ہر فن مولانو جوت سنگھ سدھو غضب کا آدمی ہے، مودی بھگتوں کو کھری کھری سنائی :ا رے بھائی! پیٹ خالی ہیںیوگا کروایا جار ہا ، جیب خالی ہیں کھاتے کھلوا ئے جارہے ہیں ، کھانے کو کچھ نہیںسوچالے بنوائے جارہے ہیں ،گاؤں میں بجلی نہیں ڈیجیٹل انڈیا بنوایا جارہاہے، سبھی کمپنیاں دویشی ہیں میک اِن انڈیا بنایا جارہاہے ،جو فلک بوس بُت بنایا سردار پٹیل کا وہ چین سے لائے، رافل جہازفرانس سے لائے ،بُلٹ ٹرین جاپان سے لائے، توبھارت واسیوں سے کیا کرواگے ؟ پکوڑے تلواؤگے ؟ یہ سوال ہے ،لیکن ا س شہر خموشاں میں نوجوت سنگھ کاجواب دے گا کون ؟ خیر آگے بڑھتے ہیں ۔
ووٹ مانگنے، خریدنے ، چھین لینے کا زمانہ ہے ۔ تم مجھے ووٹ دو میں تمہیں شاہراہ دوں گا ، یہ آج کا نیا سیاسی منتر ہے۔وہ جو نیتا جی سبھاش چندر بوس نے بھارتی شہریوں سے کہا تھا کہ خون کے بدلے میں آزادی دلائوں گا ،کچھ ایسا ہی ملتا جلتا نعرہ لئے اپنے یہاں کے سیاسی مچھندر مقدر کا سکندر بننے کے لئے ووٹ ووٹ ووٹ کی مالا جپ رہے ہیں۔ اب تو سلطانی ٔ جمہور کا آیا ہے زمانہ اور بے لگام گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں ا پنے خالق میڈنمائند گان، کیونکہ جب بھی جمبورے ناچتا ہے تو بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ اپنے ملک کشمیر میں الیکشن کے موسم میں جہاں سیاسی کرمچاریوں کو واویلا کرنے کے لئے کوئی بہانہ نہیں تھا تاکہ وہ رائے دہندگان کو مگر مچھی آنسوؤں سے اپنے مٹھی میں کر لیں،وہیں ان کے نام لاٹری نکل آئی اور وہ بھی لاٹری کا ٹکٹ خریدے بغیر ۔یہ تو ۳۷۰؍ اور ۳۵؍الف سے کام چلاتے تھے مگر کب تک ۷۰ ۳؍ کے چیتھڑے بیچ کھاتے۔اس کی ہڈیوں کا سرمہ بنا کر اپنی آنکھوں پر ملتے۔پھر ۳۵؍الف کی بھی یخنی بنا ڈالی ا ور بڑے شوق سے کئی برس سے چٹخارے لے کرا س کا مزے اُڑا رہے ہیں۔اسی کے نام کی مالا جپتے ہیں ، اسی کی آرتی اُتارتے ہیں ، اسی کے ماتھے پر سیندور ڈالتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ستر برس سے الیکشن کے وقت اسے تابوت سے نکال کر نیا دلہن والا جوڑا پہناکر سجاتے ہیں اور شہر شہر گائوں گائوں اس کی ڈھولی گھماتے ہیں یا یوں کہیے اسی نام کا کشکول ہاتھ میں لئے دے داتا کے نام تجھ کو اللہ رکھے کا ورد کرتے ہیں ، اسی کی تعریف میں بھجن گاتے پھرتے ہیں ۔ اگر ہل والوں نے اس کے اوپر اندرونی خودمختاری کا ملمع چڑھایا تو قلم دان والوں نے سیلف رول کی سیلفی کھینچی اور تو اور ہندوارہ بریگیڈ نے قابلِ حصول قومیت AChievable Nationhood کا مصالحہ ڈال دیا کہ مزیدار اور جٹ پٹا لگے۔ اس بیچ اپنے وائسرائے کشمیر نے شاہراہ ِ بے زباںپر پہرے بٹھائے تو قائد ثانی ، ٹویٹر ٹائیگر، بانوئے کشمیر ، فوراً مدعے کو بازوں سے پکڑ کر ٹانگوں سے جکڑ کر میدان میں کود پڑے ۔پھر اس کی خوب آرائش کر ڈالی۔ اپنی پہچان کے نشانات سے مزین کردیا تاکہ سب اسے ان کی ہی پرائیویٹ پراپرٹی ہی سمجھ لیں، جیسے یہ ان کی پشتینی جائیداد ہو اور اس کے تمام مالکانہ حقوق پر انہی کا قبضہ قبالہ ہے کہ شجرہ خسرہ بشمول ریونیو جمع بندی کاغذات ان کے نام اجرا ء ہوئے ہیں۔ شاہراہ نمبر ۴۴؍ کو شاہراہ الیکشن سمجھ کر معاملے کو آنکھوں پر بٹھا کر، دل جگر میں سجا کر ،ڈھولی کے کہاروں کی طرح کندھوں پر اُٹھائے چل نکلے ۔وائسرائے کشمیر کے ساتھ ساتھ سارے دلی دربار کو بڑے پیارسے للکارا کہ یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔خود اپنے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ،ہم ہیں تو کوئی مودی کا لال شاہراہِ بے زباں پر قبضہ نہیں کرسکتا ۔اس لئے تم مجھے ووٹ دو میں تمہیں شاہراہ دوں گا ۔ اتنا ہی نہیں اب کی بار اپنے صاف ستھرے کپڑوں کا کوئی پاس بھی نہ کیا بلکہ رشید ملنگ کی طرح بیچ سڑک بیٹھ گئے۔پائوں پسار کر لیٹ گئے ۔گرد و غبار سے اگرچہ اَٹ گئے مگر زمین پر ایسے ڈَٹ گئے جیسے واقعی اہل کشمیر کا درد دل میں اتنا سمائے ہیں کہ دل ان کا درد کا گودامِ دردستان بن کر رہ گیا ؎
لو ہم تمہیں دل دیتے ہیں کیا یاد کرو گے
ہرے زخم سل دیتے ہیں کیا یاد کروگے
اپنا ملک کشمیر تو مانا غریب ہے پر اپنے سیاسی مچھندر عجیب و غریب ہی نہیں بلکہ رنگے سیار ہیں کہ ان کے سائے سری نگر تادلی اس قدر پھیلے ہیں پتہ نہیں چلتا کیا دکھا رہے ہیں اور کیا چھپا رہے ہیں ۔آج کل ہل والے ، قلم دان والے اور ہندوترشولی بریگیڈ ایک دوسرے پر ایسے وار کرتے ہیں مانو دھڑا دھڑ سرجیکل اسٹرائیک میں جٹ گئے ہیںاور اس دوران ایک دوسرے پر ایک جیسے بم بارود کی بوچھاڑ کرتے ہیں ۔الزام ہے کہ کنول برادری کو ملک کشمیر میں وسیع جگہ دینے میں تیرا ہاتھ ہے۔یا یہ کہ کنول پھول کھلانے کے لئے زمین دوسرے نے مہیا کی۔کسی نے کھاد پانی ڈالا اور کسی تیسرے نے شاخ تراشی کی تاکہ کنول پھول کھلانے میں آسانی پیدا ہو اور یہ تناؤر درخت بن بیٹھے۔ ادھر جو الیکشن کا موسم آیا تو سب کچھ بدل گیا ۔جو کل تک قطبینی یار تھے آج دشمن دِکھنے لگے۔وہ جو منسٹری کی ایک ہی تھالی میں کھاتے پروستے تھے او ر اس کے بیچ گجرات کے ہزاروں بے گناہوں کا خون نہ جھنجوڑتا تھا، نہ کچوکے لگاتا تھا، وہ اب طعن وتشنیع کے فرینڈلی میچ میںچلّاتے ہیں : ترشولیو! تم لوگ خون مسلم سے ہاتھ رَنگتے ہو ۔آئے دن کارِ کرتائوں کے ہاتھوں گائے اور دیش دروہ کے نام پر مارتے کاٹتے ہو۔مطلب صاف چنائو ہے تو تنائو ہے ، ووٹ ہے تو کھوٹ ہے ۔اُمیدواری ہے تو ساہوکاری ہے ۔اسی لئے لوک سبھا میں استھان ہے تو یادِ مسلمان ہے اور وہ بھی جو قطبین کو ملا کر فیویکول کا جوڑ بنائے تھے ۔ ملک کشمیر کا مسلٔہ حل کرنے کی صلاحیت کے نام پر کنول بردار کے قصیدے پڑھتے تھے ۔ جواب میں بھلے ہی مودی سرکار کی دُھتکار تھی ، کنول برداروں کی للکار تھی ، ناگپور کی تکرار تھی، ترشول برداروں کی نگاہِ خوں بار تھی مگر اس سب کے بیچ دوستی پارم پار تھی کہ اقتدار کی لالچ سوار تھی۔اور وہ جو بڑے بھائی سے مل کر وزارت کی ٹوٹی پھوٹی کرسی حاصل کر گئے تھے ، اس لئے سب کچھ جائز تھا ۔آرایس ایس کے لئے ملک کشمیر کی زمین ہموار تھی یعنی چڈی چھوٹی نہیں بلکہ پوری ایزار تھی ۔خیر الیکشن کے موسم میں آج کل سب کنول برداروں کی ہر پالیسی پر دکھاوے کی تھو تھو کرتے ہیں کہ قائد ثانی کو بھاجپا ایک آنکھ نہیں بھاتی، ٹویٹر ٹائیگر کو کنول جاتی رُلاتی ہے ،دودھ ٹافی والوں کو مودی کی یاد ٹینٹوا دباتی ہے اور سیب نشان زدوں کو کنول والی اسکیب حملہ کرتی ہے ؎
غریب کی تھالی میں پلائو آگیا ہے
لگتا ہے شہر میں چنائو آگیا ہے
اس بیچ اپنے ملک کشمیر کی شاہراہ بڑی خبریں بنا رہی ہے۔ یوں سمجھو خبروں کی اڑن طشتریاں اُڑاتی ہے بلکہ خبروں کی جنم داتابن رہی ہے۔وہ جو پھاٹک مجسٹریٹ چوراہے پر کھڑے چلنے پھرنے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان کی اجازت کے بغیر پرندہ پر نہیں مار سکتا۔البتہ خود وردی والا چاہے تو وہ ہر کسی کو مار سکتا ہے ، پیٹ سکتا ہے ۔ یوں تو پھاٹک مجسٹریٹ اپنے دفتروں میں کاغذ کے بغیر کسی چیزپر دستخط نہیں کرتے اور کریں بھی ،تو سنا ہے پہلے محنتانہ وصولتے ہیں ۔تاہم شاہراہ پر سوچھ بھارت ابھیان کندھوں پر سجائے گھومتے ہیں ۔جبھی تو ہاتھ پر ہی ٹھپہ لگا کر عبور و مرور کی اجازت لکھ دیتے ہیں تاکہ کاغذضائع نہ ہو اور پرچیاں ہوا میں اُڑ کر سوچھہ ابھیان کو ناکام نہ کردیں ۔ کیا پتہ وہ غیر کشمیری وردی پوش اُن کا ٹھپہ مانتے بھی ہیںیا یہ کہ اپنے کھڑک سنگھ کی مہر والا ٹھپہ مانگتے ہیں،کیونکہ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیا ں۔کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگھ ؎
منزل کی جستجو میں کیوں پھر رہا ہے راہی
ٹھپہ لگا کے جانی گھر میں ہی بیٹھ جانا
کون جانے مملکت خدادا کے اپنے کپتان صاحب کو جلد ہی چوکیدار گروپ میں داخلہ ملے کہ بھکت جنوں کی طرح وہ بھی اب کی بار دوبارہ مودی سرکار کے حق میں ہیں۔بقول ان کے مودی سرکار کے ساتھ بات چیت کا چانس زیادہ بنتا ہے اور یوں مسلٔہ کشمیر حل کرنے کی جانب تیز گامی ہو سکتی ہے۔اب کپتان صاحب کو تو تیز گیندیں پھینکنے کا جوانی کے دنوں سے سودا سر پر سوار ہے، اس لئے ادھر بھی سر پٹ دوڑ کے حامی ہیںیعنی یہ بات اب صاف ہو گئی کہ مملکت خداداد کی ا سکرٹ سروس کا ہاتھ بھارت کے سارے معاملات میں فعال ہے ۔وہ جو بھارت والے کہتے تھے کہ اِدھر پٹاخہ پھوٹا تو آئی ایس آئی نے کروایا، اُدھر بھونچال آیا تو آئی ایس آئی مارکہ نکلا ، سیلاب کے پانی میں اور ملیریا میںبھی آئی ایس آئی کا آکسیجن و ہائیڈروجن شامل تھا ، کبھی کبوتر سراغ رسانی کرتے کبھی چوہے اندر آکر طاعون پھیلاتے تو آئی ایس آئی سے ڈائریکٹ رابط تھا ۔ اب کی بار بے نام سی نامو ٹی وی چینل کا کوئی مالک نہیں ۔ دروغ بر گردن کپل سبل کہ نامو چینل چلانے کا پیسہ بھی سرحد پار سے ہی آتا ہے جو مودی لہر بمعنی قہر چلانے کا کام کرتی ہے تاکہ مودی پھر الیکشن جیتے اور رفتہ رفتہ بھارت مزید تنزل کی طرف بڑھے۔ارے واہ! یہ تو ہوئی آئی ایس آئی کی سازش۔ اب ہم سمجھے کہ خود مودی مہاراج بھی آئی ایس آئی کا ایجنٹ نکلے جبھی تو عمران خان چور چوکیدار کو دوبارہ چانس دلوانا چاہتے ہیں ۔کون جانے جن حریت رہنمائوں کو بھکت جن پاکستانی ایجنٹ کہتے تھے، وہ دلی میں مودی مہاراج سے کوئی خفیہ میٹنگ کے لئے گرفتار ہو گئے ہیں۔ اسی لئے شاید کھانسی سے جھانسی فتح کرنے نکلے اروند کیجروال بھی مودی کو پاکستان کے ساتھ خفیہ منصوبہ رَچنے کا الزام لگاتے ہیں۔ایسے میں پنجہ مار پارٹی والوں کی بھی لاٹری نکل آئی کہ کنول بردار انہیں پاکستان اور حریت نواز مانتے تھے ۔اب تو کنول بردار ہی پاک نواز ثابت ہوگئے کیونکہ ؎
پاکستان میں مچا ہے شور
نریندر مودی ایک بار اور
کوئی یقین کرے نہ کرے پر اپنے سینئر مفتی آف بیج بہاڑہ سارا غیبی علم رکھتے تھے ۔ رکھتے کیوں نہیں، بقول لائق فائق بیٹی وہ جو مرد مومن ٹھہرے ۔ پھر ہوا یہ کہ ادھر کپتان صاحب نے زبان کھولی ادھر قلم دان والی بانوئے کشمیر کے نام ایک اور لاٹری نکل آئی ۔ کپتان کا بیان آتے ہی اسے والد محترم یعنی مرد مومن یاد آیا کہ دنیا کی ہر سنہری چیز کا تعلق انہی کی ذات شریف سے ہے۔بر صغیر میں امن کیسے قائم ہوگا، وہ انہیں ہی پتہ تھا۔عالمی جنگ کس بنا پر لڑی جائے گی ،انہیں اس کی خبر مل گئی تھی۔زوروں کی بارش او رتیز دھوپ کب کب پھیلے گی ِانہوں نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا ۔ہو نہ ہو شاہراہِ بے زباں کے بند کروانے کی پیش بینی انہوں نے ہی بہت پہلے کی تھی،اسی لئے وہ شاہراہِ اوڑی کھلوانے کا چمتکار دلی درباسے کرواگئے ؎
سمجھ آنے لگی اقبالؔ کے مصرعوں کی تفسیریں
نگاہ ِمرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
…………………….
رابط ([email protected]/9419009169)