غزلیات

 ناصر کاظمی کی زمین میں

 

جب سے تُو نے ہمیں بیگانہ بنا رکھا  ہے

“سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اُٹھا رکھا  ہے”

 نہجِ نبوی سے مسلمان گریزاں کیوں ہیں

 نورِ وحدت کو جہالت میں چھپا رکھا ہے

 اب کہاں آئیں گے رحمت کے فرشتے در پر

ہم نے ابلیس کو آنگن میں بٹھا رکھا ہے

 ہم ہیں وہ قوم کہ جس سے ہے خدا روٹھا ہوا

ہم نے دنیا کو عذابوں میں پھنسا رکھا ہے

 اسطرف بھی کبھی آجاتا مرے جانِ عزیز

میں نے تیرے لئے کاشانہ سجا رکھا ہے

تنگدستی کی اذئیت سے بچا رہتا ہوں

 شکر ہے ہاتھ سدا اپنا کُھلا رکھا  ہے

 اب کہاں ہوگا سکوں ہم کو میسر بسملؔ

 ربِ اقدس کو تو اب ہم نے بُھلا رکھا ہے

 

خورشیدبسملؔؔ

تھنہ منڈی ، راجوری

موبائل نمبر؛9622045323

غزلیات

اگر پاسِ وفاداری نہيں ہے 

عداوت پھر وہ معیاری نہيں  ہے

 

جہاں جائے گا وہ ناکام ہو گا

اگر فطرت میں عیاری نہیں ہے 

 

سمجھتا ہے مجھے اپنا  وہ دشمن

ابھی اس میں سمجھداری نہیں ہے

 

ہوا  ہے بھوک سے بے ہوش بچہ

وگرنہ،کوئی بیماری نہیں ہے

 

جواں بیٹی ہے گھر مفلس کے لیکن

کوئی شادی کی تیاری نہیں ہے 

 

ہیں چھالے پاؤں میں اور دور منزل

مگر ہمت ابھی ہاری نہیں ہے 

 

سناتا ہوں ادب کی محفلوں میں

مری تخلیق، بازاری نہیں ہے 

 

رفیق عثمانی

 آکولہ ( مہاراشٹر )

[email protected]

 

 

دیکھ لو آ کر کبھی بیمار دل 

اب مرے بس میں نہیں سرکار! دل

زندگی کی فلم جاری ہے مگر

ختم شد تیرے سبھی کردار دل

چھوڑئے جھوٹے دلاسے، بولئے!

دیکھ لے گا کب یہاں گلزار دل

فلسفہ من تو شدم تو من شدی

زندگی کا راز ہے عیّار دل

یاد کرکے خوف آتا ہے مجھے

لُٹ گیا کیسے مرا گھربار دل!

کہتے کہتے عمر گزری ”لوٹ جا”

کیوں نہیں سنتا مری اک بار دل

تو بھی تنہا میں بھی تنہا، اس لئے

بات مجھ سے کر لیا کر یار دل!

دیکھ لے منصور جی تیری طرح

ہوگیا کب کا مرا سنگسار دل!

 

شاہیؔ شہباز

وشہ بگ پلوامہ

موبائل نمبر؛7889899025 

 

 

خُود کو جب سے غریب ہی دیکھا

سایہ تب سے عجیب ہی دیکھا

میری باریک بین کیوں آنکھیں

اُن نے خوابِ نقیب ہی دیکھا

آج تو محوِ ذات ہے ہونا

دور کا وا قریب ہی دیکھا

میرے نادان عشق سے کہنا

طوقِ گردن رقیب ہی دیکھا

کیا ہوا اے حیاتِ ماہ و سال

میں نے تجھ کو شکیب ہی دیکھا

میں نے محتاجی اورگدائی میں

پھر سے یاورؔ حبیب ہی دیکھا

 

یاورؔ حبیب ڈار

بڈکوٹ ہندوارہ

موبائل نمبر؛6005929160

 

 

وہ نہیں جب آس پاس ہوتا ہے

دِل میرا کتنا اُداس ہوتا ہے

 

گذرتی ہے جب اپنے دِل پر کبھی

کِسی کے درد کا احساس ہوتا ہے

 

چاہت ملتی ہے جسے محبوب کی

شخص بہت ہی وہ خاص ہوتاہے

 

ہوتا ہے کیا اور غمِ زیست

غمِ عشق ہی کا اقتباس ہوتا ہے

 

اثر ہوتا ہے اُس پہ اُتنا ہی 

صورتؔ دِل جتنا حساس ہوتا ہے

 

صورت سنگھ

رام بن، جموں

موبائل نمبر؛9622304549

 

 

دل کے دروں سے مجھ کو صدا دے رہا ہے تُو

اس ناتوان کو کیسی سزا دے رہا ہے تُو

 

یہ امتحان کھٹن ہوا ہے میرے لئےاب

اُمیدیہی ہے کہ جزا دے رہا ہے تو

 

وہ ڈگمگائے تھے جو قدم تم کو دیکھ لے

ہر ہر قدم پہ اُس کو جِلا دے رہا ہے تو

 

ناحق کو اپنے حق پر مسلط میں ہونے دوںَ

یہ کیسے سچ کا مجھ کو پتا دے رہا ہے تُو

 

ایمان اُس پہ رکھتی ہوں، کرتی ہوں توّکل

ہر بات سے تو زخمِ اَنا دے رہا ہے تُو

 

دل خوب دُکھا، جب مجھے احساس ہوا یہ

اس ماہ جبینؔ پہ خود کو اب جتلا رہا ہے تو

 

ماہ جبینؔ اختر 

لرگام ترال، کشمیر