غزل
چوٹ اپنوںسے دل پہ کھائی ہے
میرے مولا تری دہائی ہے
زندگی بھر کے جو یہ ہیں احسان
آخرش اُن سے مار کھائی ہے
دل جو دنیا سے بھر گیا میرا
دلبر باکی یہ دلر بائی ہے
حاصلِ شوق کچھ نہیں پایا
جان تک دائو پر لگائی ہے
کیا کروں کچھ سمجھ نہیںپاتا
آگے خندق تو پیچھے کھائی ہے
خانہ ویران خاک ہے یہ عشق
شمعِ دل برق سے جلائی ہے
بے کلی بے سبب نہیں ہوتی
ہے کوئی جس سے لو لگائی ہے
آگئے ہیں وہ پوچھنے کو مزاج
کچھ تو غیرت بھی کام آئی ہے
بیٹھنے کو کہوں تو کیسے کہوں
نہ چٹائی نہ چار پائی ہے
سلطان الحق شہیدی
رابطہ:- ست بونی ، لعل بازار ،سری نگر
موبائل نمبر : 9596307605
نظر سے گرگئی حیا یہ حسنِ اتفاق ہے
سروں سے اٹھ گئی رِدا یہ حسنِ اتفاق ہے
قدم قدم پہ دوستی تھی اس کی آفتاب سے
مگر وہ سائباں ہوا یہ حسن اتفاق ہے
دیا تھا جس نے پارسائی کا سبق نگر نگر
اسی سے ہوگئی خطا یہ حُسنِ اتفاق ہے
چمن چمن وہاں صبا تھرک رہی ہے ہر طرف
یہاں بدل گئی ہوا یہ حُسنِ اتفاق ہے
یہی وفا تھی کل تلک محبتوں کی چاندنی
اسی کو کہنا اب خطا یہ حسنِ اتفاق ہے
قدم قدم پہ جس نے کی وفا صنم صنم سے سن
اسی کا ہوگیا خدا یہ حسنِ اتفاق ہے
نصیب سے ملا تھا اس کو جتنی تھی طلب اُسے
اسی کا مانگنا دعا یہ حسنِ اتفاق ہے
اشرف عادل
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل
سرینگر کشمیر ,فون۔۔9906540315
خدایا پھر میری تقدیر لکھنا
ادھورے خواب ہیں، تعبیر لکھنا
بہت مشکل ہے آیت زندگی کی
سمجھنے کے لئے تفسیر لکھنا
رقم پہلے کرو اپنی خطائیں
کسی کی پھر کوئی تقصیر لکھنا
قفس نے کردیا بے حال یارب
مقدر میں نہ پھر زنجیر لکھنا
نہ ہو مجھ سے کبھی تخریب کاری
میری ہر بات ہو تعمیر لکھنا
جسے ظلمات میں چھوڑا تھا ہم نے
ابھی کیسا ہے وہ کشمیر لکھنا
یہاں طوفان جو آیا ہوا ہے
وہا ں اِس کی ہے کیا تشہیر لکھنا
نہ ہم سے ٹوٹتا ہے یہ تعطل
اگر ہوگی کہیں تدبیر لکھنا
بہا جو آنکھ سے اشکِ ندامت
وہی آنسو میری جاگیر لکھنا
اگر جنت ہے یہ اس سر زمیں پر
یہاں ہیں کیوں سبھی دلگیر لکھنا
اُسے کہنا اگر راحتؔ ملے وہ
جلائی کیوں میری تصویر لکھنا
رئوف راحتؔ
رابطہ؛9419626800
بیانِ حال مفصّل نہیں ہوا اب تک
جو مسئلہ تھا وہی حل نہیں ہوا اب تک
نہیں رہا کبھی میں تیری دسترس سے دور
مِری نظر سے تُو اوجھل نہیں ہوا اب تک
بچھڑ کے تجھ سے یہ لگتا تھا ٹوٹ جاؤں گا
خدا کا شکر ہے پاگل نہیں ہوا اب تک
جلائے رکھا ہے میں نے بھی اک چراغِ امید
تمہارا در بھی مقفّل نہیں ہوا اب تک
مجھے تراش رہا ہے یہ کون برسوں سے
مِرا وجود مکمل نہیںہوا اب تک
دراز دستِ تمنّا نہیں کیا میں نے
کرم تمہارا مسلسل نہیں ہوااب تک
نزاکت منہاس
متعلم بی ـ اے سوم،راجوری،9622022380
یہ کس نے لہو کرکے رکھی خوب رو تصویر
ہے خوف کا اک آئینہ یہ جنت ِکشمیر
کیا حُسن کی تمشیل تھا، وہ خواب تمہارا
کس روپ بھیانک نکل آئی ہے اب تعبیر
کیا سج رہے ہیں عرش کے دامن پہ ستارے
ظاہر میں ٹمٹماتے، بہاتے ہیں مگر نیر
ڈوبے ہوئے ہیں غم کے سمندر میں یہاں لوگ
نے زندگی کسی کی ہے محفوظ نہ جاگیر
یہ قہر کا موسم ہے، بدل جائے گا اک دن
گلیوں میں پا برہنہ پکارے ہے اک فقیر
سکینہ اختر
رابطہ؛کرشہامہ کنزر،9622897729
داغ ِجگر
اُمّتِ مسلمہ کا موجود حال اور اس حال پر اظہارِ درد۔ اصل میں اس امت کا سب سے بڑا المیہ آپسی جنگ و جدل،بد عملی اور نا اتفاقی ہے۔
کیوں ترقی میں ہے تیری جیت میری ہار ہے
اس پہ بھی مسلم سے مسلم آجکل بیزار ہے
اب مسلماں سے تو نالاں اُسکا رشتہ دارہے
ایک ہمسائے پہ پڑتی دوسرے کی مار ہے
باہمی جنگ وسیہ کاری کی ہم پر مار ہے
سر پہ ملت کے فضیلت کی یہ اب دستار ہے
جب تجھے مدِ نظر بھی خوبیٔ کردار ہے
پھر بھی اے دل کیوں تجھے اعمالِ بد سے پیار ہے
جو نصیحت نامہ ان نظموں میں تو نے لکھ دیا
اب عمل کا اس پہ زیادہ تو ہی ذمہ دار ہے
آہ اے دل کیوں تو عمل ِصالحہ کو چھوڑ کر
عملِ بد میں مبتلا مستِ مئے پندار ہے
کس طرح لیجائوں اُس بھائی پہ سبقت کیا کروں
اب تو ہر اک فردِ ملت کو یہی آزار ہے
اقتداروں کی ہوس میں باہمی رسہ کشی
اس پہ مسلم سے ہی مسلم بَرسرِ پیکار ہے
صدر ہوں کابل کا میں باقی کسی کا حق نہیں
اس پہ افغانوں میں باہم جنگ ہے یلغار ہے
بشیر احمد بشیرؔ (ابن نشاطؔ) کشتواڑی
جموںو کشمیر9018487470
غزلیات
اپنے آپ سے ڈر جانا
اور چپ چاپ گزر جانا
تھوڑی دور تو ساتھ چلو
اگلے گھاٹ اُتر جانا
سایا کتنا اچھا ہے
اک دن دھوپ نگر جانا
بعد میں کون سناتا ہے
اپنی باتیں کر جانا
خالی خالی کمرے ہیں
میں نے ان کو گھر جانا
شایٔد کوئی آ جائے
تھوڑی دیر ٹھہر جانا
کتنا اچھا لگتا ہے
ڈوبنا اور ابھر جانا
شاخیں ، پتے کچھ بھی نہیں
جس کو ایک شجر جانا
چلتے چلتے آ پہنچے
دنیا ایک سفر جانا
جھانک گئی میرے اندر
جس کو ایک نظر جانا
اس میں سوچنا کیا بلراجؔ
تم بھی اک دن مر جانا
بلراجؔ بخشی
عید گاہ روڈ ،اُدہم پور09419339303
کیاجانے کیسے جال بچھاجاتی ہیں نظریں
جب جب بھی میرے پاس کبھی آتی ہیں نظریں
ہوجاتی ہیں نشتر کی طرح جذب وہ اس میں
کیاکیا نہ ستِم دِل پہ میرے ڈھاتی ہیں نظریں
میں کہنا بھی چاہوں تو کبھی کہہ نہیں سکتا
اب کیسے کہوں کِتنا رُلا جاتی ہیں نظریں
یہ جان وجگرکرتاہوں میں اُن پہ نچھاور
انکارنہیں مجھ کو، کبھی بھاتی ہیں نظریں
ہم زندگی میں شام وسحرساتھ رہے ہیں
افسانے کئی یاددِلا جاتی ہیں نظریں
پھرنیند نہیں آتی کسِی طور بھی مُجھ کو
راتوں کومجھے ایسے جگاجاتی ہیں نظریں
میں پھربھی ہتاشؔ اِس کی شکایت نہیں کرتا
میرے لیے بے چینیاں بھی لاتی ہیںنظریں
پیارے ہتاشؔ
رابطہ نمبر؛:8493853607
حق کی خاطر خدا کی خوشی کے لئے
جینا مرنا ہمارا اُسیکے لئے
دل کسی کے لئے سر کسی کے لئے
بد نما داغ ہے زندگی کے لئے
دل تو مائل نہیں وابستگی کے لئے
ہاتھ بڑھتے نہیںدوستی کے لئے
مر کے بھی لوگ رہتے ہیں زندہ مگر
یہ سعادت نہیں ہر کسی کے لئے
میرا قاتل مرا اپنا کردار ہے
کس کو الزام دوں خُودکشی کے لئے
گمرہی کے لئے کم ہزاروں برس
ایک پل ہے بہت آگہی کے لئے
یہ اندھیرے نہ ہوں گے چراغوں سے کم
دل جلائو، یہاں روشنی کے لئے
مے کشو! آئو واہے درِمے کدہ
شرط کوئی نہیں مے کشی کے لئے
شعر کہنا وحیدؔ اپنے بس کا نہیں
صرف لفظوں کی بازی گری کے لئے
وحید مسافر ؔ
باغات کنی پورہ،9419064259