فاطمہ تو آبروئے اُمتِ مرحوم ہے

آپ کو یاد ہو نہ ہو لیکن میں آپ کو پھر یاد دلانا چاہوں گا کہ 2019میں انتہا پسند ہندو تنظیم شوسینا نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملک بھر میں مسلم لڑکیوں کے حجاب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔اُ س وقت بھارتی میڈیا نےبتایاکہ شیوسینا نے اپنے آفیشل مراٹھی اخبار ’’سامنا‘‘ کے ایڈیٹوریل میں بھارتی وزیر اعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ سری لنکا کی طرح اُنہیں بھی رام جی کی سر زمین پر حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دینی چاہیے جو کہ قومی مفاد میں ضروری ہے۔جس کا نتیجہ آج کرناٹک میں ہورہے مظاہروں کی صورت میںسامنے آیا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں سے منسلک کسی معاملےپر اس طرح کی صورت حال آج پہلی بار دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ اس سے پہلے بھی ہندوستان میں مسلمانوں سے منسلک کئی معاملات میںاس طرح کی صورت حال پیدا کرکےاسی طرح کے احتجاج اور مظاہروںکی شکل میں دیکھنے میں آچکے ہیں۔ چاہے وہ مسلمانوں کی اذان کا معاملہ ہو، چاہے وہ بابری مسجد کا معاملہ ہو ،تین طلاق کا معاملہ ہو ،قرآن پاک کی بے حرمتی کا معاملہ ہو،اور پھرشاہین باغ کے معاملے کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے ،جبکہ آج حجاب کا معاملہ کھڑا کر کے پھر مسلمانوں کے صبر کو آزمایا جارہا ہے ۔’سامنا‘ کےایڈیٹوریل میں  یہ بھی لکھا گیا تھا کہ مسلم خواتین کے حجاب پہننے کی وجہ سے ہی بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور دہشت گردی کو پروان چڑھایا گیا ہے۔شیوسینا کا دعویٰ ہے کہ جب سری لنکا، فرانس، برطانیہ اور نیوزی لینڈمسلمانوں کے نقاب پر پابندی عائد کر سکتے ہیں تو بھارت ایسا کیوں نہیں کرسکتا ۔
شائد آپ کو بھی یاد ہوگاکہ جب1994 میں فرانس کے ایک شہر میں باحجاب لڑکیوں کے لئےتعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ یہ اُس وقت اُمت مسلمہ کی بیٹیوں کی عزت پر پہلا حملہ تھا ،جس پر مسلمانوں کی غیرت جاگ نہ اُٹھی ۔کاش! اُس وقت اُمتِ مسلمہ کے حکمران بیدار ہوجاتے تو آج ملک میںاس طرح کی نوبت نہ آتی۔ظاہر ہے کہ تمام مسلم ممالک کےحکمرانوں کی خاموشی کی وجہ سے آج اُمت ِ مسلمہ کی بہنیں اور بیٹیاں اس ظلم کی شکارہو رہی ہیں ۔ 
اس سلسلے میں فرانسیسی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’’حجاب عورت کو کم تری کا احساس دلاتا ہے اور اس نے فرانسیسی معاشرے میں مشکلات پیدا کی ہیں‘‘۔ اس سے قبل سیکولر ترکی میں حجاب پرجبراً کنٹرول کے احکامات آ چکے تھے۔ بعد ازاں یہ معاملات صرف فرانس اور ترکی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ مغرب و یورپ کے بیشتر ممالک خصوصاً امریکا ،برطانیہ ،جرمنی، ڈنمارک اور سری لنکا وغیرہ میں پھیل گئے، اورآہستہ آہستہ ان ممالک میںآباد مسلم اقلیتیں ظلم کی فضا میں بے بس اور لاچار بنا دی گئیں۔
ان ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی تحاریک اسلامی کے رہنما یوسف القرضاوی کی سربراہی میں لندن میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا گیاتھا، جس میں 4ستمبر کو یوم حجاب کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔مگر آج یہ تحریکیں کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہیں، ہر ایک کی زبان پر تالے لگ چکے ہیں۔جب کہ فرانس پہلا یورپی ملک بن گیا، جس نے حجاب پرمکمل پابندی عائد کردی۔ اس کے بعد 2011 میں اُس وقت کے فرانسی صدر نکولسن ؔسزکوزی نے حجاب پر پابندی کا قانون بھی بنا ڈالااور اُس کی خلاف ورزی کی صورت میں 205 امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ عائد کر دیا جاتا۔ 2010 میں اسپین کے شہر بارسلونا میں، 2012 میں بلجئیم میں اسی طرح کےقانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 380 یورو جرمانہ اور سات دن تک کی قید رکھی گئی تھی۔ 2010 میں شمالی اطالیہ کے شہر نووارا ؔمیں ایک مسلمان عورت کو برقع پہنے پر 500 یورو کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ پھراسی طرح ہالینڈ میں کافی بحث ومباحث کے بعد 2015 میں چہرے پر مکمل نقاب کو سرکاری اداروں،سیاحتی مقامات ،اسکولوں، اسپتالوں اور مصروف بازاروں اورعوامی نقل و حمل کی جگہوں پرغیر قانونی قرار دے کر اس کے استعمال پر پابندی لگادی گئی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 285 پاونڈ اسٹرلنگ تک کا جرمانہ عائد کیا گیا،پھر تواتر کےساتھ روس کے کچھ علاقوں میں روسیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے تصادم کے پیشِ نظر ملک کے زیر انتظام اسکولوں وکالجوں میں حجاب پہننےپر پابندی لگادی گئی ۔ اور بھی بہت سے ایسے ممالک ہیں، جہاں مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی عائد ہے اور کئی ممالک میں راہ چلتے یا اسکولوں، دفاتر میں حجاب کو جبراً اُتروایا جاتا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے،کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟کیا اس کا کوئی حل نہیں ہے ۔کچھ دنوں سے ہماری بہنوں ،دختران ِاسلام نے کرناٹک میں اپنے حق کے لیے جس طرح آواز اٹھائی ہے اور منافر طاقتوں کے سامنے حق کا نعرہ بلند کررہی ہیں،اُس کی گونج کہاں تک اور کتنے دنوں تک سُنائی دے گی؟
 یہاں میں اس طرح کے ایک معاملے کے متعلق ایک مثال پیش کرنے جارہا ہوں ۔یمن کی عرب لڑکی توکل کامرانؔ کو نوبیل پرائز کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔جب وہ تقریر کرنے ڈائس پہ آئی تو سٹیج سیکرٹری نے سوال کیا۔’’حیرت ہے! آپ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں ،پھر بھی حجاب کرتی ہیں؟‘‘تو اس لڑکی نے جواب میں کہا’’زمانہ قدیم میں جب لوگ جاہل تھے توکپڑوں سے باہر تھے۔جو کچھ آج میں پہنے ہوئے کھڑی ہوں، یہ تہذیب ِ انسانیت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے نہ کہ رجعت پسندی ،اب اگر کوئی کپڑوں سے باہر آتا ہے تو وہ زمانہ قدیم کی تنزلی ( رجعت پسندی )ہوگی‘‘۔
اور یہ ان نام نہاد مسلم حکمرانوں ،سیاستدانوں ،ان مولویوں کی بے غیرتی پر ایک طمانچہ ہے، جو ازل سے ہی ایسے واقعات نظر انداز کرتے چلےآرہے تھے۔اس طرح کی باغیرت بیٹیاں اسلامی تواریخ میں بہت ملتی ہے، جنہوں نے ظالم وقت کے سامنے اپنی عزت برقرار رکھی اور تواریخ میں اپنا نام درج کیا ۔
 آج ہماری بیٹیاں جانتی ہے کہ پردہ و حجاب اسلامی معاشرے کے متنازعہ امور نہیں بلکہ ان کے لئے الہامی احکامات ہیں جو کہ سورۃ النور کی آیت نمبر31 اور سورۃالاحزاب کی آیت نمبر 59 میںدرج کئے گئے ہیں۔ان آیات  میںیہ واضح کردیا گیا ہے کہ عورت کی عزت برقرار رہے اور معاشرے میں اس کی ایک پہچان بنی رہے۔اور اللہ تعالیٰ نے خود حجاب کو مسلم عورت کی پہچان بنائی ہے ۔اب غور وفکر کی بات یہ ہے کہ حجاب جو عورت کی پہچان ہے، اُسے چھیننے کی کیوں کوششیں کی جارہی ہیں ؟ صرف اس لئے کہ حجاب و پردہ محض شعار ہی نہیں بلکہ ایک نظام اخلاق ہے، جومعاشرے میں حیا کی آبیاری کرتا ہے ۔بغور جائزہ لیںتو اصل میں ان ظالم اور جابروں کا مسئلہ حجاب نہیں بلکہ مسلمانوں کا وجود ہے،جو ان کے لئے نا قابل برداشت ہے ۔
ہماری بہن مسکان نے غیرت اور ایمانی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کس طرح اللہ کا نام پکار کر اتنے غنڈوں کے سامنے اپنی عزت و عفت کی خاطر کھڑی ہوئی۔جس پر مسلم دنیا نے سوشل میڈیا پہ اس بیٹی کو مبارک باد دی، حوصلہ افزائی کی۔مگر کیا یہی اس مسئلے کا حل ہے؟ نہیں! بالکل نہیں!! جب تک ہم متحد نہیں ہونگے تب تک ہمارے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہمیں ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے اور دیکھنے کو ملے گا ۔
ہماری جن بہنوں نے احتجاج کیا ،ان میں سے ایک طالبہ نے درخواست دائر کی۔ جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ انڈیا کا آئین ان کے اس بنیادی حق کا تحفظ  فراہم کرتا ہے کہ وہ کیا پہنیں۔یہ انہیں ایک بنیادی حق ملا ہے،مگر پھر بھی اُن سے یہ حق کیوں چھینا جارہا ہے؟دوسری درخواست احتجاج کرنے والے گروہ کی پانچ لڑکیوں کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ گائیڈ لائنز میں یونیورسٹی کالجز میں یونیفارم کا ذکر نہیں ہے، اب یہ ذکر کہاں سے آگیا؟اور اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ ان کی کوئی سنوائی نہیں ہو رہی ہے اور ہم صرف فیس بک پر پوسٹ لگا کر اپنا اختیار استعمال کر رہے ہیں۔بارگاہ الٰہی میں التجا ہے کہ اللہ ہماری مدد کرے، ہم پر اپنا خصوصی کرم فرمائے اور روزِ محشر میں ہمیں ندامت سے بچائے۔آمین
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
(رابطہ۔9596402379)