غزلیات

درد آخر گھٹا دیا ہم نے
زندگی کو بڑھا دیا ہم نے
حسرتو ں کے پرانے آنگن سے
دل کا لاشہ اٹھا دیا ہم نے
ایک ہی خواب تھا کنارے پر
آنسؤں میں بہا دیا ہم نے
آخری چال پر تھے خالی ہاتھ
پھر دیا ہی بجھا دیا ہم نے
خشک سالی پڑی تھی آنکھوں میں
دل کا دریا چڑھا دیا ہم نے
موت کو زندگی کے بارے میں
شعر اپنا سْنا دیا ہم نے
ہوچْکا تھا گلوب گرد آلود
آئینے پر گْھما دیا ہم نے
آبگاہوں نے احتجاج کیا
ایک پنچھی اْڑا دیا ہم نے
شاہراہیں گزرنے والی تھیں
چل کے رستہ بنادیا ہم نے
دھوپ کو برف پہ اْترنا تھا
بادلوں کو بچھا دیا ہم نے
آخری پیڑ تھاوہ جنگل کا
اورمل کر گرا دیا ہم نے
تھک چکا تھا یہ جون کا سورج
چاندنی میں سْلادیا ہم نے
اس برس بھی دْعا کی بارش میں
جسم اپنا جلا دیا ہم نے
ایک سایہ ملا جو باہر تھا
گھر میں لا کر گنوا دیا ہم نے
اپنے گاؤں کی چھاؤں سے اْٹھ کر
شہر تیرا بسا دیا ہم نے
خواب کتنا طویل تھا اس بار
خود کو کتنا جگا دیا ہم نے
وصل کی بھوک کا گزارہ تھا
ہجر میں غم کِھلا دیا ہم نے
پیاس میٹھی سی لب پہ آئی تھی
ایک آنسو پلا دیا ہم نے
گرتی دیوار تھی میاں جس کو
حال اپنا بتا دیا ہم نے
ڈارون کے گھرانے کا بندر
انگلیوں پر نچا دیا ہم نے
دشت اْبھرا ہے آنکھ میں شیداّؔ
قرض کیسا  چْکا دیا ہم نے
 
علی شیداّ
 نجدون نیپورہ اسلام آباد،  
موبائل نمبر؛9419045087
 
 
 
آپ کے تیور غضب سے ہوگئے
آپ بھی کتنے عجب سے ہوگئے
 
تم سے پہلے تو فقط میرے ہی تھے
اتنے  ہرجائی وہ اب سے ہوگئے
 
یہ کرشمہ بھی محبت میں ہوا
تذکرے خاموش لب سے ہوگئے
 
جب سے تجھ کو آئے آدابِ حیا
ہم ترے دیوانے تب سے ہو گئے
 
تم ہی بے معنٰی نہیں  ہو ہجر میں
ہم بھی جاناں بے سبب سے ہو گئے
 
تجھ سے اے جانِ وفا ہوکر جدا
دُور ہم عیش و طرب سے ہو گئے
 
جب سے اس مہ وش کی قربت مل گئی
الاماں، ہم دور سب سے ہو گئے
 
کیا کہا دنیا ہے ان کی مدح خواں
اِس قدر اچھے وہ کب سے ہو گئے
 
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج۔بارہ بنکی،یوپی۔بھارت
موبائل نمبنر۔7007368108
 
غمِ جاناں ہے، کہاں چین سے سونے دے گا
میری آنکھوں کو کہاں خواب پرونے دے گا
 
کم سے کم اِتنا سمجھتا ہوں میں اْس کافر کو
نہ کسی اور کا ہو گا نہ ہی ہونے دے گا
 
تربہ تر خون سے دامن ہے ترا آ کر دھو لے
کوئی ہو گا جو دلیلوں کو یوں دھونے دے گا
 
میں بھی اب ہو گیا مضبوط پہاڑوں کی طرح
وہ بھی پتھر ہے نہ روئے گا نہ رونے دے گا
 
جِس نے کانٹوں کی قباؤں کے سوا کچھ نہ دیا
کیسے ممکن ہے وہ پھولوں کے بچھونے دے گا
 
وہ تو یکسر تری سانسوں میں رواں ہے جاویدؔ
دربدر تْجھکو تو اِس طرح نہ ہونے دے گا
 
سردارجاوید ؔخان
پتہ، مہنڈر، پونچھ
رابطہ، 9697440404
 
 
رشتۂ درد پوچھئے آثمِ گمگسار سے
جیسے خزاں ہو منسلک گلشنِ پُربہار سے
 
پوچھا جو دردِ کر بلا آثمِؔ دل فگار سے
دریائے خوں بہادیا دیدئہ اشکبار سے
 
کتنی سلونی شام ہے، سایۂ زلفِ یار سے
ہے صبح کتنی پُر ضیاء عارضِ تابدار سے
 
کہتے ہوئے سُنا گیا آثمِ وصنعدار سے
لوٹ کے آئوں گا نہ میں کوچۂ یارِ غار سے
 
تیرا تو ربطِ خاص ہے آقائے نامدارؐ سے
میری عقیدتیں بھی ہیںرسولِ تاجدارؐ سے
 
میرے چمن میں آگ برستی ہے آج ہرطرف
رحمت کے اے سحاب برس اب کے اعتبار سے
 
میری محبتیں کبھی ہونگی نہ آشکار اب
راز تمام کہہ دیئے آثمِؔ پردہ دار سے
 
حکیم بشیر حسین آثمؔ
باغبان پورہ، لعل بازار سرینگر
موبائل نمبر؛9267860787
 
یہ دل میرا تب ہی تو دل ہے
شرفِ محبت جب حاصل ہے
 
عشق نہ ہوتا مجھ سے کیونکر
سینے میں تو دھڑکتا دل ہے
 
دل کی راہ پہ چل کر دیکھو
کیسا محبت کا حاصل ہے
 
عشق کیا، معلوم ہوا تب
راہِ محبت کیوں مشکل ہے
 
اک بھٹکا سا مسافر صورتؔ
رستہ ہے نہ کوئی منزل ہے
 
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9419364549
 
 
یہ کس نے گْل کو خار کر دیا
جگر کو میرے بے قرار کر دیا
 
ہر سو ماتم ہوا ہے برپا اس قدر
خوشی کو میری سوگوار کر دیا
 
جہاں دیکھے نظر آئے وہ نور نظر
دامن کو میرے تار تار کر دیا
 
یہاں تو روز کٹتے ہے جگر
خنجر کو میرے آج پار کر دیا
 
مہر، ماں کا وہ دلکش خواب تھا
عمر بھر جس کو اشکبار کر دیا
 
شائستہ مہرؔ
دلنہ بارہمولہ
 
رکھے ہم نے چُھپائے چہرے
کیسے ہوگئے ہائے چہرے
 
آنکھوں سے پہچان گئی ہے
سب لگتے ہیں پرائے چہرے
 
خوف و ڈر جب پھیلا ہر سُو
لوگ دِکھا نہیں پائے چہرے
 
رونق اُڑ گئی دم کے دم میں
سب کے سب مُرجھائے چہرے
 
پاوڑر کریم بُھلا بیٹھے ہیں
ماسک سے ہیں سجائے چہرے
 
جو دیکھو، انجان لگے ہیں
جانے کہاں سے آئے چہرے
 
سحرؔ اللہ سے مانگ دعائیں
سب کے وہی بچائے چہرے 
 
ثمینہ سحر مرزا 
بڑون راجوری