وقت لگتا نہیں پِھسلنے میں
عمر لگتی ہے پھر سنبھلنے میں
تْم کو معلوم کیا کہ تیرے بعد
وہ مزہ بھی رہا نہ جلنے میں
میری آنکھوں میں بس گئے ہو تْم
عْمر لگ جائے گی نکلنے میں
ابھی بیٹھو ذرا چلے جانا
وقت باقی ہے شام ڈھلنے میں
اب پتنگوں سے یہ تو پوچھوں گا
زار کیا تھا یونہی مچلنے میں
اِن چراغوں کی خیر ہو جاویدؔ
عْمر اک ہو گئی ہے جلنے میں
سردارجاویدخان
پتہ، مہنڈر، پونچھ
رابطہ، 9697440404
اہلِ چمن کا خون ہُوا جا رہا ہے
بے قابو یہ طاعون ہوا جارہا ہے
چلن موت کا ہواکچھ عام یوںکہ
تھوک و پرچون ہوا جا رہا ہے
نابود ہو کورونا کہ ہر بحث کا
بس یہی مضمون ہوا جا رہا ہے
نظر آئے کووِڑ کو ہر شخص لیلیٰ
اور خود وہ مجنون ہوا جارہا ہے
قتل و غارت میں انسان تھا ماہر
وہ افتادہ ستون ہوا جا رہا ہے
قوَتیں گٹھاتیں جواس وبا کا حوصلہ
اُنہی کا سرنگوں ہوا جارہا ہے
اہلکارِ سرکار ہیں بر سرِپیکار
قدم انکا میمون ہوا جا رہا ہے
کہتے ہیں محقق مِٹانا ہے اسکو
یہی انکا جنون ہوا جا رہا ہے
فلاحی ہو مضمرحصاری میںطالبؔ
پھر وہی قانون ہوا جا رہا ہے
طالبؔ کشمیری
رابطہ۔73-Aامر کالونی تلاب تلو جموں
موبائل نمبر؛9821127187
زندگی کی شام نہ ہوجائے کہیں اب
سحر اپنی سیہ فام نہ ہوجائے کہیں اب
اشکوں کا بحر ہر سواُمڈ آیاہے ایسے
دنیا ہی تشنہ کام نہ ہوجائے کہیں اب
ُّؔآفات و بلا کو ہنستے بستے دیکھ رہا ہوں
مسکن میرا نیلام نہ ہوجائے کہیں اب
ہر آنکھ سے اُ وجھل ہمیں ہونا ہے ایک دن
ہستی ہی یوں فرجام نہ ہوجائے کہیں ا ب
حسرت جو غمِ دل میں کبھی پائی تھی ہم نے
زائل وہ گام گام نہ ہوجائے کہیں اب
لکھنے جو بیٹھا داستانِ زیست ہے امجدؔ
یوں لرزہِ بر اندام نہ ہوجائیں کہیں اب
امجدؔ اشرف
سمبل سوناواری بانڈی پورہ؛7889440347
رکھ لے دل تسکیں وہ آئینگے ضرور
غم کے ہیں لمحے یہ جائینگے ضرور
بُجھ گیاہے دل غمِ احوال سے
آئیں وہ، شمع جلائینگے ضرور
لب ہیں کھولے اب دعائوں کے لئے
اس وباء سے وہ بچائینگے ضرور
شکوہ ہائے زندگانی سُن کے وہ
زیست کا شربت پلائینگے ضرور
چاند کے چہرے سے پردہ کھینچ کر
تیرگی کو وہ ہٹائینگے ضرور
اب دعا منظور ہوکے آئے گی
راہ میں پلکیں بچھائینگے ضرور
یہ کورونا کی وبا مٹ جائے گی
راشدؔ اللہ یہ دکھائینگے ضرور
راشدؔ اشرف راتھر
کرالپورہ، سرینگر؛9622667105
یہ سناٹا کیوں چھایا ہے، ہر پھول یہاں مرجھایا ہے
ہر آنکھ سے اشک غم ہے رواں اور دل سب کا گھبرایا ہے
یہ مندر مسجد خالی کیوں، یہ گلیاں کوچے ویراں کیوں
یہ ماتم سا کیوں برپا ہے، کس درد سے دل بھر آیا ہے
کِھل کِھل کے عزیزوں سے ملنا کافور ہوااس دنیا سے
اس زہر ِ لہر نے آکے یوں ہم سب کو کہاں یہ پھنسایا ہے
شہ اور گدا سب ایک ہوئے، کوئی نہ کسی کا داس رہا
ماتم کی ہوائیں اُٹھیں کیا، خوشیوں کے جہاں کو ہلایا ہے
ہر بے پرواہ دل لرزا ہے، ہر رخ پہ یہ کیسا پردہ ہے
اس خوفِ وبامیں آدم نے خود کو خود سے ہی چُھپایا ہے
ہو بے بس پر اک نظرِ کرم ، بخشش ہو خطا کی اب یارب
اک ہارا مسافر در پہ تیرے پھیلائے جھولی آیا ہے
کوئل تو ترانے گاتی ہے، ہر صبح چہکتی رہتی ہے
ہر سمت مگر اے زہراؔ کیوں گہرا سا اندھیرا چھایا ہے
زُہرؔا جبیں
بیروہ،بڈگام،رابطہ؛ [email protected]