یو این آئی
غزہ// ایک برطانوی تنظیم نے غزہ جنگ کی افراتفری میں 21 ہزار فلسطینی بچے لا پتا ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ ’سیو دی چلڈرن‘ نے ایک نئے بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں صہیونی جارحیت کے بعد سے تقریباً اکیس ہزار فلسطینی بچے لا پتا ہو چکے ہیں۔برطانوی امدادی گروپ سیو دی چلڈرن کے مطابق یہ ہزاروں لاپتا فلسطینی بچے یا تو تباہ شدہ گھروں کے ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں، یا اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں حراست میں ہیں، بے نشان قبروں میں دفن ہیں یا اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئے ہیں۔گروپ نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ کے موجودہ حالات میں معلومات اکٹھا کرنا اور اس کی تصدیق کرنا تقریباً ناممکن ہے، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ کم از کم 17,000 بچے بچھڑ کر لا پتا ہو گئے ہیں اور تقریباً 4,000 بچے ملبے کے نیچے گم ہیں، جب کہ اس کے علاوہ اجتماعی قبروں میں بھی نامعلوم تعداد دفن ہے۔سیو دی چلڈرن کے مطابق فلسطینی بچوں کی ایک تعداد وہ ہے جنھیں زبردستی لا پتا کیا گیا ہے، انھیں حراست میں لیا گیا اور زبردستی غزہ سے باہر منتقل کیا گیا، اور ان کے خاندانوں کو ان کے ٹھکانے کا پتا نہیں ہے، ان بچوں کے ساتھ ناروا سلوک اور تشدد کی اطلاعات بھی ہیں۔واضح رہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بمباری کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت مزید 15 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، غزہ میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مرکز پر بھی صہیونی افواج نے بم برسائے، جس میں پانی اور خوراک لینے والوں سمیت 8 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اتوار کے روز ایمبولینسز اور ایمرجنسی کے ڈائریکٹر ہانی الجفراوی غزہ شہر میں دراج کلینک پر اسرائیلی گولہ باری سے شہید ہو گئے ہیں، اس حملے میں ایک دوسرا ڈاکٹر بھی جاں بحق ہوا۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں رات گئے اسرائیلی چھاپوں میں کم از کم 40 فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں فلسطینی قانون ساز عزام سلحب اور ایک 12 سالہ بچہ بھی شامل ہیں۔ کمال عدوان اسپتال میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بیت لاھیا میں 2 اور بچے غذائی قلت سے مر گئے ہیں، جس سے بھوک اور پیاس سے مرنے والے بچوں کی تعداد کم از کم 31 ہو گئی ہے۔