ترے ہجراں میں اِن آنکھوں کو جلانے کے لئے
کتنے پروانے جلے راز یہ پانے کے لئے
قتل میرا تو سرِ عام ہوا ہے پھر بھی
لوگ کچھ آ گئے مجرم کو چُھڑانے کے لئے
دم نکلتا ہے کہاں عشق کے بیماروں کا
میں نے کیا کُچھ نہ کیا جان سے جانے کے لئے
تیرا مُجرم ہوں مسلسل ہی سزا کاٹ رہا ہوں
کوئی حد بھی تو مقرر ہو دیوانے کے لئے
میں نے تنہا ہی ترے شہر سے ہجرت کر لی
لوگ چلتے ہیں کہاں ساتھ نبھانے کے لئے
ہم سے اک گھر بھی بسایا نہیں جاتا جاویدؔ
آپ نکلے ہیں نیا شہر بسانے کے لئے
سردارجاویدخان
موبائل نمبر؛9419175198
مینڈھر پونچھ
بھٹکی ہوئی نگاہ تھی مجھ پر ٹھہر گئی
دیکھا جو اُس نے پیار سے میں تو سنور گئی
تیرے لبوں سے سن کے صنم نام غیر کا
زندہ ہے جسم آج مگر روح مر گئی
بھوکے ہیں بچے عورتیں بے آبرو ہوئیں
ہر سمت ہیں اُداسیاں غیرت بھی مر گئی
کِھلنا بکھرنا پھولوں کی قسمت میں ہے لکھا
میں تو مہک تھی ہر سُو فضا میں بکھر گئی
سننے لگے وہ غور سے محفل میں اب مجھے
آنکھیں خوشی سے بھر گئیں گل ؔبھی نکھر گئی
گل گلشن
ممبئی، مہاراشٹرا
زیاں یوں بھی مِرا ہے اور یوں بھی
جلایا گو چراغوں میں ہے خوں بھی
خرد گوپاسباں ہے خاک دان کی
بشر کے کام آتا ہے جنون بھی
اُکھاڑا وقت نے تھا کس طرح پر
کھڑا ہر دم رہا میرا ستون بھی
بناکر توڑ دی کیوں میںنے مورت
فسانہ خواب کا تھااِک فسوں بھی
تِرے گُل گوں حسیں موسم کے دن ہیں
وہی میں ہوں نہیں ہوں یا کہ ہوں بھی
مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053
نِگاہِ نازِ نم دیدہ رُخِ گُلنار رنجیدہ
یہ کس کا غم ہے جو تم نے رکھا ہے سب سے پوشیدہ
کبھی لہجے میں شوخی تھی بہت ہی شادماں تھے تم
مگر اب رہتا ہے اکثر رُخِ مہتابِ سنجیدہ
نظر میں ڈال کے نظریُں کہی ہر بات ویسے تو
زُباں گُفتار ہے لیکن تمہارے لب ہیں لر زیدہ
سسک کر خوب روئے جو میرا دامن پکڑ کر تم
یہ لمحہ کوئی افسانہ یہ منظر کوئی خوابیدہ
میرے پہلو میں بیٹھا تھا ،تھا میرے روبرو کوئی
جو بھی دیکھا گیا وہی منظر ہے نا دیدہ
پرانی بات مت چھیڑو خلشؔ ہم سے خدارا تم
پرانے ہوچکے سارے نشانِ زخمِ بوسیدہ
خلشؔ
لارم اسلام آباد، اننت ناگ کشمیر
[email protected]
عصر حاضر کے فسادات سے لڑنا سیکھا
نارِ نمرود کے شعلوں میں بھی جلنا سیکھا
اب کوئی خوف و خطر وقت کے فرعوں کا نہیں
نقش قدموں پہ براہیم کے چلنا سیکھا
قوتِ بازوئے ایماں سے حوادث کا بہاؤ
فضلِ باری سے جوانوں نے بدلنا سیکھا
کون دیتا ہے عبث میں سر و دھڑ کی بازی
ہم نے ناموسِ رسالت پہ جو مرنا سیکھا
اب یہ کیا دیں گےجہاں کو جنگ عظیموں کے سوا
دنیا داروں نے فقط دار پہ مرنا سیکھا
چھپ کے یلغار وہ جس جا ء سے کیا کرتے ہیں
ہم نے رہزن کو اسی بِل میں کچلنا سیکھا
کل تلک جس ذات سے میں رہا بے پرواہ
اُس کے در پہ آج اشکوں کوبہانا سیکھا
حفیظہ اللہ وانی
واڑون، کشتواڑ
[email protected]
یہ رات نہیں کوئی قیامت سی ہے
پلکوں پہ مری گردِ وحشت سی ہے
پروانے بھی کہیں چُھپ گئے سارے
چراغوں کو جلنے سے دہشت سی ہے
دن بھی نہیں نکلتا شہر میں مرے
چاند کو بھی کچھ شکایت سی ہے
اے زور زور سے چیخنے والے فقیر
تری باتوں میں بھی صداقت سی ہے
پر کون سمجھے یہاں ترے درد کو
ہر طرف تو سرشاری کی حالت سی ہے
نہیں اُداس ترے ترکِ وفا پہ میں
فریب کھانے کی مجھے عادت سی ہے
کیوں کر وصل کی حسرت رکھوں میں
اِدھر فرقت میں لذتِ قربت سی ہے
آئے تھے کس امید سے ترے پاس
تمہں تو دل دُکھانے کی عادت سی ہے
ترے درد کے چراغ مدہم پڑ گئے
آتشِ درد میں کچھ راحت سی ہے
بجھا دے اب شمع اُمید شہریارؔ
آنکھوں کو روشنی سے عداوت سی ہے
توصیف شہریار
سریگفوارہ اننت ناگ
[email protected]