جو اندھیرے میں تیرے پائوں سے لپٹا ہوگا
وہ پرندہ بھی کسی غول سے بچھڑا ہوگا
مسکراہٹ سے مِٹے گی یہ سیاہی غم کی
آپ کی چُپ سے صنم اور اندھیرا ہوگا
میرے ہم عصر چراغو یہ تمہاری باقی
جتنی جَل جائے گی اُتنا ہی اُجالا ہوگا
پونچھتا کون گُلوں کے یہ ڈھکتے آنسو
اِس چمن میں کوئی شاعر ہی نہ آیا ہوگا
دعویِٰ دید رقیبوں کا بھی سچ ہے لیکن
چاند کو پانی بھرے تھال میں دیکھا ہوگا
دَم تو منزل ہی کے نزدیک کہیں ٹوٹے گا
فاصلہ ہوگا مگر آپ سے تھوڑا ہوگا
ڈوبنے والے نہیں کھوٹ تیری قسمت کا
نائو سے پہلے تیرا حوصلہ ڈوبا ہوگا
ہم نے تو آپ کے اعزاز میں لکھی تھی غزل
کیا خبر تھی کہ اِسی بات کا چرچا ہوگا
بنتا جاتا ہے نئی آس کا مرکز پنچھیؔ
اِس کے ماتھے پہ نئی بھور کا تارا ہوگا
سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑکھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668
زندگی میں ایسا بھی میرے یار ہوتا ہے
پیار کو نہ جو سمجھے اس سے پیار ہوتا ہے
کروٹیں بدلتے ہیں نیند بھی نہیں آتی
’’پیار جب جوانی میں پہلی بار ہوتا ہے ‘‘
بھیگے بھیگے موسم میں سرد سرد راتوں میں
دل کسی سے ملنے کو بے قرار ہوتا ہے
دل ڈھڑکتا رہتا ہے چین بھی نہیں آتا
جب کسی کے آنے کا انتظار ہوتا ہے
پہلی بار گزرا ہے جو کسی کی قربت میں
زندگی میں وہ لمحہ یادگار ہوتا ہے
یاد جب بھی آتی ہے بے وفا صنم تیری
درد پھر میرے دل میں بار بار ہوتا ہے
ہر قدم پہ جو بندہ نیکیاں کماتا ہے
وہ خدا کی نظروں میں مال دار ہوتا ہے
خود کو جو بچاتا ہے ہر گھڑی گناہوں سے
اے رفیق وہ سچا دین دار ہوتا ہے
رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
نام کس نے مرا لینا ہے، مرے بعد یہاں
اک کہانی نے ہی رہنا ہے، مرے بعد یہاں
لوگ جیسے مرے ہوتے ہوئے رہتے ہیں سبھی
ٹھیک ایسے اِنھیں رہنا ہے مرے بعد یہاں
زندگی بھر جسے رنجش ہی رہی ہے مجھ سے
اُس نےاچھّا مجھے کہنا ہے مرے بعد یہاں
یاد کر کے مری باتیں مرے قصّے جاناں
تیرے اشکوں نے بھی بہنا ہے مرے بعد یہاں
اے رفیقو! کمر اپنی ذرا کَس کے رہیو
ایک صدمہ تمہیں سہنا ہے مرے بعد یہاں
میری خواہش ہے کہ جینا کروں آساں اُس کا
آدمی وہ جسے رہنا ہے، مرے بعد یہاں
لباس ایسا جو فقط تن کی جلائے ہڈّی
صرف ممتازؔ نے پہنا ہے مرے بعد یہاں
ممتازؔ احمد
راجوری(بکوری)
موبائل نمبر؛7051363499
سرِ ورق تیرے کام لکھ دوں کیا
تیرا سِتم میرا انعام لکھ دوں کیا
کرکے وعدہ اکثر بھول جاتے ہو تم
اِس بے وفائی کا کوئی نام لکھ دوں کیا
ہر گُل کی زبان پر ہے شکوہ صیاد
بربادی چمن کو نیلام لکھ دوں کیا
پھول اپنی قبائیں کتر آئیے ہیں
تمہارے بدن کو گُل اندام لکھ دوں کیا
تیرا ہجر آتشِ سُوزاں سے کم تو نہیں
تیرا وصل ہے سودائے خام لکھ دوں کیا
تیرِ نِگاہ دیکھ کے سب سیرِ چشم ہوئے
تمہارے مد بھرے نین کو جام لکھ دوں کیا
تیری زُلف گِرہ گیر میں اُلجھ جاوں گا
تمہارے زُلف بقائے دوام لکھ دوں کیا
تیری یاد دل میں آکر کہی بس گئی ہے
تیرا ذکر ہے لبِ بام لکھ دوں کیا
اُنہیں برتری حُسن،مجھے اپنی وفا پہ ناز ہے
فقط رہے گا اللہ کا نام لکھ دوں کیا
پاسِ ناموسِ محبت نہ ہو تو کیا
تیرا مشتاق تیرا غلام لکھ دوں کیا
خوشنویس میر مشتاق
ایسو، اننت ناگ کشمیر
[email protected]
ہائے وہ چاندنی شب ، شدت جذبات کے دن
یاد آتے ہیں مجھے تجھ سے ملاقات کے دن
سر خئی لب پہ بھی مائل یہ تمہارا دل ہو
تم تصور میں کبھی لاؤ نہ اموات کے دن
میں خیالوں میں تری گم ہوئی اتنی کہ رفیق
مجھ کو یہ بھی نہیں معلوم یہ ہے رات کے دن
مستئی عشق کی بارش میں نہا لو آکر
پھر دوبارہ نہیں آئیں گے یہ برسات کے دن
جب کسی اور کی بارات نظر آئی مجھے
بس ستانے لگے مجھ کو بھی وہ صدمات کے دن
میری نظریں جو کسی پھول پہ پڑ جاتی ہیں
یاد آجاتے ہیں مجھ کو بھی وہ سوغات کے دن
تم رقیہ سے دوبارہ کیا طلب کرتے ہو
کیا تمہیں یاد نہیں گزرے جو آفات کے دن
رقیہ خاتون
متعلمہ:بی اے آنرس
شعبۂ اردو نتیشور کالج مظفرپور
بڑے تپاک سے امام کرتے ہیں
خدا سے منتیں تمام کرتے ہیں
دکھائی دیتا ہے ہمیں وہ کُوہِ طور
جدھر بھی یک نگہ قیام کرتے ہیں
وصالِ یار گر نصیب نا ہو تو
حیاتِ ہجر کو حرام کرتے ہیں
دلِ بے مدّعا کو تھام تھام کے
اُمیدِ دائم و مدام کرتے ہیں
ابھی ہوں رقص میں نمودِ بے حباب
فجورِ دل قبولِ عام کرتے ہیں
چراغ غُل نہ ہو غبار زیست کا
چلو نگاہ شوق عام کرتے ہیں
زمین گھا گئی کہ آسماں اُسے
تلاش آب و دانہ گام کرتے ہیں
متاع زیست کو سلام کرتے ہیں
دعائے حاجتِ دوام کرتے ہیں
یہی تو میرا جوششِ جنون ہے
دلِ اُمید نا تمام کرتے ہیں
صلاحِ وقت ٹھہرا ورنہ زندگی
سرائے خاک کے بنام کرتے ہیں
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
جب تری نظروں میں ناموسِ وفا کچھ بھی نہیں
اس دلِ خستہ کو پھر تم سے گِلہ کچھ بھی نہیں
صبح کو اک راکھ میری پلکوں سے گرنے لگی
رات بھر کمرے میں لیکن تھا جلا کچھ بھی نہیں
جانتا ہوں میں ترے وہم و گماں میں بھی نہیں
میری غزلوں میں ترے بن باخدا کچھ بھی نہیں
ہے قیامت خیز پہلا اشک تیرے ہجر کا
ابتدائے سوزِ دل کی انتہا کچھ بھی نہیں
آرزوئے یار نے غافل کیا کچھ اس طرح
اس جنوں میں ہائے اب خوفِ خدا کچھ بھی نہیں
جب یہ دل ہی دردِ دل بن جائے سینے میں خلشؔ
دل کے مر جانے میں اے دل پھر بُرا کچھ بھی نہیں
خلشؔ
اسلام آباد کشمیر
[email protected]
یہ درد سہہ جاؤں اب میں صنم
ترے ہاں رہ جاؤں اب میں صنم
کیا عشق نے تیرے کیا ہے مجھے
تجھے سب کہہ جاؤں اب میں صنم
یہ معاملہ عشق کا تو ہی ہے
کہ لہو ہی بہہ جاؤں اب میں صنم
چارہ نہ ہے مجھ کو اس کے بنا
غم عشق سہ جاؤں اب میں صنم
یوں طلحہؔ قلم کی خوشبو سے اب
زندہ تو رہ جاؤں اب میں صنم
جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان کشمیر
اپنے اعمال کا ثمر ہوتا ہے
یہاں کچھ نہیں اور بشر ہوتا ہے
رکھتا قائم توازن ہے اپنا
جو شخص بااثر ہوتا ہے
جو وطن کے لئے جان دے اپنی
شہید ہمیشہ وہ اَمر ہوتا ہے
آنکھ بھی تو وہی دکھاتی ہے
دل کے اندر کا جو منظر ہوتا ہے
کرتا ہے جذب آلودگی صورتؔ
ضامنِ حیات ہر شجر ہوتا ہے
صورت ؔسنگھ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9622304549
میں نے محبت نہیں کی کبھی
یعنی مشقت نہیں کی کبھی
بھلا خاک سوچتا میں اُسے
عشق میں حسرت نہیں کی کبھی
محبت میں دل کو کیا داغدار
مگر تجھ سے وحشت نہیںکی کبھی
رہیں یادیں اس کی فقط اک سراب
اُسے دیکھ حجت نہیں کی کبھی
اسیری محبت کی عثمانؔ دیکھ
فرقت میں ہجرت نہیں کی کبھی
عثمانؔ طارق
کار پلازا بس اسٹینڈ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9797542502
شام سے تو سحر بھی جدا ہوگئی
زندگی دھیرے دھیرے الوداع ہوگئی
وہ مری روح میں بس گئے اسطرح
یاد اُن کی اب وقتِ نزع ہوگئی
روٹھ جائیں گر ہم سے تو کیسے جئیں
دل کی دھڑکن بھی جن پر فدا ہوگئی
دور کرنا سکوں ایک پَل بھی اُنہیں
کیسی رغبت پہ مجھکو خدا ہوگئی
تو نہ تاریکی سے کبھی ڈرنا سلیمہؔ
سانس تیری کسی کی صدا ہوگئی
سلیمہ ملک
راجوری