غزل
تیرے دم سے جہان قائم ہے
یہ زمیں آسمان قائم ہے
دوریاں مِٹ گئیں مگر پھر بھی
فاصلہ درمیان قائم ہے
دل بدلتا ہے تو بدل جائے
عہد و پیماں زبان قائم ہے
کیا ہُوا میرے پُر نہیں نکلے
حوصلوں میں اُڑان قائم ہے
جسم میرا بکھر گیا لیکن
دل میں تیرا مکان قائم ہے
گرچہ ہوش و حواس بس میں نہیں
پھر بھی تیرا دھیان قائم ہے
کوئی کہہ دے عدو سے اے جاویدؔ
مسجدوں میں اذان قائم ہے
سرداجاویدؔخان
مینڈر،پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198
غزلیات
پَل بھر میں برسوں کا رشتہ توڑ دیا
پتھر ِدل نے آخِر شیشہ توڑ دیا
دیکھ کے اُسکو، پھِر دانستہ دیکھ لیا
اِک لغزش نے میرا روزہ توڑ دیا
شاید اُسکی فطری غیرت جاگ اٹھے
ہم نے اِک سائل کا کاسہ توڑ دیا
جھوٹ میں آخر اِتنی طاقت کیوں آئی
اِک ساعت کو سچ کا لہجہ توڑ دیا
اپنی اِس جُرات پر حیرت ہے مجھکو
خواب میں میںنے تجھ سے رشتہ توڑ دیا
رئیس ؔ صِدّیقی
سابق آئی بی ایس افسرڈی ڈی اُردو و آل اِنڈیا ریڈیو
موبائل نمبر؛ 9810141528
کرگیا بسمل مجھے وہ سادگی کے روپ میں
سوچتا تھا چھل کپٹ کیا بندگی کے روپ میں
میری تو اوقات ہے سستی محبت کی مگر
ہر کوئی مہنگا ملا اس دوستی کے روپ میں
آستھا ہی کے بہانے پاپ کرجاتے ہیں لوگ
رہزنوں کی ٹولیاں ہیں آرتی کے روپ میں
آرزو گلشن کی تھی لیکن کسے معلوم تھا
زہر بونے آئیگا وہ شخص مالی کے روپ میں
کیسے میں پہچانتا اند رہے اُس کے کیا سعیدؔ
ہر کوئی انسان کہاں ہے آدمی کے روپ میں
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر،موبائل نمبر؛9906355293
اِک عالم نے کیا کسی محفل میں قیام
توجاہل بیٹھا آکے برصدرِ مقام
پوچھا گیا کہ حضرت یہ حرکت رہی کیسی
بولے سمجھتا ہو اِسے جوں پتھر ہیں تمام
کوئی قُدرتی مناظر پر اعتراض کیا کرے
جیسے یہ دیواریں، یہ در ہیں اوربام
بُرا جتنی دیر میں کچھ کہا جائے گا
اچھا بھی اُتنی دیر میں ہوسکے کلام
عقل کی رہبری میں فائقؔ سعی کر لے
دانا تنگ نہیں ہوتے از گردشِ ایام
عبدالمجید فائق اُدھمپوری
ادھمپور جموں
موبائل نمبر؛9682129775
ارمان، خواب راکھ کی صورت بکھر گئے
کل جب وہ صاف عہدِ وفا سے مُکر گئے
حق کے لیے بلند صدا جو ذرا سی کی
پتھر مرے مکان کے اندر اُتر گئے
آفات کی گرفت میں آیا کھبی جو میں
سب آشنا نگاہیں چُرا کے گزر گئے
ممکن نہیں کہ لوٹ کے ہم آسکیں کبھی
سائے کی جستجو میں کہاں سے کِدھر گئے
دارورسن کا شوق نہیں تھا کوئی مگر
الزام وہ تمام مرے نام کر گئے
جب سے وباء کا روگ ہے پھیلا خبر نہیں
کچھ لوگ آس پاس تھے جانے کدھر گئے
عارف ؔکبھی نہ ان کو کنارا ملا یہاں
طوفان کے بہاو سے جو لوگ ڈر گئے
جاوید عارف
پہانو،شوپیان، کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298
دل نہ اب تک کہیں سنبھلتے دیکھے
ہاں مگر رشتے ہی ہر بار بدلتے دیکھے
یوں لگا جیسے بادلوں میں چاند چُھپا
گیسؤ اُس کے جب ہم نے سنورتے دیکھے
اُس کے ہونے سے ہوئی محفل روشن ایسے
سِتارے زمیں پر جیسے اُترتے دیکھے
اور تاثیر ایسی زُبان میں کہ نہ پوچھئے
پتھر شہر کے بھی ہم نے پگھلتے دیکھے
اُس نے جانے کی جب بھی بات کہی
اشک آنکھوں سے ہم نے برستے دیکھے
رسم بچھڑنے کی جب بھی آتی رہی سحرؔ
حالات دل کے ہم نے بگڑتے دیکھے
ثمینہ سحرؔ مرزا
بڈون راجوری
غزلیات
کچھ نشاط آفریں اب فضا چاہئے، چہرہ چہرہ زمیں پر کھِلا چاہئے
باغِ ہستی کے ہر گام پہ جا بجا، جنسِ معصوم کو اِک خلا چاہئے
زندگی اک خرابہ سے دو چار ہے، دوشِ نازک پہ پھرتی لئے بار ہے
جہدِ کامل بھی اس کا اب بے کار ہے، وقتِ رُخصت کچھ اس کا بھلا چاہئے
پست ہمّت ہوا ہوں میں ہر گام پر، داد کاوش کی میری مگر دیجئے
گرچہ اُمید پہ آسرا ہے ابھی، دل بھی فولاد سا کچھ پلا چاہئے
لب پہ خاموش شکوے شکایات ہیں، ان میں پنہاں بہت سی حکایات ہیں
یاس انگیز ماحول کے درمیاں، زندہ رہنے کو بھی حوصلہ چاہئے
ایک مدّت سے محوِ تماشہ ہوں میں، زندہ جاں ہوتے ہوتے بھی لاشہ ہوں میں
بعدِ آزار بھی اب طلب ہیں مجھے، ساتھ محسن بھی کوئی بھلا چاہئے
چند روزہ میں جینے کا ممنون ہوں، آپ کے ہر کرم کا میں مسنون ہوں
جو ملا اب تلک یہ عنایت ہے سب، اس سے زیادہ کیا مجھ کو صلہ چاہئے
کچھ عزائوں کا عُشاقؔ فیضان ہے، کچھ جفائوں کا بھی ہم پہ احسان ہے
جسم و جاں ان سے کُندن ہوئے اپنے ہیں، لب پہ ان کے لئے بھی دُعا چاہئے
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ(جموں)
موبائل نمبر؛ 9697524469
مناتا ہوں مگر ویسے ہی بس روٹھے ہوئے سے ہیں
وہ شاید ترکِ الفت کی قسم کھائے ہوئے سے ہیں
تمہارے ہجر کے صدموں نے حالت یہ بنا دی ہے
نہ ہم سوئے ہوئے سے ہیں نہ ہم جاگے ہوئے سے ہیں
بس اتنے سے سمجھ لو کوئے جاناں کے فضائل تم
گلوں کے مثلِ ہی کانٹے وہاں مہکے ہوئے سے ہیں
اے میرے صبر زندہ باد اے میری پیاس زندہ باد
جو پیمانے کہ خالی تھے وہ سب چھلکے ہوئے سے ہیں
مری پرواز پہلے جیسی رفعت کیوں نہیں پاتی
ذرا دیکھو تو کچھ پر کیا مرے کترے ہوئے سے ہیں
بظاہر اور بہ باطن میں یہی اک فرق ہے صاحب
وہ میرے ساتھ میں تو ہیں مگر بچھڑے ہوئے سے ہیں
ترے دل میں بھی کیا چاہت کے نرم احساس جاگ اُٹھے
ترے انداز آخر آج کیوں بدلے ہوئے سے ہیں
ضرور ان سے جنوں بردوش دیوانے گئے ہونگے
پہاڑوں اور چٹانوں پہ جو رستے ہوئے سے ہیں
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج ، بارہ بنکی ، یوپی
موبائل نمبر؛7007368108
مجھے آپ سے دل لگانا نہیں ہے
ولیکن کسی کو بتانا نہیں ہے
مزا دے رہے ہیں یہ فرقت کے نالے
فریبِ تبسم میں آنا نہیں ہے
ترے ہجر میں ہم کریں بھی تو کیا اب
ہمیں شعر کوئی سنانا نہیں ہے
یہ رنجش یہ باتیں یہ تیرا بگڑنا
بگڑنا بگڑ کر سدھرنا نہیں ہے
ارے یار ہم اب کہاں کے ہوئے ہیں
کسی کو بھی یہ اب بتانا نہیں ہے
رہیں گے تمہارے لیے ہم یہیں پر
اِدھر سے اُدھر اب تو جانا نہیں ہے
نظر سے نظر ہم ملا بھی تو لیتے
نظر میں کسی کے اب آنا نہیں ہے
اگر ہو سکے گا پلٹ کر کبھی آ
مجھے تو تمہیں اب ستانا نہیں ہے
کہ ساگرؔ یہی ہے تمہیں راز رکھنا
کبھی بھی کسی کو بتانا نہیں ہے
ساگرؔ سلام
کوکرناگ اننت ناگ
موبائل نمبر؛ 6006829932
محبت میں کوئی سیاست نہ کرنا
امانت میں ہرگز خیانت نہ کرنا
جواں لڑکیوں سے یہ کہتی ہے دنیا
کسی اجنبی سے محبت نہ کرنا
مجھے میرے منہ پر بُرا چاہے کہنا
مگر پیٹھ پیچھے مذمت نہ کرنا
بھٹکتے پھروگے محبت کی خاطر
مجھے چھوڑنے کی حماقت نہ کرنا
گرے لوگ رستے پر اکثر ملیں گے
تم ان پر نگاہِ عنایت نہ کرنا
سر راہ جو لوٹ لیتے ہیں عصمت
تم اِن بھیڑیوں سے مُروّت نہ کرنا
ہو جتنا ضروری ثمرؔ اتنا کہنا
بہت گفتگو کی حماقت نہ کرنا
سحرش ثمر
فردوس نگر۔ علی گڑھ
چاند نے دیکھا تمہیں تو دیکھتا ہی رہ گیا
کیا کوئی ایسا حسیں ہے سوچتا ہی رہ گیا
ہو گیا وہ آپ ہی یوں تیری زلفوں کا اسیر
رات بھر تم کو جہاں میں ڈھونڈتا ہی رہ گیا
دیکھ کر صورت تیری یہ سوچتا ہے آفتاب
یہ کرشمہ ہے خُدا کا بولتا ہی رہ گیا
بھاگئی مجھ کو قسم سے ہے تری شرم و حیا
اپنے ربّ سے تیری اُلفت مانگتا ہی رہ گیا
پل دو پل یہ زندگی بھی مل گئی تقدیر سے
تیری یادوں میں بِتا کر جھومتا ہی رہ گیا
دیکھ لی صورت تیری جو گیسوئوں کے درمیاں
اے دلِ نادان تب سے دیکھتا ہی رہ گیا
میں نے کردی زندگی بھر میں تری ہی آرزو
زندگی بھر اے صنم یوں سوچتا ہی رہ گیا
حکیم مظفرؔ حُسین
باغبانپورہ لعل بازار، سرینگر،موبائل نمبر؛9622171322