غزلیات

پھول کٹ جائے تو اس میں تازگی رہتی نہیں
پیار کے بِن زندگی بھی زندگی رہتی نہیں

ہجر کے ماروں سے پوچھو ہجر کے درد و الم
لمحے میں سو بار مرنے میں کمی رہتی نہیں

ابرِ اسود یا اماوس چھائے جب بھی چاند پر
دونوں صورت میں سلامت چاندنی رہتی نہیں

خاک سے نسبت ہے میری خاک ہی ہو جاؤں گا
برگِ گل پر مدتوں تک دلکشی رہتی نہیں

زندگی کو چاٹتی ہے جب ہوس کی تیز دھوپ
شبنمی احساس کی بالکل نمی رہتی نہیں

شمع کی لو میں پتنگے کیوں جلے ہیں بارہا
عشق کی مستی کے آگے آ گہی رہتی نہیں

ہو نہ شامل فن میں گوہر ؔجب تلک خونِ جگر
قافیہ بندی سے زندہ شاعری رہتی نہیں

گوہرؔ بانہالی
رام بن جموں

کبھی تو اے دلبر حسیں رات ہوگی
ستاروں سے آگے یہ بارات ہوگی

کنارہ کروں گا میں اک دن جہاں سے
تیرے ساتھ میری ملاقات ہوگی

سناؤں گا تم کو میں اپنی کہانی
تیری حمد ہوگی مناجات ہوگی

میں کہہ بھی تو کچھ نہ سکوں گا پھر اُس دِن
تیرے ہاتھ کتابِ مکا فات ہوگی

لگے گی پیشی عدالت میں تیری
قیامت سے بھی سخت وہ رات ہوگی

میرا سایہ مجھ سے وفا نہ کریگا
نہیں کوئی رشتو ں کی بارات ہوگی

میرےسامنے پرواز ؔدلبر رہے گا
حسیں کتنی خوشیوں کی برسات ہوگی

جگدیش ٹھاکر پروازؔ
لوپارہ دچھن ضلع کشتواڑ
[email protected]

جن کا اس دہر میں کردار ہے مکار بہت
وہ سمجھتے ہیں ہمیں ہم بھی ہیں عیار بہت
بیچ منجھدار ہیں ہم اور توقعاتِ جہاں
ہم سے اپنے بھی، پرائے بھی ہیں بیزار بہت
مثلِ کافور ہوئے وقت کے پڑ جانے پر
ورنہ ہم نے تو بنائے تھے یہاں یار بہت
حاجتِ قرض نے لایا ہے ہمیں گھٹنوں پر
ورنہ سب کو ہے خبر ہم بھی تھے خودار بہت
جی رہے ہیں کہ عطا قیدِ جہاں ہم کو ہوئی
اس تماشے سے وگرنہ تو ہیں بیزار بہت
کامیابی کی عمارت کو بنانے کے لئے
خواب ہم نے بھی کئے آپ ہیں مسمار بہت
آخرش پھاند لی ہمت کو جُٹا کر عارضؔ
یوں تو اونچی تھی رسومات کی دیوار بہت

عارضؔ ارشاد
نوہٹہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛7006003386

مِل کر کرلیں آؤ وِچار
موسم بدلا ہے سرکار
باغِ باہو پہ چھائی بہار
چشمہ شاہی ڈَل بیزار
ایک نظر بس دیکھا تھا
اب تک ہے آنکھوں میں خمار
کیا پوچھو ہو میرا حال
میں ہوں اِک ڈھہتی دیوار
کشتی ساحل سے ہے دُور
طوفاں کے بھی ہیں آثار
اَپنا ہے بس ایک خُدا
باقی سب مطلب کے یار
جب مٹی ہی باغی ہو
کتنی جہد کرے گا کمہار
سچ کے دم پر لڑتا ہے
ہو گی یقیناً اس کی ہار
نرغے میں ہوں اَپنوں کے
کون کرےگا پہلا وار
کوئی خبر راحت کی ڈھونڈ
خون سے لت پت ہیں اَخبار
اِس کی عزت کرنا سیکھ
یہ عارفؔ کی ہے دَستار

عرفان عارفؔ
جموں
موبائل نمبر؛9682698032

وہ جانِ جاں ، وہ مہربان کیسا ہے
ہے نگاہیں منتظرعِشق بُتاں کیسا ہے

اب آہٹ ہے نہ چاپ کوئی!
کسی کے آنے کا یہ گماں کیسا ہے

سزائے درد میں سہہ چکا ہوں
اب میرا امتحاں کیسا ہے ؟

تیرے آگے میرے لب گویا نہ ہوئے
تو دیکھ تیرا طرزِ بیاں کیسا ہے

بے خیالی میں آئے جب خیالِ یار
ہو زیرِ لب تبسّم تو زِیاں کیسا ہے

گو میں رہینِ منّت کش ہوں تیرا
جتا دیا تونے تو احساں کیسا ہے

تکتے رہتے ہیں فلک سے تارّے مشتاقؔ
یہ شوروغُل یہ دھرتی کا اِنساں کیسا ہے

خوشنویس میر مشتاق
ایسواننت ناگ ، کشمیر
[email protected]

ہجومِ دہر کا بھی لیاہے اَب اَثر کوئی
نہ ٹھہرا ہم سفر کوئی نہ چارہ گرکوئی
یہ کیسی دوڑ شور و غُل میں یہاں قائم ہے
شعورِ نارسا کا نہیں ہے بام و در کوئی
ہُوا کوتاہیوں کا برملا ہے سلسلہ دراز
رہا نہ کہیں بھی اِمتیازِ خیرو شر کوئی
جو طوفاں ہر پہر آتا رہا ہے قیامت سا
نہ چھوڑا مال و جان کچھ بھی اِدھر نہ گھر کوئی
کرم فرمائیاں بھی خلوص سے ہوگئیں عاری
جوہر نُکّڑ پہ قدغن لگی ہے کیا بے خبر کوئی
ہزاروں داستانیں سسکیوں کی جو دب چکی ہیں
کہیں تو حسرتوں کی راکھ سے نکلے شرر کوئی
تماشائی تو مناتے رہے خیر لبِ دریا
لڑے منجدھار سے گر کوئی تو شِناوَر کوئی
فسادِ اَرض کے نمرود نے آگ لگائی ہے
بے خطر کُود پڑا ہے کوئی تو الحذر کوئی
جو سیدھا راستہ جائے ہے، سنگِ منزل تک
کہ سنگِ راہ بن جائے ہے زور و زر کوئی
شکست و ریخت ہے فطرت کا اِک پیہم عمل
مگر ظالم نے چھوڑا اِدھر کیا بحر و بر کوئی
بہت دیکھی ہے چشمِ فلک نے بارُود کی بُو
تڑپتا خاک و خون میں رہا جو ہر بشر کوئی
حقوقِ سگاں کی فکر جو ہے سرکار کو میرؔ
حقوقِ بشر کے لئے بہم نہ چشمِ تر کوئی

ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل، کشمیر

ہمارے دلوں میں رفاقت کہاں ہے
ہے نفرت ہی نفرت محبت کہاں ہے
عدالت میں کوئی ہو پہچان والا
ثبوتوں کی کوئی ضرورت کہاں ہے
جہاں عدل و انصاف ملتا تھا سب کو
وہ پیارے نبی ؐکی عدالت کہاں ہے ؟
ہے دھوکا فریب اور دنیا پرستی
صحابہؓ کی جیسی سیاست کہاں ہے
کہ ہم بھی ہیں ایمان والے جہاں میں
ہمارے گھروں کی وہ برکت کہاں ہے؟
ہوا معرکہ بھی تو بدلے کی خاطر
خدا کی رضا اور اطاعت کہاں ہے
خدا سے تعلق نہیں شوقؔ کوئی
مگر منتظر ہیں کہ نصرت کہاں ہے

شوق ؔارشد
مڑواہ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9103023539

مانجی نے چھل کیا، آہٹ حادثوں کی ہے
چھید نیّا میں کردیا، اُمید ساحلوں کی ہے

کون دل میں بساتا ہے کس کو میرے دوستو
رہ گئی اب نزاکت کا نچ کے رشتوں کی ہے

سامنے بیٹھا ہے شخص حیران ہوں میں مگر
دل سے دل کی دوری اب کی نہیں صدیوں کی ہے

چھیڑ نہ زخموں کو میرے اب خزاں میں ہوں طیب
نشانی یہ میرے بیتے ہوئے بہاروں کی ہے

صحرا میں بلندی سے گرا گلہ مجھ کو نہیں سعیدؔ
یہ عنایت مجھ پہ میرے دوستوں کی ہے

سعید احمد سعیدؔ
احمدنگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380