شعور مر گیا جذبوں میں تازگی نہ رہی
حیات لٹ گئی جب فکر و آگہی نہ رہی
ہمارے دل میں جو حرص و ہوس کبھی نہ رہی
ہمارے گھر میں کبھی بھی کوئی کمی نہ رہی
تمہاری یاد میں بے نور ہوگئیں آنکھیں
تمھارے بعد مرے دل میں روشنی نہ رہی
تعلقات تو قائم ہیں آج بھی لیکن
اب اس کے ساتھ وہ پہلی سی دوستی نہ رہی
ہم اب کی بار جو باہم ملے خلوص کے ساتھ
دلوں میں بغض کی کائی کوئی جمی نہ رہی
نکل کے جب سے گیا ہے وہ پتلیوں سے مری
شعورِ زیست گیا وجہ شاعری نہ رہی
میں اس کی دید سے سیراب ہوگیا اتنا
کہ اس کے بعد نگاہوں میں تشنگی نہ رہی
وصالِ یار کی خواہش تو اس طرح جاگی
فراقِ یار کی سانسوں میں زندگی نہ رہی
تڑپتے رہ گئے تا عمر اک جھلک کے لیے
ہمیشہ دل میں بسی چاہتِ مدینہ رہی
میں نور بن کے زمانے میں یوں ہوا روشن
کسی بھی شہر میں اے شمسؔ تیرگی نہ رہی
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی، اردو ، اسلامک اسٹڈیز،
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
9086180380
زِخمِ غم بھول گئے، داغِ اَلم بھول گئے
تجھ کو ہم پاکے زمانے کے ستم بھول گئے
دامِ خوش رنگ میں پھر آگئے مرغانِ چمن
حیف! پھر فطرتِ اربابِ کرم بھول گئے
ہم کو پیمانِ وفا یاد دلانے والے
اپنا پیمانِ وفا اپنی قسم بھول گئے
کہہ گئے اُن سے نہ کہنے کی تو باتیں کیا کیا
اِک وہی بات جو کہنے کی تھی ہم بھول گئے
رکھنے والوں نے بھرم عصمتِ غم کا رکھا
بھولنے والے ترے لُطف و کرم بھول گئے
گھر سے بے گھر بیگانۂ منزل ٹھہرے
وہ مسافر جو ترے نقشِ قدم بھول گئے
ہیں تو وہ آج بھی تیرے ہی پرستار مگر
تیری باتیں تری خوشیاں ترے غم بھول گئے
معتبر جتنے حوالے تھے کہانی کے وحیدؔ
لکھنے بیٹھے تو وہی اہلِ قلم بھول گئے
قریشی عبدالوحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ، موبائل نمبر؛9419064259
کِس قدردیرکی ہے آنے میں
کیامِلاہے مُجھے رُلانے میں
تُم وفائوں کی بات کرتے ہو
اب وفائیں کہاں زمانے میں
ہرزباں پرہے اُن کاافسانہ
کیامیراذِکر ہے فسانے میں؟
اُن کوفُرصت نہیں کہ بات کریں
وہ ہیں مصُروف دِل جلانے میں
مُسکرانا نہیں مُقّدر میں
ہم ہیں مصُروف غم اُٹھانے میں
دِل پہ جب کوئی چوٹ لگتی ہے
عمرلگتی ہے بھُول جانے میں
میر ی دُنیاچھُپی ہوئی ہے ہتاشؔ
زیرِلب اُس کے مسُکرانے میں
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
چْھپا یا جو دل میں تھا آتش فشاں تھا
مگر وہ تو آنکھوں سے بالکل عیاں تھا
یہ کیسی عنایت ، یہ کیسا کرم تھا
وہ کس بات پہ آج بھی مہرباں تھا
قدم چوم لے گی خود ہی میری منزل
مجھے آج تک تو یہی اک گماں تھا
مِرے قافلے میں نہ تھا کوئی رہبر
نہ رستے میں منزل کا کوئی نشاں تھا
نہ مال و متاع اور نہ زادِ سفر کچھ
نہ جانے کہاں لُٹ گیا کارواں تھا
نظر خود پہ جونہی پڑی راستے میں
نہ آگے نہ پیچھے نہ میں درمیاں تھا
مِرے دل کی یہ داستاں کون جانے
مِرا حوصلہ بھی تو کل تک جواں تھا
گْلوں کا یہ میرا چمن جس نے مَسلا
وہ قاتل تو گلشن کا ہی باغباں تھا
سدا میری حق بات ٹالی گئی ہے
یہ لوگوں پہ جیسے کہ بارِ گراں تھا
مِری آرزو اور تمنّا کا مرکز
مکاں دَر مکاں پھر بھی اک لامکاں تھا
کبھی اُٹھ کے گِرنا، کبھی گِر کے اُٹھنا
مِرے ہر قدم پہ نیا امتحاں تھا
مِرا اشتیاقؔ کون سنتا فسانہ
میں خود بھی تو اک قصّۂ رفتگاں تھا
اشتیاق?ؔکاشمیری
رابطہ۔آرونی اسلام آباد،موبائل نمبر؛ 9906633828
میرے سخن کا جادو ہر گام چل رہا ہے
ہر ایک انجمن میں مرا نام چل رہا ہے
کیا اُس کی زندگی میں نہیں ہم سفر ہے کوئی
کیوں وہ قدم قدم پر ناکام چل رہاہے
رقصاںہیں جب سے تیری یہ پُرفسوں سی آنکھیں
ہر دورمے کشی کا ترے نام چل رہاہے
اب دیکھنا ہے کب تک یہ سلسلہ ہو جاری
جو دورِ جام وبادہ سرِ شام چل رہا ہے
جاری ہے مدّتوں سے رقصِ حیات ایسے
آغاز چل رہاہے انجام چل رہا ہے
روبینہؔ سوچتی ہوں میں اپنے دل میں اکثر
یہ چاند کیوں اکیلا سرِ شام چل رہاہے
روبینہ ؔمیر
ڈی سی کالونی راجوری،رابطہ:9469177786
سوالوں کو اپنے تو حل کر کے دیکھ
سفر زندگی کا سپھل کر کے دیکھ
بہت مختصر زندگی ہے یہ تیری
ہر اک سال اپنا تو پل کر کے دیکھ
یہ جیون سراسر خیالی سفر ہے
زمیں پر ذرا تو سنبھل کر کے دیکھ
ملے گی تجھے آپ ہی شادمانی
مسائیل کو اپنے تو حل کر کے دیکھ
بدل جائے گی خودبخود تری صورت
منیؔ اس کے سانچے میں ڈھل کر کے دیکھ
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
موبائل نمبر؛9596888463
اس پر زمیںو آسماں تنگ ہو
جو شخص چاہتا ہے جنگ ہو
ہم نے دی اب بہت جانیں
سرخ کیوں بادلوںکارنگ ہو
جسم کیوںنہ درد سے چیخے
جدا جدا جب اس کا انگ ہو
کون چاہتاہے اے امن والے
معصوم کے ہاتھ میں سنگ ہو
کون دئے گااب آس ان کو
زندگی جن کی کٹی پتنگ ہو
صدیوں رہا ہوں پنجرے میں
زنجیر پہ کیوں نہ زنگ ہو
وہ مسئلہ کیوں نہ خونی ہو
جس مسئلہ کا بانیؔ فرنگ ہو
بانیؔعمر
کشمیر یونیورسٹی