غزلیات

جب بھی اپنی ہستی کو خوب تو سنوارے گا
منزلیں بلائیں گی، راستہ پکارے گا

یاد کر کے روئے گا، ہاتھ سر میں مارے گا
مجھ سے جب جدا ہو کر، رات وہ گزارے گا

وقت کے گزرنے سے، زندگی کھٹن ہو گی
آنے والا ہر موسم، زخم ہی اُبھارے گا

ہاتھ کچھ نہ آئے گا ماسوائے رسوائی
جب زیادہ چادر سے پاؤں تو پسارے گا

زندگی بنانے میں، رات دن لگا ہے جو
آدمی یہ بلآخر زندگی سے ہارے گا

کب کسی کی یادوں سے، دل مرا رہا ہو گا
وقت جانے سر سے کب بوجھ یہ اتارے گا

ہم نے تیرے بارے میں، یہ کبھی نہ سوچا تھا
زندگی سے اُکتا کے، موت کو پکارے گا

ممتازؔ احمد
راجوری،جموں
موبائل نمبر؛7051393499

خود کو ہم سے نہ تم جدا رکھنا
ملنے جلنے کا سلسلہ رکھنا
توڑ دیتی ہیں قربتیں ،رشتے
جب بھی ملنا ہو فاصلہ رکھنا
ورنہ ڈس لےگی تم کو تنہائی
ساتھ یادوں کا قافلہ رکھنا
یادیں آکر نہ لوٹ جائیں کہیں
دل کا دروازہ تم کھلا رکھنا
ہر طرف امن ہو جہاں میں سدا
لب پہ ہر پل یہی دعا رکھنا
آج پھر خالی ہاتھ لوٹوں گا
آج بچوں کو پھر سُلا رکھنا
چھوڑ دینا تمام شوق ،رفیقؔ
شاعری کا یہ مشغلہ رکھنا

رفیقؔ عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
سابق آفس سپرانٹنڈنٹBSNL
[email protected]

رگ و پے میں میری عیاں ہو گئی
کہ جاں جب سے جانِ جہاں ہو گئی
من و تو جو ٹھہرا یقیں کا ثبات
شہیدِ وفا خوں فشاں ہوگئی
دمِ آخریں کھینچتا میں رہا
رگِ ہفْت اندام ہاں ہو گئی
میں کُنجِ قفس میں پڑا دل ملول
لبِ تشنہ اپنی زباں ہو گئی
اُٹھاتے رہے فتنۂ روزگار
من و ما مگر رائگاں ہو گئی
شبِ غم ہوئی جب شریک و سہیم
دلیلِ سحر ارمغاں ہو گئی
تَہِ خاک و خُوں سے یاورؔ جیب
حیاتِ خضر جاوِداں ہو گئی

یاورؔ حبیب
بڈکوٹ ہندوارہ، کشمیر
[email protected]
موبائل نمبر؛6005929160

آپ کا ادھر آنا کتنا خوبصورت ہے
یوں کسی پہ مر جانا کتنا خوبصورت ہے
میرا ہمنوا اکثر جس گلی میں رہتا ہے
اس گلی کا میخانہ کتنا خوبصورت ہے
وصلِ یار کی خاطر راہِ پُر خطر سے اب
تیرا بے خطر جانا کتنا خوبصورت ہے
تیری یاد کے لمحے یاد کر کے روزو شب
اپنے دل کو بہلانا کتنا خوبصورت ہے
عشق کرنے والے کو اشکبار آنکھوں سے
دیکھ کر گزر جانا کتنا خوبصورت ہے
اس کے گھر پرندے بھی صبح و شام جاتے ہیں
اس کے ہاتھ کا دانہ کتنا خوبصورت ہے
چھوڑ کر شہنشاہی اک غریب خانے میں
شوق سے چلے آنا کتنا خوبصورت ہے
اپنے روز مرہ کی زندگی سے تنگ آکر
وادیوں میں آجانا کتنا خوبصورت ہے
اپنے یار کی صورت دیکھ کر زمانے کو
کہہ رہا ہے دیوانہ کتنا خوبصورت ہے
درد ہجرِ جاناں میں شب گزار کر حامدؔ
تیرا مسکرا جانا کتنا خوبصورت ہے

حامد ثقافی
جامعہ شاہِ ہمدان ٹکرو (شوپیان)
موبائل نمبر؛7858942065

موت اور جسم سے ہے کیا مطلب
روح کو بس ہے راستہ مطلب

شوق کس کو ہے دار چڑھنے کا
ہے فقط تیرا سامنا مطلب

خود سے اب جنگ ہارنی ہے ہمیں
اس میں پر تیری ہے رضا مطلب

کون جیتا ہے، کون مرتا ہے
عشق کو اس سے یار کیا مطلب

عشق ہے عشق کوئی کھیل نہیں
عشق میں جیت ہار! کیا مطلب!

ہم جو ٹھہرے مریضِ عشق ہمیں
نا دعا اور نا دوا مطلب

زہر ہے زہر اس میں کیا راہی ؔ
پرُ مزا اور بے مزا مطلب

عاشق راہیؔ
اکنگام اننت ناگ
موبائل نمبر؛6005630105

میرے بدخواہ ہی میرے کام آئے ہیں
بزم ِویراں سے وہی سلام لائے ہیں
بجھی بھجی سی بزم میں بتائو یہ کس نے
تیری اُلفت کے یہ دیپ جلائے ہیں
کبھی جو خار بچھاتے تھے راہوں میں
وہی ہیں آج جو پھول بچھائے ہیں
اُس نے شیشے کے محل ہیں تعمیر کئے
مگر ہم نے پتھر کے گھر بنائے ہیں
مشتاق وہ موسم ہمارا ہوا اچانک
جس نے چاہت کے بادل برسائے ہیں
قادریؔ اعجاز دیکھ تو مالک دو جہاں کا
رقیب ہی ترے رفیق بن کے آئے ہیں

فاروق احمدقادری
کوٹی ڈوڈہ، جموں

نام کی تیرے اک کتاب لکھوں
میں تو درد و الم عذاب لکھوں

چھوڑا ہے کس بہانے سے تو نے
میں صنم اس کا ہی جواب لکھوں

جو یہ منظر ہے گزرا آنکھوں سے
اسی منظر کو بے حساب لکھوں

جس پہ رویا ہے آسمان نے بھی
لو میں مزدور کا یہ خواب لکھوں

جو یہ اب رائیگاں ہوا تیرا
میں تو کیسے وہ ہی شباب لکھوں

جو ہے تصویر تیری آنکھوں میں
طلحہؔ میں اس کے تو یہ باب لکھوں

جنید رشید راتھر طلحہ ؔ
آونورہ شوپیان کشمیر

میری ہونے کی تم نے سدا اداکاری کی
پیٹھ پیچھے مگر رقیب کی طرفداری کی

ہم نے زندان سے نکلنے کیلئے کیا نہ کیا
جو دعائیں آتی تھیں ہم نے ساری کی

اپنا گوہر ہی کھو دیا یہاں دل نے
آنکھ نے پر سدا اداکاری کی

عشق و مستی کی نائو میں بٹھا تو دیا
بحرِ اُمید میں چپو چُرا کے غداری کی

ہم کو جاں گدازوں کے حوالے کر کے
تم نے کونسی ہم سے وفاداری کی

راشدؔ تو نہ رکھ کوئی اُمید اب رہبر سے
اُنکی صورت نہیں ہے اب بیداری کی

راشدؔ اشرف
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105