غــزلـیات

 اک نئی تصویر  ہونے والی تھی  
خواب کی تعبیر ہونےوالی تھی
گاؤں میں خیرات بانٹی دوستو
شہر میں تعمیر ہونے والی تھی
آنکھ بھر کے دیکھ کیا لیتے اْسے 
جو نظر سے تیر ہونے والی تھی
پانیوں میں چیختا دیکھا لہو
جل پری کشمیر ہونے والی تھی
وصل کا جھوٹا دلاسا دے کے وہ 
ہجر کی زنجیر ہونے والی تھی 
پھول ہم نے دھڑکنوںمیںرکھ دیئے 
آنکھ بھی شمشیر ہونے والی تھی 
نظم اْس کی آندھیوں سے لڑپڑی        
وہ سْخن میں میرؔ ہونے والی تھی
سامنے تھی منزلوں کی چاہ اور  
چوٹ بھی گھمبیر ہونے والی تھی
یہ محبّت درد کی دہلیز پر   
باعثِ توقیر ہونے والی تھی
 
محمد محمود 
نجدون نی پورہ اسلام آبادکشمیر
9906874299  
 
قربتوں سے بھی نزدیک آنہ سکے
فاصلے دوریوں کے مٹا نہ سکے
وہ جو اپنوں سے غیروں کی خاطر لڑے
پھر بھی غیروں کو اپنا بنا نہ سکے
یہ محبت بھی دنیا میں کیا چیز ہے
جس کی قیمت کوئی بھی چُکا نہ سکے
دیکھنے سے تجھے جی بھرا نہ کبھی
تشنگی دید کی ہم مٹا نہ سکے
خود کو جو چاہے سمجھے، وہ کچھ بھی نہیں
دِل میں گھر جو کسی کے بنا نہ سکے
کچھ نہ دے کر بھی سب کچھ ہی جولے گئے
پھر بھی کہتے ہیں وہ کچھ لٹا نہ سکے
دوست ویسے نصیبوں سے ہم کو ملے
دوستی جو لگا کر نبھا نہ سکے
وہ کمائینگے خورشیدؔ پیری میں کیا
جو جوانی میں کچھ بھی کما نہ سکے
 
سید خورشید حسین خورشیدؔ
چھمکوٹ کرناہ، 
موبائل نمبر؛9596523223
 
 
وصیت  درد کی تحریر کرنے جا رہا ہوں 
تمہارے نام سب جاگیر کرنے جا رہا ہوں
تمہارا نام لکھ کر سنگِ مر مر پر ابھی سے 
نیا اک تاج میں تعمیر کرنے جا رہا ہوں
امیرِ شہر کرنے آ گیا زخموں کا سودا 
میں اپنے جسم کو کشمیر کرنے جا رہا ہوں
مجھے اغوا کیا ہے آج کالی آندھیوں نے 
میں سارے شہر میں تشہیر کرنے جا رہا ہوں
خرابے میں تمہاری یاد کے منظر سجا کر 
میں اپنے آپ کو دِلگیر کرنے جا رہا ہوں
حصارِ ذات سے باہر نکل کر کس لئے میں 
خیالوں کو ترے زنجیر کرنے جا رہا ہوں
مکمل تھا کیا جس کو جگر کا خون دے کر 
میں اب نیلام وہ تصویر کرنے جا رہا ہوں
زُباں پر بات حق کی پھر سے کوئی آج لاکر 
سمجھ لو اک نئی تقصیر کرنے جا رہا ہوں
یزیدو زخم میرے مندمل ہو جائیں گے اب 
میں خاکِ کربلا اکسیر کرنے جا رہا ہوں
 
پرویز مانوسؔ
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر۔موبائل:  9419463487