غزلیات

 کوئی نہ آئے گا تو انتظار مت کرنا

 کہا تھا دل نے یہ مجھ سے کہ پیار مت کرنا

تُو مسکرا کہ یہی دن ہیں مسکرانے کے

غمِ حیات سے دل سو گوار مت کرنا

مسرتوں کو بھی حاصل نہیں ثبات یہاں

مسرتوں سے یہ دل ہم کنار مت کرنا

ہے فہم کس کو جو دِل کا معاملہ سمجھے

کسی کی یاد میں دل بے قرار مت کرنا

وہ جس کو ہو نہ شعورِ وفا ذرا سا بھی

وفا شعاروں میں اس کا شمار مت کرنا

سکونِ زندگی جس کی نظر میں کچھ بھی نہیں

سکونِ زیست تو اُس پر نثار مت کرنا

وہ شخص جس کو وفا کا نہیں ذرا بھی شعور

تُو اس کا ذکر یہاں بار بار مت کرنا

پرکھ کسی کو نہ ہو پیار کی جہاں اے دوست

وفا جتا کے یہاں خود کو خوار مت کرنا

ہر ایک شخص ہے خود اپنے راستے پہ رواں

یہاں کسی کا بھی تو انتظار مت کرنا

ہے اپنے رستے پہ ہر شخص گام زن عارفؔ

یہاں کسی کا بھی تو انتظار مت کرنا

 

عرفان عارفؔ

صدر شعبہ اردوایس پی ایم آر کالج آف کامرس جموں

موبائل نمبر؛09682698032

 

 

پَل بھر میں برسوں کا رشتہ توڑ دیا 

پتھر ِدل نے آخِر شیشہ توڑ دیا 

 

دیکھ کے اُسکو، پھِر دانستہ دیکھ لیا

اِک لغزش نے میرا روزہ توڑ دیا

 

شاید اُسکی فطری غیرت جاگ اُٹھے

ہم نے  اِک سائل کا کاسہ توڑ دیا

 

جھوٹ میں آخر اِتنی طاقت کیوں آئی

اِک ساعت کو سچ کا لہجہ توڑ دیا

 

اپنی اِس جُرأت پر حیرت ہے مجھکو

خواب میں میںنے تجھ سے رشتہ توڑ دیا

 

 رئیس ؔ صِدّیقی

سابق آئی بی ایس افسرآکاشوانی و دوردرشن 

موبائل نمبر؛9810141528  

 

 

ستم یوں مجھ پر وہ کررہا ہے 

یہ من پسند اس کا مشغلہ ہے 

قصور اپنا بتارہا ہے 

نسب کا لگتا وہ بھلا ہے 

اسے کبھی یار مت سمجھنا 

قدم پہ حاجت سے گر پڑا ہے 

کروانا! الفت کی بات پھر سے 

عناد میں نہیں کوئی مزا ہے 

کرم کریں یا ستم کریں وہ 

غریب دل صبر آزما ہے 

نہیں ہے قاتل یہاں تو کوئی 

لہو کا دریا یہ کیوں بہا ہے ؟

سبھی کے لب پہ وفا کے نغمے 

بتا کہ پھر کون بے وفا ہے؟

 وہ کیسے جھک جائے عاجزی سے 

جو بے ثمر اک شجر کھڑا ہے 

محال ہے غم چھپا کے جینا

وجودِ ناؔزاں الم نما ہے   

 

جبیں نازاں

لکشمی نگر، نئی دہلی

[email protected]

 

 

یہ کھیل سارا نصیب کا ہے 

کہ سال اچھا رقیب کا ہے 

سڑک کنارے پڑا ہے ہر سو

یہ مال شاید غریب کا ہے 

جو درد پھر سے اُٹھا ہے دل میں 

وہ درد میرے نصیب کا ہے

شفا عطا ہو گئی اگر تو ؟

یہ مشغلہ کیا طبیب کا ہے 

ہوئی ہے اَن بَن ہماری تُم سے

سرور میں دل رقیب کا ہے 

ہوئے ہیں برہم وہ وصل کی شب 

دماغ اس میں رقیب کا ہے 

ہمارے ہاتھوں میں آج تک اک

کہ کھوٹا سکہ نصیب کا ہے 

جسے غنیمِ زماں نے لُوٹا

مکاں وہ ساگرؔ غریب کا ہے

 

ساگر سلام

کوکرناگ 

[email protected]

 

 

پھول ارمانوں کے کِھلے خواب میں

شب کو ہم سے جب وہ ملے خواب میں

 

اس اداء سے آکے ملے خواب میں

داغ ہائے قلب دُھلے خواب میں

 

پیار کے، الفت، محبت، لطف کے

کیسے کیسے ورق کُھلے خواب میں

 

جونہ بیداری میں کرپایا کبھی

کرلئے وہ شکوے گِلے خواب میں

 

تم سے نہ بولیں گے صورتؔ کہدیا

کتنے دنوں بعد ملے خواب میں

 

صورت ؔسنگھ

رام بن، جموں

موبائل نمبر؛9622304549

 

 

حقیقتِ وفا اپنی تو یونہی  بہانے سے پوچھ

کون ہے تیرے نام سے بد نام زمانے سے پوچھ

 

سمیٹنا دامن ہر بار تیرا ابتدائے بے رخی سے

کیا ہے با حوش  بکھرنا دیوانے سے پوچھ

 

یہ اشک داروں میں بھی لگتے ہونگے کم ہی

اِک بوند بارش ہی بھگونا آشیانے سے پوچھ

 

  معمولِ  حجر بے سنجیدہ خودی کو بہل کے

مرگِ کردار کا غم کسی  افسانے سے پوچھ

 

قدم قدم پہ تازگی کی تعریفِ پُر کشش پہ

شبنم کے وصل کا منظر ویرانے سے پوچھ

 

فاحد احمد انتہاؔ

واگہامہ بجبہاڈہ اننت ناگ

موبائل نمبر؛9906161667

 

 

جیت سچ کی ہوتی ہے ہر بار دیکھنا

اور جھوٹ ہو جاتا ہے شرمسار دیکھنا

 

ہوتی ملمع سازی کی ہے عمر کم قلیل

ہوجائے حقیقت جب آشکار دیکھنا

 

اپنا متاع دِل لئے جائینگے ہم وہاں

ہم بھی تو ہیں یوسف کے خریداردیکھنا

 

پھل پھولتی نہیں ہیں کبھی ظلم کی شاخیں

آئے جب عدل برسراقتدار دیکھنا

 

کوچۂ جاناں میں لگے کشتوُں کے پُشتے 

ہر چپّہ وہاں کا ہوا گُلنار دیکھنا

 

بازیچۂ اطفال نہیں عشق ہے نیّرؔ

سوبار چڑھنا ہوگا سرِدار دیکھنا

 

غلام نبی نیّر

کولگام،کشمیر

موبائل نمبر؛ 9596047612