غـــزلیات

نعت پاک
ہر دم رسولِ پاکؐ سے الفت کیا کرو
دن رات اس جہاں میں عبادت کیا کرو
کرتا ہے خود خدا بھی محبت رسولؐ سے
افضل عمل ہے تم بھی محبت کیا کرو
آقاؐ کا عشق ہی تو ہے ایمان کی اساس
اس عشق کی ہر آن حفاظت کیا کرو
دامن کبھی نہ چھوڑنا اپنے رسولؐ کا
محبوبِ کبریاؐ کی اطاعت کیا کرو
احمدؐ کا ذکرِ خاص ہے قرآں میں جابجا
رکھ کر دھیان میں یہ تلاوت کیا کرو
اصحابِ مصطفیٰؐ کی طرح تم بھی دہر میں
اک دوسرے کی دل سے مروت کیا کرو
ہو جس میں پاک احمدِ مرسلؐ کا تذکرہ
ایسی ہر ایک بزم میں شرکت کیا کرو
شادابؔ یوں ہی جوشِ عقیدت سے تم سدا
سرکارِ دو جہانؐ کی مدحت کیا کرو 
     
محمد شفیع شادابؔ
   پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر   رابطہ:9797103435
 
وصیت درد کی تحریر کرنے جا رہا ہوں 
تمہارے نام سب جاگیر کرنے جا رہا ہوں 
تمہارا نام لے کر سنگِ مر مر پر ابھی سے 
نیا اک تاج میں تعمیر کرنے جا رہا ہوں 
مجھے اغوا کیا ہے آج کالی آندھیوں نے 
میں سارے شہر میں تشہیر کرنے جا رہا ہوں 
خرابے میں تمہاری یاد کے منظر سجا کر 
میں اپنے آپ کو دلگیر کرنے جا رہا ہوں 
امیر ِشہر کرنے آگیا زخموں کا سودا 
میں اپنے جسم کو کشمیر کرنے جا رہا ہوں 
حصارِ ذات سے باہر نکل کر کس لئے میں 
خیالوں کو ترِے زنجیر کرنے جا رہا ہوں 
مکمل تھا کیا جس کو جگر کا خون دے کر 
میں اب نیلام وہ تصویر کرنے جا رہا ہوں 
زباں پر بات حق کی پھر سے کوئی آج لاکر 
سمجھ لو اک نئی تقصیر کرنے جا رہا ہوں 
یزیدو زخم میرے مندل ہو جائیں گے اب 
میں خاکِ کربلا اکسیر کرنے جا رہا ہوں 
 
پرویز مانوسؔ
نٹی پورہ سرینگر ،موبائل :9622837142
 
 
 
 
غم حیات مسلسل ہے جاوداں ہے الم
مقامِ زیست کے ہر موڑ پر نہاں ہے الم
الم نہ ہو تو پھر احساسِ زندگی بھی نہ ہو
خوشی کی دھوپ میں کیا خوب سائباں ہے الم
مری غزل میں زمانے کا تذکرہ ہی نہیں
مرے قلم کی سیاہی کا ہر نشاں ہے الم
الم سے زندگی جنت بھی ہے جہنم بھی
دکھوں کو اپنا بنالو تو لطفِ جاں ہے الم
کسی بھی شخص کی دنیا میں کوئی غم نہ بچے
خرید کر مجھے لادو جہاں جہاں ہے الم
الم سے اپنی رفاقت ہے عمر بھر کے لیے
مری غزل کا بیاں میرا ترجماں ہے الم
ہمارے دل میں بسیرا ہے ان کا شان کے ساتھ
ہمارے گھر میں زمانے سے میہماں ہے الم
سراپا درد ہوں میں زندگی کے صحرا میں
رہِ حیات میں اک سیلِ بے کراں ہے الم
میں آشنائے غم ودرد ہوں زمانے سے
ہر ایک سانس میں میری بہت جواں ہے الم
خدا را مت کرو یارو مرے دکھوں کا علاج
مری حیات ہے غم اور میری جاں ہے الم
ہر ایک درد کو جیتا ہوں میں خوشی کے ساتھ
مرا یقین نہیں ہے مرا گماں ہے الم
الم نہ ہو تو میں خوشیاں ہی بھول جاؤں شمسؔ
مری خوشی کا محافظ ہے پاسباں ہے الم
 
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
9086180380
 
نِکل دھوپ  آ ئے بہت 
 چلیں ساتھ  سائے بہت 
جُدا ہوں   یہ سائے  سبھی 
اگر  شام  چھائے   بہت 
مجھے  چھوڑ  کر چل  دیئے
ہوئے  ہیں  پرائے  بہت 
جُدائی   میں   تیری   پیا 
ہیں آنسوں  بہائے بہت 
کہیں  مر  نہ جائے  منیؔ
زخم  دِل  پہ  کھائے بہت 
 
 {ہریش کُمار منیؔ بھدرواہی}
  جموّں و کشمیر
9596888463 
 
   
 
یہ کیسے خوف کی تشہیر پر ہوں 
میں ہر اخبار کی چبھتی خبر ہوں
گزرتا ہے نہ اب کوئی جہاں سے 
گزشتہ وقت کی وہ رہگزر ہوں
مری تعظیم کر لینے سے پہلے 
ذرا سا سوچ لیجے گا بشر ہوں
کبھی عنوان سارا میں ہی ہوتا 
مگر اب حاشیے پر مختصر ہوں
وہ سورج تو نہیں اٹکا کہیں پر 
میں سایہ دیر سے دیوار پر ہوں
بالآخر سوکھناہی شرط ٹھہری 
ابھی ہوں سبز میں جس شاخ پر ہوں
رہے یہ یاد آدم زاد ہوں میں 
کہا کس نے کہ بالکل بے ضرر ہوں
سحر تک واسطہ ہے تیرگی سے 
سفر پر گامزن تنہا قمر ہوں
بہم منظورؔ کیسی آگہی ہے 
یہ کس الہام کے زیرِ اثر ہوں
ڈاکٹر  احمد منظور 
بارہمولہ ،9622677725 
 
 
 خرد کہتی ہے اس کو اجنبی کر لو
جنوں کہتا ہے اس کی بندگی کر لو
دیئے کی تم کو فکر کیوں ہے یار
میری آنکھیں جلا کر روشنی کر لو
ہمیشہ ہی دکھاوے کو جھکے ہو تم
کبھی تو دل سے اسکی بندگی کر لو
تمہاری شاعری توہینِ اردو ہے
ذرا اوزان میں تم شاعری کر لو
محبت میں ہوا جو حال مجنوں کا
مری حالت بھی تم کچھ ویسی ہی کر لو
سنا ہے تم وفا میں خوب ماہر ہو
فہٓیم اقبال سے بھی تھوڑی سی کر لو
 
فہٓیم اقبال
ہلرشاہ آباد۔ڈورواننت ناگ کشمیر
7006402556
 
 
 
 
 
 
 

دسمبر غزل

بہارِ  بے مروّت ،خار زاروں کا دسمبر ہے
ترے جیسی کئی گزری بہاروں کا دسمبر ہے
اب ان کے ٹمٹمانے کا بھی نظّارہ الگ ہوگا
ٹھٹھرتے کانپتے جیسے ستاروں کا دسمبر ہے
انہیں اب دھند اپنی اوڑھنی میں یوں سلائے گی
مرے نیلے سمندر کے کناروں کا دسمبر ہے
اک اک قطرہ، یہ بادل آنکھ سے میری نچوڑے گا
مہینوں سے پیاسے ریگزاروں کا دسمبر ہے
کئی غنچے ،کئی کلیاں سُلاکر ہم جہاں آئے
ابھی تازہ ہیں خوشبوئیں مزاروں کا دسمبر ہے
دعا مانگیں کہ سالِ نو لے آئے  وصل کا موسم
ابھی تک ہجر زادوں کی قطاروں کا دسمبر ہے
نئے کچھ رنگ بھرنے دو غزل میں ہجر کے شیداّؔ
عجب سا درد لیکر استعاروں کا دسمبر ہے
علی شیدا ؔ
نی پورہ اسلام آباد ( اننت ناگ)
 

غزلیات

شدت ِدرد کے حالات میں رہنے دیتے
مجھ کو میرے ہی خیالات میں رہنے دیتے
سنگ مر مر کی تراشی ہوئی مورت تم ہو
مشت خاشاک کو اوقات میں رہنے دیتے
میں نے مانا کہ دعاؤں میں اثر کچھ بھی نہیں
پھر بھی تم مجھ کو مناجات میں رہنے دیتے
دل کا سودا ہے یہاں ہار بھی ہو سکتی ہے
تم جواب اپنے سوالات میں رہنے دیتے
کس کو افسوس ہے ملنے کا بچھڑ جانے کا
ہاں مگر مجھ کو کسی بات میں رہنے دیتے
مجھ کو چبھتےہیں اجالوں کے مناظر جاویدؔ
رات کے راز سبھی رات میں رہنے دیتے
سردار جاوید ؔخان
پتہ: مہنڈر،  پونچھ، جموں و کشمیر
رابطہ؛  9697440404
 
 مل گئے اہل کرم دل کے سہارے کھو گئے
رات لمبی ہوگئی دن کے اجالےکھو گئے
میں بلندی سے گرا میرا مقدر تھا یہی
جومیرے دامن میں تھے وہ سب ستارے کھو گئے
جب نظاروں کی طرف میری نگاہیں اُٹھ گئی
آندھیاں ایسی چلیں سارے نظارے کھو گئے
کتنے طوفان جھیل کر منزل نے دی آواز جب
موسموں نے رنگ بدلا اور کنارے کھو گئے
دل میں رہ کر دوستوں کے زندگی آباد تھی
جب وہ پتھر ہوگئے میرے ٹھکانے کھو گئے
رہبروں نے چھل کیا خاورؔ تو رہزن ہوگئے
ان کے سارے زندگی کے دن سہانے کھو گئے
 

نذیرخاورؔ

ذاکر نگر، نئی دلی
موبائل نمبر؛09911733774
 تری آنکھیں کِیا کرتی ہے مجھ پر جو نظر سائیاں
ہے جادو نین تیرے کیا! ہے کیسا یہ اثر سائیاں
تری آمد ہوئی یا پتوّں میں کیسی سرسراہٹ ہے
لگے ہیں لہلہانے میں ہی سارے یہ شجر سائیاں
سمایا ہے، بسایا اس قدر سانسوں میں اپنے کہ
ہوا ہوں گْم نہیں کوئی بھی آہ مجھکو خبر سائیاں
حسد کی بُوتو رکھتے ہیں نہایت ہی سلیقے سے
وہ کیسے لوگ ہیں جنہیں ملا ہے یہ ہُنرسائیاں
بھڑک شعلے اْٹھے بستی میں برپا ہے قیامت سی
ہوا نازل ہے کس کا یہ عجب سا ہی قہر سائیاں
عروضی وہ ہے خیالوں کو کچل دیتا ہے جو صابرؔ
مجھے تو روز اُلجھاتی ہے اس کی ہربحر سائیاں
 
صابر شبیربڈگامی
ریسریچ اسکالرشعبۂ اُردو کشمیر یونیورسٹی
Email:[email protected]    
فون نمبر؛9596101499
 
ہے تُو اتنا حسیں ستارہ دلبر
کر لوں ہر دن ترا نظارہ دلبر
تیری آواز پہ فدا ہیں سارے
تیرا لہجہ بہت ہی پیارا دلبر
جب بھی مایوس تم کبھی ہوتے ہو
کھاتا ہے چوٹ دل ہمارا دلبر
میرے کانوں میں اک صدا آئی کل
کیا تم نے مجھ کو تھا پُکارا دلبر
ضدی کتنے ہو تم میں نے جانا سب
دیکھا کل خواب میں نظارہ دلبر
ہاں تتلی جیسی خوبصورت ہو تم
ہے تیرا پیارا پیارا چہرہ دلبر
گر تم کو کہنا ہو کبھی مجھ سے کچھ
خالی کرتا تُو اک اشارہ دلبر
تم سے ہی روشنی ہے پائی میں نے
تم میری آنکھوں کا ہو تارہ دلبر
اے جاناں روٹھنا نہ تم بسملؔ سے
ہے وہ بیچارہ بےسہارا دلبر
 
سید مرتضیٰ بسملؔ
طالب علم: شعبئہ اردوساؤتھ کیمپس کشمیر یونیورسٹی
9596411285