غفلت کی آ ندھی

 حضور نامدار پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ زریں میں ایک معروف صحابی سعد بن عباد رضی اللہ عنہ سے ایک بار اپنی دوستوں کی محفل میں کہا کہ اگر وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ محو گفتگو دیکھ لیں گے تو وہ بلاتامل تلوار اُٹھاکر اُس کے ٹکرے ٹکڑے کردیں گے ۔اُڑتے اُڑتے یہ بات آقائے نامدار ؐ کے گوش ہائے مبارک میں پڑی تو آپ ؐ نے صحابی ؓ کو بلاکر فرمایا :قسم خدا کی آپ کا پیغمبر ؐ آپ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے اور اُس سے حد درجہ بڑھ کر بذات خود رب العالمین ہے۔
آپ ذرا اپنے گھروں کی طرف ایک ترچھی نظر ڈالئے ،وہاں آپ کو باغ و بہار کی خوشبو کے بجائے بدبو کے بھبکے اُٹھتے نظر آئیں گے کیونکہ ہم لوگوں نے اپنے گھروں کے تقدس کو خود ہی روند ڈالا ہے ۔رشتہ دار نامحرم ،واقف کی بات ہی نہیں ،کوئی اجنبی بھی آپ کے گھر میں براجماں ہوجائے ،آپ گھر میں نہ ہوئے تو مالکن کیا خوش گفتاری فرماتی ہیں۔ارے میاں مالک گھر کو اپنے ساتھ تو نہیں لے گئے۔آیئے بیٹھئے،جب تک وہ آتے ہیں آپ چلم کے دو دم لگایئے،چائے نوش کیجئے ، اور پھر اس بے جا اور غیر شرعی اختلاط سے ،ہر ایک کی فری انٹری سے مجموعی طور سے خانوادوں پر،خواتین اور نو عمر لڑکیوں پر کیا اثر پڑتا ہے،وہ تواظہر من الشمس ہے ۔اس سلسلے کی کئی باتیں ،آپ کے گوش گزار بھی ہوچکی ہوں گی اور کچھ واقعات آپ کے مشاہدے میں بھی آئے ہوں گے ۔ عورتوں یا لڑکیوں کا نام نہاد درویشوں کے ساتھ رفو چکر ہونے بلکہ شوہروں کے قتل تک ہونے کے کتنے واقعات آپ کے مشاہدے میں بھی آئے ہوں گے ۔
بات آپ کو حیران تو کردے گی مگر اُس سے بظاہرآپ کے چرتر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ہم نے حقائق سے آنکھیں پھیر لی ہیں اور بلا شبہ اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں ۔ ایک بڑے گھر میں آج سے لگ بھگ تیس برس قبل ایک جٹا دھاری سادھو ہاتھ دیکھنے اور قسمت کا حال بتانے آیا کرتا تھا ،گویا رمتا جوگی نہ ہوا کوئی خدائی فوجدار ہوا ،جس کو غیب کا علم بھی تھا اور لوگوں کی قسمت کا حال بھی معلوم تھا ۔کیا بات ہے؟گویا    ع
ایک میں ہی جامہ پوش ہوں عریانوں کے بیچ
اور ایک دن اُس بڑے گھر کی بیٹی جوگی کے ساتھ بھاگ گئی ،چونکہ رات کے وقت اور اُن دنوں ٹیکسی یا کیب وغیرہ کیاملتی ،اس لئے انہوں نے سائیکل پر بھگاکر فرار حاصل کرلیا ۔ تاسف کے بعد اور کافی عرصہ جوگن رہنے کے بعد وہ لڑکی پھر نارمل لائف میں وادی کو واپس لوٹی مگر لَو اور کُش دو چھوٹے سادھو ساتھ میں تھے۔اسلام دین ِفطرت ہے تو صاف ظاہر ہے کہ فطرت کے خلاف کرنے سے گھریلو ،ازدواجی اور سماجی سنتولن بگڑ جاتا ہے ۔ مانو بقول میرؔ  ع
اس عاشقی میں عزت ِسادات بھی گئی 
جبری بال کٹائی کے گزرے ایام میں صورت حال یہ تھی کہ اگر دروازے پر دستک ہوجاتی تو صاحبِ خانہ سب کو باہر جانے سے مناہی کرتا اور خود جاکر دروازہ کھولتا، اور دن کے وقت اگر بیوی،بیٹی ،بہو وغیرہ کو سکول ،کالج،یا نوکری ملازمت پر جانا ہوتا تو انہیں سختی سے تلقین کی جاتی کہ سر چادر ٹھیک سے جماکر رکھیں ،دوپٹہ ،برقعہ ڈال لیں اور احتیاط برتنے پر زور دیا جاتا ۔ایسا اس لئے کیا جاتارہا کہ ہر گھر خاص طور پر ہر عورت ،لڑکی خوف و ہراس میں مبتلا تھی ۔شوہر اور والدین تشویش میں رہتے کہ مستورات خیر سے گھر کو لوٹیں ۔ذرا شام ڈھلے باہر والے دروازوں میں تالے ڈالے جاتے اور دن بھر ویسے ہی کھڑکیاں بند اور دروازوں کے اندر سے بولٹ،کنڈی چڑھی رہتی ۔یہ بالوں کی لٹیں کٹنے کا وہ خوف تھا جو ہر سُو اور ہر کہہ و مہہ پر چھایا رہا ۔نامعلوم ہاتھ گیسو تراشی کرکے ملت کی عفت مآب مستورات کو بے عزت اور بے وقار کردیتے ۔اور آپ ہم حیران و پریشان ،بے بس و بے کس تھے ۔ پولیس کا مطلب ہے نرگر پال یعنی ایک ایسا دستہ جو لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتا ہے مگر اس وقت وہ بھی اُس غیبی ہاتھ پر ہاتھ نہیں ڈال پایا، اس کے برعکس یہ محافظ دستہ ایسے لوگوں کو ہی جیل میں ڈال دیتا جو شک کی بنا پر کسی مشکوک کی گت بنا دیتے ۔
آپ سابقہ ستر سال سے عموماً اور اٹھائیس سال سے خصوصاً ڈپریشن کے شکار ہیں کیونکہ آپ نے ایسا ہی کچھ سنا ہے ،ایسا ہی کچھ دیکھا ہے ،ایسا ہی کچھ بھگتا ہے ،ایسا ہی کچھ سہا ہے ۔آپ کے جسم و جان کے ساتھ ساتھ آپ کی روح بھی کچلی گئی ۔آپ کی عزت ِ نفس اور غیرت پارہ پارہ ہوکے رہ گئی ہے ۔جن مستورات کی عزت کا تحفظ اسلام نے آپ پر فرض کیا تھا اُن کی عزت مٹی میں مل گئی۔شادی کے منڈھپ سے دلہن کو اٹھایا جاتا ہے ۔ ایک ہی گائوں میں پنتیس معصوم و بے قصور خواتین کی عصمت تار تار ہوتی ہے ۔وادی کے تقریباً ہر قصبے،ہر گائوں ،حتی ٰ کہ شہر میں بھی بے عزتی کا بڑا داغ ہر کشمیری مسلمان کے ماتھے پر لگتا ہے۔اس طرح سے تو ڈپریشن میں آنا سوبھاگیہ ہے اور ایسا ہی ماحول پھر ایک بار بنا تھا ۔تمام وادی کے لوگ پریشان ۔پریشانی اگرچہ کسی حد تک کم ہوئی مگر خوف کا ماحول بدستور بنا رہا ۔اب کے چھوٹی بڑی،کنواری ،شادی شدہ ،عمر رسیدہ میں کوئی تخصیص نہیں تھی سب کی چُٹیا قطع کی جارہی تھی اور غیبی ہاتھ پردۂ غیب میں ہی رہا ۔
آخر یہ سب کیا تھا ؟آپ اسے کیا سمجھتیر ہے؟ارے حضورپلٹیے اور ذرا دھیان دیجیے!
یہ وہ عذاب الٰہی تھا جو ہر اُس موقعے پر آپ کا بخیہ اُدھیڑ کر رکھ دیتا جب آپ حد سے تجاوز کر جائیں گے ۔ایک معمولی بات کی طرف اشارہ کروں گا، جس کو ہم اکثر اور موجودہ مغرب زدہ تہذیب میں قابل اعتناء ہی نہیں سمجھتے ۔کیا آپ گھر گھر میں ،ہر گھر میں ، بنکوں ،دفتروں ،دوکانوں اور صنعتی اداروں میں،سکولوں ،کالجوں اور ہسپتالوں میں مستورات کو کھلے گریبان والا لباس پہنے نہیں دیکھتے ہیں۔سر سے چادر یا اوڑھنی عنقا ہوتی ہے اور اکثر حالات میں بال بھی کھلے ہوتے ہیں۔خدارا بتایئے ،یہ لباس کا کیسا انداز ہے ؟ماڈرن مغربی تہذیب کا یہ کیسا عریاں شگوفہ ہے ؟کیا آپ کو لگ بھگ ساڑھے چودہ سو سال قبل یہ نہیں کہا گیاتھا کہ اپنی مستورات سے کہو کہ سروں پر چادر یںڈال دیں،سینوں پر دوپٹے رکھیں،اپنی زیب وزینت کو چھپائیں،خوشبو صرف اپنے زوج کی خاطر لگائیں،غیروں اور نامحرموں سے دور رہیں ،گھر سے باہر مستور ہوکر نکلیں،نامحر م کے ساتھ نرم نہیں بلکہ تیکھے لہجے میں بات کرے۔تو بھلا بتایئے،اُن تعلیمات اور ہدایات کا کیا ہوا؟رُ شد و ہدایت کی آسمانی کتاب کا مطالعہ آپ آج بھی کرتے ہیں ۔علماء اور ائمہ بھی بتاتے رہتے ہیں ،پھر اسے کیا سمجھا جائے ؟کیا وہی بات جو حضرت اکبر الہ آبادیؔکہہ گئے ہیں     ؎
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا 
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑگیا 
اب صورت حال جب ایسی ہوگئی ہے ،غفلت کی آندھی چھا گئی ہے ،آپ کی عقل پر پردہ پڑگیا ہے اور مستورات کے سروں سے دوپٹے اُٹھ گئے ہیںتو پھر اگر چوٹیاں بھی کٹ جاتیں تو کیا مضائقہ تھا۔آپ پریشان کیوں تھے؟یہ پریشانی تو آپ نے خود مول لی ہے ۔ آسمان والے کے دربار میں دیر ہے مگر اندھیر بالکل بھی نہیں ہے ۔جب اُس کی لاٹھی برستی ہے تو اُس میں خاکی نیکر والوں کی طرح نمائش نہیں ہوتی ،وہ بے آواز برستی ہے ۔        
  وما علینا الالبلاغ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
  موبائل نمبر:-9419475995 
�����