فرقہ پرست عناصر کا دباؤ

 جموں//فرقہ پرست عناصر اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مسلسل دبائو کی وجہ سے بے خانماں روہنگیائی کنبوں نے زندگی بچانے کیلئے اب چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے تو کئی ایک کنبے نامعلوم مقامات کی طرف نقل مکانی کر گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پچھلے چند برس سے شہر کے مضافاتی علاقوں میں قیام پذیر ان روہنگیائی مہاجرین نے فرقہ پرست عناصر کی طرف سے تنگ طلبی کئے جانے کے بعد بٹھنڈی اور سنجواں کو اپنا مسکن بنایا تھا لیکن سنجواں ملٹی کیمپ پر ہوئے فدائین حملہ کے بعد جس طرح سے الزام تراشیاں شروع کی گئی ہیں اس کے بعد ان بد نصیب مہاجرین نے محفوظ تصور کئے جانے والے اس علاقہ کو بھی خیر باد کہنا شروع کر دیا ہے ۔ انتہائی غیر انسانی حالات میں ایام زندگی بسر کرنے والے یہ مہاجرین سانسوں کی ڈور کو بنائے رکھنے کیلئے شاید ہی دو وقت کا کھانا بھی بچوں کو فراہم کر پاتے ہوں لیکن سماج کے بیشتر طبقوں کی طرف سے ان کے خلاف ایک نفرت آمیز مہم چلائی جارہی ہے جس سے یہ بے سروساماں مہاجر وحشت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔انتہائی جفاکش، محنتی اور ایماندار برمی مہاجرین کے لئے زندگی کے دن گزارنا آسان نہیں ہے ، وہ پیٹ پالنے کیلئے مزدوری ، کباڑ جمع کرنے اور گلی کوچوں میں پھل سبزیاں فروخت کیا کرتے تھے لیکن جب سے انہیں جموں بدر کرنے کی مہم نے زور پکڑا ہے ، عام لوگوں بھی انہیں مشکوک نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے جس سے ان مہاجرین کے لئے روزگار کے مواقع مزید سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ان بے یار و مددگار مہاجرین نے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کے بجائے خاموشی سے اس امید پر چھوٹے چھوٹے قصبوں اور گائوں کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے وہاں انہیں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ ایک پولیس افسر نے رازداری کی شرط پر کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ’’پچھلے دو ماہ میں شہر کے مضافات میں روہنگیائی مہاجرین کے کئی کیمپ خالی ہو گئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر سانبہ، وجے پور ،نگروٹہ ، باڑی براہمناں اور صنعتی علاقوں میں جارہے ہیں تا کہ انہیں چھوٹا موٹا روزگار مل سکے ‘۔10فروری کو سنجواں ملٹری سٹیشن پر ہوئے فدائین حملہ اور اس کے بعد مبینہ طور پر ہوئی پتھر بازی کے بعد روہنگیائی مہاجرین کے قیام کی مخالفت کرنے والی قوتوں کو گویا بہانہ مل گیاہے اور انہوں نے ان کے خلاف زور و شور کے ساتھ مہم چھیڑ رکھی ہے ۔ ریاستی اسمبلی کے سپیکر کویندر گپتا جو علاقہ کے ممبرا سمبلی بھی ہیں ، نے بھی سنجواں حملہ کیلئے روہنگیائی مہاجرین کو مورد الزام ٹھہرایا تھا جس سے ان طاقتوں کو جواز مل گیا ہے ۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اگر چہ روہنگیائی شہریوں کے خلاف کچھ ایف آئی آر درج ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی شخص کسی بھی ملی ٹینسی واقعہ میں ملوث نہیں پایا گیا ہے ۔ کٹھوعہ معاملہ پر سیاست کرنے والے وکلاء نے 11اپریل کو جموں بند کی کال دیتے ہوئے روہنگیائی پناہ گزینوں کو یہاں سے نکالنے کو بھی ایک مدعا بتا یا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دیواروں پر روہنگیائی مہاجرین کیخلاف نعرے لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس سے ان کے دلوں میں خوف مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے ۔چند ماہ قبل جموں چیمبر آف کامرس نے بھی روہنگیائی مہاجرین کیخلاف مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم 11اپریل کی جموں بار کی کال کی حمایت سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے دیگر دلائل کے علاوہ  واضح کیا کہ روہنگیائی مہاجرین کی ہندوستان سے بے دخلی کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے اس پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں 2008میں 7093غیر ملکی شہری قیام پذیر تھے ، یہ تعداد 2014میں 12560اور 2016میں 13755ہو گئی، ان میں 5743ہی روہنگیائی مہاجر ہیں جب کہ 7690تبتی اور 322دیگر ممالک کے شہری شامل ہیں۔