غزلیات

 چہرے سے نگاہوں کو ہٹانے نہیں دیتا
جادو ہے کہ جو ہوش میں آنے نہیں دیتا
اس طرح بھی دیتا ہے سزامجھ کو ستم گر
ناراض اگر ہو تو منانے نہیں دیتا
سایہ بھی ہٹا دیتا ہے دیوار گرا کر
اور دھوپ میں بستر بھی بچھانے نہیں دیتا
وہ نیند بھی دیتا ہے تو قسطوں میں ہمیشہ
اور خواب اگر دے تو سہانے نہیں دیتا
آتا ہی نہیں ہے وہ کہیں سے بھی مرے پاس
اور مجھ کو کسی سمت بھی جانے نہیں دیتا
باہر ہو اگر آگ تڑپتا ہے بہت دل
اندر جو لگی ہو تو بجھانے نہیں دیتا
مجھ کو تو سناتا ہی نہیں کوئی کسی کی
اپنی بھی مجھے کوئی سنانے نہیں دیتا
بلراجؔ گھڑی بھر کے لیے عمر گنوا دی
لمحوں کے عوض کوئی زمانے نہیں دیتا
 
بلراج ؔبخشی 
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، 
اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
 موبائل نمبر؛09419339303
 
 
زیست کا راستہ ایسا بھی نِکالا جائے
ٹوٹتے چھوٹتے رشتوں کو سنبھالا جائے
دل کو دی جائے کوئی پنجرے کی صورت پہلے
اور پھر درد کا پنچھی کوئی پالا جائے
چھیڑ کر بات کبھی درد کے رشتے کی کوئی
ایک دریا مِری آنکھوں سے نکالا جائے
اپنی اولاد کو نازوں سے بھلے ہی پالو
اُس کے کاندھوں پہ کوئی بوجھ بھی ڈالا جائے
ہاتھ میں کل، نہ گُزرا نہ ہی آنے والا
یہی بہتر ہے اگر آج سنبھالا جائے
ایک دِن ہونگے مراسم بھی بہت روشن
دل سے نفرت کا اندھیرا تو نِکالا جائے
آرسیؔ کارِ جہاں ختم تو ہوگا نہ کبھی
اپنی خاطر بھی کبھی وقت نِکالا جائے
 
دیپک آرسیؔ
203/A، جانی پور کالونی،جموں-180007
رابطہ :9858667006
 
فروزاں کردیا آہِ شرر سے ہے جہاں میں نے
 
دوبالا کردیا رنگِ بہارِ گُلستاں میں نے 
مجھے تیری نگاہِ ناز نے طرزِ ادا بخشی
 
بیان اشکِ رواں سے کی ہے اپنی داستاں میں نے
غزل کو کلمہ پڑھوایا، بشاشت مِل گئی مجھکو 
 
بنایا گوشۂ دِل میں تمہارا آستاں میں نے
ابھی تک اپنے گلشن میں کسی شاخِ شکستہ پر
 
بنایا خاروخس کا بھی نہیں ہے آشیاں میں نے
تمہارے حُسن کا مشتاقؔ ہے مرہون کُل عالم
 
جبیں پر نقش اپنی کردیا تیرا نشاں میں نے
 
مشتاق ؔکاشمیری
سرینگر،موبائل نمبر؛9419011900
 
خفا مجھ سے اگر تو ہے خفا ہوں میں زمانے سے
میں جل کر راکھ ہوجائوں نہ روکو دل لگانے سے
وہ آنکھیں چار کرنے سے بھی گھبرانے لگا ہے اب
کہ جس کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا اک زمانے سے
عجب اک اضطرابی کیفیت طاری رہی مجھ پر
یہ دل ہلکا ہوا ہے تم کو حالِ دل سنانے سے
ستم پیشہ ستاتا ہی رہے گا عمر بھر مجھ کو 
کہاں وہ باز آئے گا مرے دل کو جلانے سے 
حقیقت عشق کی پوچھو نہ مجھ سے اے مرے ہمدم
کہیں ایسا نہ ہو تم روٹھ جائو مسکرانے سے
مرے طالبؔ وفائوں کی یہاں تم بات مت کرنا
یہاں کچھ بھی نہیں ملتا ہے اپنا سر جھکانے سے
 
اعجاز طالبؔ
جعفر بیگ حول، سرینگرموبائل نمبر؛9906688498
 
 
 
کِیا کرتا  وہ آنکھوں  سے شرارت ہے 
اُسے تو دِل چُرانے میں مہارت ہے
 
چُرا لیتا ہے جس پر بھی نظر ڈالے 
وہ کرتا بس مُحبت کی تجارت ہے 
 
غموں نے اُس کو ہے گھیرا بہت لیکن
ابھی تک بھی بڑی اُس میں جسارت ہے 
 
نہیں ملتا کوئی سایہ یہاں پر اب 
بہت ہی بڑھ گیا درجۂ حرارت ہے
 
بِنا بولے ہی سب کُچھ لُوٹ لیتا ہے 
منیؔ محفل کی کرتا جب صدارت ہے
 
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
موبائل نمبر؛9596888463
 
 
جتنی برسی ہے ترے غم کی گھٹا، کچھ بھی نہیں 
اب تو لگتا ہے کہ سینے میں جلا کچھ بھی نہیں
 
عشق نے تیرے مرا خاتمہ کر ڈالا 
ہو گیا راکھ مرا جسم بچا کچھ بھی نہیں 
 
کر کے تجھ سے یہ محبت ہوا معلوم ہے سب
بے وفائی ہے بہت تجھ میں، وفا کچھ بھی نہیں
 
زندگی عشق کے سینے میں گزاری لیکن 
اس میں نفرت کے سوا مجھ کو ملا کچھ بھی نہیں 
 
زخم تو تیری محبت کے مجھے روز ملے
پھر بھی اس کربِ جدائی میں ہوا کچھ بھی نہیں 
 
اک مری جان تھی وہ بھی ہے لٹا دی بسملؔ
یار کہتے ہیں مگر تو نے کیا کچھ بھی نہیں
 
سید بسمل مرتضٰی 
شانگس اننت ناگ کشمیر 
طالب علم :ڈگری کالج اترسو شانگس
موبائل نمبر؛9596411285
 
 
کس نے شعلے بھر دئے ہیں اس حسیں تصویر میں
خون کی ندیاں رواں ہیں جنتِ کشمیر میں
جس اثر سے تھی نسیمِ سحر میں بھی چاشنی
ہے کہاں اب وہ اثر ہر شام کی تاثیر میں
گُل کئے ہیں روشنی کے دشمنوں نے سب دئے
ضوفشانی ہو گئی اوجھل یہاں تنویر میں
تلملاتے ہیں قفس میں بلبلِ نو خیز بھی
اے خدا یہ ہو رہا ہے کیا تیری جاگیر میں
رہنمائے وقت ہی آخر کورہزن بن گیا
اور کیسے پھول جھڑتے ہیں تیری تقریر میں 
زرد پھولوں کی چبھن ہے درد کی دہلیز پر
رنگ کیا کیا بھر دئے اس نے میری تصویر میں
اے عقیلؔ امن و اماں، قانون اوجھل ہو گیا
کیا یہی تھا وادیٔ گل پوش کی تقدیر میں
 
عقیلؔ فاروق
طالبِ علم:- شعبہ اْردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر
موبائیل نمبر:-8491994633