شروع ہونا تھا تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ابھی تک بیشتر حکومتوں نے سعودی عرب میں اپنے عازمین کیلئے قیام و طعام کے انتظامات بھی نہیں کئے ہیں اور حج کمیٹی آف انڈیا نے بھی تاحال کوئی انتظام نہیں کیاہے بلکہ گزشتہ دنوں ایک اخباری بیان کے ذریعے عازمین حج سے کہاگیا کہ جو کوئی رضاکارانہ طور اس سال سفر مقدس پر روانگی  منسوخ کرنا چاہتا ہے تو وہ مطلوبہ لوازمات پورا کرکے اپنی پوری رقم واپس لے سکتا ہے ۔یہ اپنے آپ میں اس بات کی جانب واضح اشارہ تھا کہ شاید امسال حج بیت اللہ کے عظیم اسلامی فریضہ کی ادائیگی پر غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔اب جس طرح سعودی عرب سے اطلاعات آرہی ہیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ شاید اس سال حج کی ادائیگی منسوخ ہو جائے ۔دوسرا متبادل یہ ہے کہ اس سال عازمین حج کی تعداد میں بہت زیادہ کٹوتی کی جائے۔ سالانہ بیس لاکھ کے قریب عازمین حجاز مقدس جاتے ہیں اور حج کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔اگر کٹوتی بھی کی جاتی ہے تو یہ تعداد چند ہزاروں تک ہی محدود رہ سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب اس سال صرف مقامی لوگوں کو ہی معقول طبی جانچ کے بعد حج کی اجازت دے ۔ دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا نے پہلے ہی گزشتہ دنوں امسال حج کے فریضہ میں اپنے شہریوں کی شرکت منسوخ کردی ہے اور یوں اس سب سے بڑے مسلم ملک سے امسال کوئی بھی مسلمان حج پر نہیں جائے گا ۔اسی طرح کا غور وخوض دیگر ممالک میں بھی یقینی طور پر چل رہا ہوگا۔بھارت سمیت جنوب ایشیائی ممالک میں بھی کورونا وائرس کا زور تاحال نہیں ٹوٹا ہے اور اگر ماہرین کی مانیں تو ابھی اس کو انتہا تک پہنچنے میں مزید کم از کم ایک ماہ تک لگ سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جولائی کے وسط تک یہاں کورونا وباء انتہا کو پہنچ چکی ہوگی ۔اگر سب کچھ ایسے ہی اندازوںکے مطابق چلتا رہا تو شاید ہی ممکن ہوپائے گا کہ یہاں سے کوئی عازم حج کے سفر پر روانہ ہو۔گوکہ سعودی حکومت کی جانب سے حتمی فیصلہ اگلے ہفتہ متوقع ہے تاہم سبھی کو کسی بھی فیصلہ کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔ایک بات تو اب طے ہے کہ اگر حج کا فریضہ انجام دینے کا فیصلہ بھی ہوتا ہے تو یقینی طور پر انتہائی قلیل تعداد میں عازمین کو سعودی عرب جانے کی اجازت ہوگی جس کامطلب یہ ہے کہ گنتی کے ہی خوش نصیبوں کے حق میں اس سال اب قرہ فال نکل سکتا ہے اور یہ عملی طور ایک طرح سے دوسری قرعہ اندازی ہوگی کیونکہ پہلی قرعہ اندازی بہت پہلے ہوچکی ہے جس کے ذریعے عازمین کو منتخب کیاجاچکا ہے ۔اگر اب دوسری قرعہ اندازی ہوگی تو تعداد بہت حد تک گھٹ جائے گی ۔ایسے میں امسال حج پر جانے کے خواہشمند عازمین کو دل نہیں ہارنا چاہئے بلکہ انہیں صبر سے کام لیکر حالات کی بہتری کا انتظار کرنا چاہئے ۔بلا شبہ منتخب ہوکر اس عظیم سفر پر روانہ نہ ہونا کسی صدمہ سے کم نہیں ہے لیکن منشاء الٰہی کے سامنے سب بے بس ہیں ۔شاید اللہ کی منشاء یہی ہے کہ امسال وہ کم لوگوں کو ہی اپنے گھر بلائیں۔حکومت کیلئے بھی یہ صورتحال قطعی اطمینان بخش نہیں ہے اور اس سے حج سے جڑے منتظمین بھی پریشان ہونگے لیکن قدرت کے سامنے کیاکیاجائے ! ۔ارباب بست و کشاد کو چاہئے کہ اگر حج منسوخ ہوتا ہے تو اس صورت میں اگلے سال ترجیحی طور صرف اُن لوگوںکو حج بیت اللہ پر روانہ کریں جو اس سال قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں اور اگر تعداد کم کرنا پڑی تو بھی اگلے سال پہلے اُن لوگوں کو بھیجاجاناچاہئے ،جو اس سال یہ فریضہ ادا کرنے سے رہ جائیں گے ۔ایسے عازمین کو اگلے سال قرعہ اندازی سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہئے کیونکہ اس میں انکی کوئی غلطی نہیں ہے اور ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے پہلی ترجیح ان کو ہی دی جانی چاہئے۔