غزلیات

خیالوں میں جو بنتے ہیں گھروندے ٹوٹ جاتے ہیں
کبھی حق بات کہنے پر بھی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
منافق کارواں میں ایک بھی شامل جو ہوجائے
قدم پھر لڑکھڑاتے ہیں اِرادے ٹوٹ جاتے ہیں
مدارس جس گھڑی بن جاتے ہیں تذلیل کا مرکز
بنا تقصیر ہی بچوں کے بستے ٹوٹ جاتے ہیں
نکالیں عیب شاہوں کے کبھی جو بھول کر خادم
ذرا سی دیر میں مٹی کے پُتلے ٹوٹ جاتے ہیں
جواں بیٹے کی میت جس گھڑی ہو بوڑھے کاندھوں پر
اَلم کے بار سے پھر اچھے اچھے ٹوٹ جاتے ہیں
اگر سجدوں میں تیرے ہو گئی سوداگری شامل
تو اک دن خود ہی سب جذبوں کے کوزے ٹوٹ جاتے ہیں
یہ دُنیا مصلحت کوشوں کی ہے مانوسؔ مت سوچو
یہاں مضبوط بندھن دھیرے دھیرے ٹوٹ جاتے ہیں

پرویز مانوس ؔ
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142

سایہ اپنا ہی تھا چل پڑا سر کے بَل
ورنہ یاں ہم سفر کون ہے آج کل

کچھ نیا چاہئے عشق کے واسطے
خواب ہے وصل یا ہجر ہے سب خلل

کتنا لمبا سفر جھاڑ کر آگئے
اک صدی، سال بھر یا کہ دو چار پَل

اِس تعلق پہ بھی بات کوئی کرے
مسئلہ ہے مرا، آپ کے پاس حل

ہا و ہو کی تھکن جب اُتر جائے گی
اک صدا آئے گی چل مسافر نکل

ذکر ہی آپ کا فکر بھی آپکی
ورد جس کا نہیں کوئی نعم البدل

تنگ ہے یہ زمیں آسماں کی طرح
اپنا سایا بچھا اور شیداؔٹہل

علی شیداؔؔ
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

فصل علی الصباح کی نزہت لئے ہوئے
آئی صبا ء گئی بھی نزاکت لئے ہوئے

خاموش تھامیں آنکھوں میں غیرت لئےہوئے
اس کی ادا مگر تھی قیامت لئے ہوئے

محشر میں دیکھئے کہ ملاقات ہو نہ ہو
جاتا ہوں اک وصال کی حسرت لئے ہوئے

گلشن تھا پر سکون خزاں خوشگوار تھی
آ ئی بہار باغ کی شامت لئے ہوئے

اللہ انجمن کو بچائے زوال سے
ہر فرد بزم کاہے سیاست لئے ہوئے

تنظیم سے تو جائے تو امن و امان ہو
تیرا وجود ہے ہی نحوست لئے ہوئے

لب میرےتیرےسامنےکچھ بھی نہ کہہ سکے
آیا تھا میں شہیبؔ شکایت لئے ہوئے

شہیب کوثر انصاری امانی گنجوی
ردولی،فیض آباد،اتر پردیش

سب کی پردہ داری سے ڈر لگتا ہے
یارو رسمِ یاری سے ڈر لگتا ہے
کس نے آخر رویا تیری میت پہ؟
کس کو آہ و زاری سے ڈر لگتا ہے؟
کتنا مشکل ہے اب کچھ بھی سہہ لینا
کتنا اب دشواری سے ڈر لگتا ہے
جس نے سب رشتوں کو جانچا پرکھا ہو
اس کو رشتہ داری سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو تو اب یوں ہی سوتے رہنے دو
مجھ کو اب بیداری سے ڈر لگتا ہے
کتنے چہرے کتنے انساں رکھتے ہیں
لوگوں کی مکاری سے ڈر لگتا ہے
اپنے اندر سونا سونا پھرتا ہوں
اپنی ہی غم خواری سے ڈر لگتا ہے
پہلے بھی دل ٹوٹا ہے میرا لیکن
اب کے دل آزاری سے ڈر لگتا ہے

عقیل فاروق
بنہ بازار شوپیان
موبائل نمبر؛7006542670

ہے اُن سے ترکِ تعلق کا خیال تو اچھا ہے
کہ ہوتی نہیں مجھ سے یہ مجال تو اچھا ہے

ہے تاب کہاں کسی کو اُس رُخِ یار کے آگے
ربّ نے بنایا ہی ایسا حُسن و جمال تو اچھا ہے

بجا ہے عِشق میں آدابِ عِشق بھی لازم ہیں
ایوانِ محبت میں اُٹھا بارہا یہ سوال تو اچھا ہے

وہ آیا بھی نہ تھا ہنوز خس خانۂ دل میں
پہلے ہی تھا جن کے آنے کا احتمال تو اچھا ہے

الہیٰ ! تیری رحمت کے مشتاقؔ ہم بھی تو ہیں
تیرا کرم اگر ہو شاملِ حال تو اچھا ہے

خوشنویس میر مشتاق
ایسو اچھہ بل اننت ناگ
[email protected]

عجب اک حشر برپا ہے مجھ میں
روز اک شخص مرتا ہے مجھ میں
کیوں کروں اپنی پروا میں جاناں
وہ تھا ہی کب جو میرا ہے مجھ میں
اب کہیں کچھ دھواں نہیں اُٹھتا
خدا جانے کیا جلتا ہے مجھ میں
مجھ کو اک لمحہ بھی قرار نہیں
جانے اب کون ٹوٹا ہے مجھ میں
میرا بھی جی بہلتا ہے تمہیں سے
اب کیا ہی کچھ انوکھا ہے مجھ میں
ڈھونڈتا ہوں تیرا وجود مگر
اپنا ہی آپ بکھرا ہے مجھ میں
آگ کا دریا ہے وہ اور پھر وہ
آگ کا دریا بہتا ہے مجھ میں
میری سانسو ذرا پتا تو کرو
مجھ ہی سے کون لڑتا ہے مجھ میں
بجھ نہیں سکتا ایک جام سے میں
پیاس کا جلتا صحرا ہے مجھ میں
میں کسی دنیا میں نہیں ہوں مگر
سچ یہ ہے ساری دنیا ہے مجھ میں
اس بھری بزم میں بھی چین نہیں
کوئی تو ہے جو تنہا ہے مجھ میں

میر شہریار
اننت ناگ،موبائل نمبر7780895105

زندگی برباد یوں کرتا رہا
اپنی خاطر روز جو جیتا رہا

شمع بن کر رات بھر جلتا رہا
نقش اپنے کھوکے یوں مٹتا رہا

حادثے کل کے بُھلائے اس طرح
آج کا ہر اک ستم ٹلتا رہا

اپنے بچوں سے نظر ہٹ کر رہی
دوسروں کی خامیاں گِنتا رہا

کچھ نہیں اوقات میری ہے سعیدؔ
اپنے بارے میں یہی سُنتا رہا

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛990676380

عجب دیکھو چمن کا یہ نظارہ ہے
خزاں میں بھی بہاروں کا اِ شارہ ہے

فلک پہ ماہِ نو کیا مسکرایا ہے
ہوا روشن جہاں دیکھو ہمارا ہے

کبھی جو چھین کر وہ لے گیا ہم سے
لوٹایا اُس نے اب یارو دوبارہ ہے

خزاں میں بھی یہ گلشن آخر مسکرایا ہے
میرے مالک یہ دلکش اعجاز تمہارا ہے

جہاں بھی قادریؔ تم دیکھتے ہوغور سے دیکھو
ہر اک منظر درخشاں اور دلکش کیسا پیارا ہے

فاروق احمدقادری
کوٹی ڈوڈہ، جموں