اسے بھی آزمانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مجھے بھی دھوکہ کھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
ہواؤں کو منانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
چراغوں کو بُجھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
سنو آنسو بہانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
شراروں کو بجھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
بدل جاتے ہیں یہ موسم بکھر جاتے ہیں یہ گلشن
صبا کو سر اٹھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مٹائے گا مگر کیسے محبت آدمی دل سے
پرانے خط جلانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
اشاروں پر نچاتی ہے سیاست آندھیوں کو بھی
ہواؤں کو سِکھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
بڑی مشکل سے جُڑ جاتا ہے من کا آئینہ عادل ؔ
کسی کا من دُکھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9906540315
وہ سب کو دھوپ دھوپ سناتا ہوا ملے
کوئی درخت چھاؤں لٹاتا ہوا ملے
جیسے مری شکست میںاس کا بھی ہاتھ ہے
جب بھی ملے وہ آنکھ چُراتا ہوا ملے
لازم ہیں دوستی کے دو قدم ہمیں پہ کیوں
کوئی اُدھر سے اک قدم آتا ہوا ملے
کب سے ہوں پُر فریب حقیقت کا منتظر
کوئی تو سبز باغ دکھاتا ہوا ملے
اس کو کسی کا خوف نہیں ہے تو کم سے کم
اپنی نظر سے چُھپتا چھپاتا ہوا ملے
رونے رلانے والے ہی ملتے رہے ہمیں
بلراجؔ کوئی ہنستا ہنساتا ہوا ملے
بلراج ؔبخشی
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی
اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
موبائل نمبر؛09419339303
ای میل؛ [email protected]
آنکھوں میں نئے خواب پِرونے نہیں دیتا
یہ دل تو کوئی کام بھی ہونے نہیں دیتا
غم ایسا دیا اس نے کہ رونے کو جی چاہے
اور اس پہ ستم یہ ہے کہ رونے نہیں دیتا
اوروں کا میں ہو جاؤں گوارا نہیں اُس کو
سچ تو یہ ہے اپنا بھی وہ ہونے نہیں دیتا
الفت نہیں ہے اس کو میرے ساتھ یقیناً
نفرت کا بیج بھی مگر بونے نہیں دیتا
اک خوف سا طاری ہے میرے شہر میں یارو
یہ خوف مجھے رات کو سونے نہیں دیتا
دنیا سے مجھے چھین لیا ، ٹھیک ہے، لیکن
خود سے بھی وہ واقف مجھے ہونے نہیں دیتا
ملتا ہی نہیں ہے مجھے وہ شخص کیا کروں
کھونا بھی میں چاہوں تو وہ کھونے نہیں دیتا
سایا ہے اے عقیل میرے سر پہ خدا کا
مایوس کبھی وہ مجھے ہونے نہیں دیتا
عقیل ؔفاروق
شوپیان، کشمیر،طالب علم:شعبہ اْردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر
موبائیل:-8491994633
پلکیں زمیں پہ اپنی بچھاتی ہے چاندنی
ایسے میں دل ہمارا لبھاتی ہے چاندنی
جب ساتھ چھوڑ دیتا ہے سورج تو اُس گھڑی
رستہ مسافروں کو دِکھاتی ہے چاندنی
وہ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں کے شہر میں
ہر سُو محبتوں کو سجاتی ہے چاندنی
انسان ہو یا کوئی درندہ زمین پر
سائے میں اپنے سب کو بٹھاتی ہے چاندنی
ہر راز سے کرایا مجھے اس نے آشنا
ہر ایک بات مجھ کو بتاتی ہے چاندنی
وہ بھی ہے مبتلائے محبت مِری طرح
ہر رات خود کو خود ہی جلاتی ہے چاندنی
ہمراہ بادلوں کے ہیں بسملؔ کے داغِ دل
پر روشنی میں ان کو چُھپاتی ہے چاندنی
سید مرتضیٰ بسملؔ
اننت ناگ کشمیر،طالب علم :شعبہ اردو ساؤتھ کیمپس
کشمیر یونیورسٹی، 9596411285
اُداس چہرا کِھلا ہوا ہے
جدا جو تھا کیا ملا ہوا ہے
نگہ تمہاری چمک رہی ہے
جو گھائو تھا، کیا سِلا ہوا ہے
وہ دور بیٹھا ہے روٹھا کوئی
لگے ہے دل کا جَلا ہوا ہے
فلک پہ تارے چمک رہے ہیں
زمیں پہ کس کا بُھلا ہوا ہے
یہ سارے رستے مہک رہے ہیں
وہ ہر گلی سے چَلا ہوا ہے
ہیں قافلے رنگ وبو کے چلتے
یہ کس کا گلشنؔ کِھلا ہوا ہے
گلشن رشید لون
رسیرچ سکالر بابا غلام شاہ بادشاہ ینورسٹی راجوری
9596434034/ 7006922871
تیرا وعدہ اگر وفا ہو جائے
کیوں نہ دل تجھ پہ ہی فدا ہو جائے
تیرا مطلوب پھر ملے گا تجھے
عشق میں تو اگر فنا ہو جائے
کیا سے کیا ہو گیا میں الفت میں
جیسے شہ سے گوئی گدا ہو جائے
آو اک دوسرے کا درد سہیں
کل خدا جانے ہم کو کیا ہو جائے
کون دیتا ہے ساتھ دنیا میں
ہے یہ ممکن وہ بے وفا ہو جائے
تیر پائینگی کشتیاں کیسے
بے خبر خود جو نا خدا ہو جائے
دل، جہاں کے فریب سے آزاد
ترے غم میں ہی مبتلا ہو جائے
آج طالبؔ چلو زیارت کو
جانے وہ بت بھی کب خدا ہو جائے
اعجاز طالبؔ
حول سرینگر، موبائل نمبر؛9906688398
بنا کے چاہ بھی رکھے مجھے مٹانے کی
قرار پائے کوئی حد بھی آزمانے کی
جسے بُھلانے کی تاکید شرط ٹھہری تھی
وہ ایک بات نہیں تھی کبھی بُھلانے کی
انہی سے آنکھ چُرانے کی جستجو اپنی
جنہیں نہ تاب کبھی تھی نظر ملانے کی
گماں نہ ہو کہ کسی خوف کی گرفت میں ہوں
مجھے شروع سے ہی عادت ہے مسکرانے کی
میں قطرہ قطرہ سمندر اُسے بناتا رہا
ہے جس کی سوچ مری تشنگی بڑھانے کی
عجب نہیں ہے کہ پتھر بھی رونے لگ جائیں
کہ داستان ہماری کہاں سُنانے کی
کسی دعا کی بدولت چراغ روشن ہیں
ہوا کی کوششیں پیہم رہیں بُجھانے کی
یہ مصلحت ہے کہ منظورؔ بے حسی اوڑھی
سزا ملی ہے پرندوں کو پھڑپھڑانے کی
ڈاکٹر احمد منظور
بارہمولہ ،موبائل نمبر؛9622677725