وہ انقلاب کی ہمت نہیں کیا کرتے
جو مُردہ دل ہوں، وہ حرکت نہیں کیا کرتے
وہ زندگی جو چراغوں کا نور رکھتی ہو
اُسے بُجھانے نے کی جرأت نہیں کیا کرتے
محبت سے تجارت تو ٹھیک ہے، لیکن
محبتوں کی تجارت، نہیں کیا کرتے
وہ مرے آئینے پہ دُھول مل کے کہتا ہے
صلاحیت کو اکارت نہیں کیا کرتے
حُسینی سر تو کٹاتے ہیں اے رئیس ؔ، مگر
کبھی یزید کی بیعت نہیں کیا کرتے
رئیس ؔ صِدّیقی
سابق آئی بی ایس افسر آکاشوانی ودوردرشن
Email:[email protected]
موبائل نمبر؛9810141528
بدن ہے ٹُوٹا ہُوا آنکھ میں خماری ہے
اک اور شب ترے ہجراں میں یوں گزاری ہے
تُمہاری یاد میں رو رو کے تھک گئیں آنکھیں
لہو جگر کا مری چشمِ تر سے جاری ہے
بھلے غنیم سہی یہ بھی اک مراسم ہے
نہیں قرار جو مُمکن تو بیقراری ہے
برنگِ موم پگھلتا ہی جا رہا ہوں میں
مرے وجود میں پنہاں تپش تُمہاری ہے
میں جانتا ہوں کہ تُو مُنکرِ خدا بھی نہیں
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے تُو پُجاری ہے
کسی کے در پہ سوالی نہیں ہوئے جاویدؔ
کہ اس جہان میں جو بھی ہے اک بھکاری ہے
سردارجاویدخان
مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛9419175198
تمہیں یہ غم ہے کہ نعم البدل نہیں ملتا
ہمیں تو اپنے مسائل کا حل نہیں ملتا
تمام وقت کسی اور کام میں گُم ہوں
خود اپنے ساتھ بتانے کو پل نہیں ملتا
ہمارے ساتھ نہ جانے معاملہ کیا ہے
جو آج ملتا ہے ہم سے وہ کل نہیں ملتا
یہ لوگ کون سی دنیا کے رہنے والے ہیں
کنویں تو ملتے ہیں بستی میں نل نہیں ملتا
وہ ڈال ہوں جو سبھی پر جُھکی ملے گی تمہیں
یہ اور بات کہ ہر اک کو پَھل نہیں ملتا
ہوں بادشاہ میں ایسے دیار کا تابشؔ
زمیں تو ملتی ہے جس کو محل نہیں ملتا
جعفر تابش
مغل میدان، کشتواڑ
موبائل نمبر؛8492956626
چرچے تمام شہر میں تیرے جمال کے
گیسو کے، لب کے، زلف کے، چشمِ غزال کے
ایمان دل میں کس نے رکھا ہے سنبھال کے
سب ہوگئے اسیر تو مال و منال کے
دو دن ہوئے نصیب ہمیں کب وصال کے
سہتے رہے عذاب کہ ہجرو ملال کے
گرنے لگے ہیں شاخ سے اب سبز برگ بھی
دن آگئے پلٹ کے چمن میں زوال کے
مجنون ہنس رہا تھا کنارے پہ بیٹھ کر
اپنے تمام خواب سمندر میں ڈال کے
لاشوں کا کیا شمار کریں گے وطن میں ہم
لاکھوں ہوئے شکار کرونا وبال کے
عارفؔ ذرا یقین نہ اس بات پر ہوا
محفل میں یار مجھکو ہوئے خوش نکال کے
جاوید عارف
شوپیان ، کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298
صورت پہ تیری جاناں اب ہو رہی غزل ہے
پردہ کلی بھی کر دے وہ سادگی غزل ہے
شامِ سکوت سر پر دل میں اُداسیاں ہیں
جو دل کو ہے لُبھائے وہ خامشی غزل ہے
ہم نے کسی کے لب سے اپنی غزل سنی ہے
حیرت سے کہہ رہا تھا یہ آپ کی غزل ہے
شرما رہے تھے ہم بھی جب اُس پری کو دیکھا
صورت تھی ایسی پیاری شرما گئی غزل ہے
اب کے ادب میں جاناں برپا ہے بھیڑ اتنی
میں کن کے ہاتھ آئی گھبرا رہی غزل ہے
کوئی کرے بھی اب کیا اس سادگی پہ قرباں
اس سادگی پہ پہلے یہ ہو چکی غزل ہے
رمز و کنایہ ہمدم ہم بھی تو خوب جانے
راتوں میں لوحِ دل سے اُٹھ کے لکھی غزل ہے
جس طور بھی چلے ہیں بادِ بہار کے دن
بادِ صبا کے سر پر ہم نے رکھی غزل ہے
دھڑکن رُکی رُکی سی سانسیں تھمی تھمی سی
ایسا مجھے لگے ہے یہ آخری غزل ہے
مر جائے ہجر میں اب ساگر ؔکا کیا بھروسہ
مقطع پہ آتے آتے آ کے رکی غزل ہے
ساگرؔ سلام
کوکرناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛6006829932
دورِ ازل سے محبت خاص و عام ہے
کرے اصول سے کوئی تو محبت بھی نیک کام ہے
جنکے دل میں اغیار کی فکر، اپنوں سے محبت
ایسے اشخاص کا زمانے میں بہتر انجام ہے
کوچۂ یار سے ہم کبھی نہیں گزرے ہیں، لیکن
زمانے میں نہ جانے کیوں نام ہمارا بدنام ہے
حُسن عدالت نے بے قصور ٹھرایا ہمیں
نہ جانے پھر کیوں پھرمحبت قتلِ عام ہے
ذرا سنبھل سنبھل سی گئی ہے اپنی زندگی
جب سے تصویرِ یار کا میرے دل میں قیام ہے
اپنا خونِ جگر دے کر اُردو کو جان بخشی ہے
ایسے اہلِ قلم کو عثمان ؔکا سلام ہے
عثمان ؔطارق
ڈول، کشتواڑ
موبائل نمبر؛9797542502