غزلیات

کرکے فریاد شب و رُوز ہیں ہارے آنسو 
کس کو فُرصت ہے کہ پلکوں سے اُتارے آنسو 
دشتِ تنہائی میں منزل جو دکھا دیتے ہیں 
اُن کے رُخسار پہ لگتے ہیں ستارے آنسو 
پیاس جسموں کی ہمارے نہ بُجھی کیوں اب تک
روز آیئنے سے پوچھیں یہ کنوارے آنسو 
ساری دھرتی کو جزیروں میں بدل ڈالیں گے 
مل کے بیٹھے جو کسی روز یہ سارے آنسو 
دل کو حالات کہیں اور نہ پتھر کردیں 
کاش لوٹادے کوئی ہم کو ہمارے آنسو 
ایک مُدت سے کنارے پہ نہیں وہ اُترا 
جس کی فُرقت میں بہاتے ہیں شکارے آنسو 
بے دلی سے بھی جو مانوسؔنے کھینچا دامن
کس کے گھر جائیں گے یہ درد کے مارے آنسو
 
پرویز مانوس ؔ
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر 
موبائل 9622937142 
 
غمِ فُرقت میں سوزِ زندگانی کم نہ ہو جائے
غموں کا اسقدر بڑھنا علاجِ غم نہ ہو جائے
بڑی مُشکل سے میں نے آب دی ہے تیغِ قاتل کو
سنبھل کر دیکھنا یہ آنکھ پھر سے نم نہ ہو جائے
زمانے کی تھکن لے کر یہاں تک آ تو پہنچا ہے
ترے در پر یہ دیوانہ کہیں بے دم نہ ہو جائے
ذہن میں گونجتی ہیں اب بھی چیخیں حُسن بانو کی
کہیں پھر سے کوئی بہرام زیرِ چھم نہ ہو جائے
اگر سجدہ ہی لازم ہے تو کعبہ اور کلیسا کیوں
جبیں چوکھٹ پہ تیری پھر بھلا کیوں خم نہ ہو جائے
جدائی کا یہ موسم اور میری  تشنگی  جاویدؔ
مری آنکھوں کا یہ دریا مُجھی میں ضم نہ ہو جائے
سردارجاویدخان 
پتہ؛ مہنڈر، پونچھ
رابطہ؛ 9419175198
 
 
تڑپ، چاہت، لگن،دُھن اور جذ بہ ہم بھی رکھتے ہیں
ستارے توڑ لانے کی تمنا ہم بھی رکھتے ہیں
ترے الطاف کی اُمید مولا ہم بھی رکھتے ہیں
کہ پیشانی پہ نورِ نقشِ سجدہ ہم بھی رکھتے ہیں
تمہاری نر گسی آنکھوں کو دیکھا تو ہوُا ظاہر
کہ دل ہی دل میں شغلِ جام ومینا ہم بھی رکھتے ہیں
ہوئے تم غاصبِ آب اور ہم ہیں پیاس کے عامر
بہ قدرِمشترک دریا سے رِشتہ ہم بھی رکھتے ہیں
فقط اپنے تبسم سے ذرا سا حوصلہ دیدو
تمہیں اک بار چھُونے کی تمنا ہم بھی رکھتے ہیں
غموں کی دھوپ اگر چہ ہے بہت ہی سخت و جاں لیوا
تو سر پہ سائباں ماں کی دعا کا ہم بھی رکھتے ہیں
فقط تم ہی نہیں گلشن کے تنہا وارث ومالک
چمن کے ایک اک پتے پہ دعویٰ ہم بھی رکھتے ہیں
ہمیں بھی اے خدا اک چاہنے والا عطا کر دے
کسی سے پیار کرنے کا ارادہ ہم بھی رکھتے ہیں
ذکی طارق
سعادت گنج، بارہ بنکی
رابطہ7007368108
 
بندوںپہ کرتا ہے وہ مہربانیاں بہت
مُشکل کے بعد دیتا ہے آسانیاں بہت
مانگو جو دِل سے کرتا دُعائیں قبول ہے
ہر ہر قدم پہ کرتا نگہبانیاں بہت
پھولوں میں رنگ بھرتا ہے وہ طرح طرح کے
ہر شئے میں دکھاتا ہے اپنی نِشانیاں بہت
بِچھڑوں کو ملاتا اور کرتا ہے دُکھ بھی دور
بن جاتی ہیں خوشیوں کی تب کہانیاں بہت
آمین نہ تقدیر کے لکھے پہ کریںگر
ہوتی ہیں اس طرح سے بھی حیرانیاں بہت
ہر دردِ لا دوا کی سحرؔ ہے وہی دوا 
جُھکتی اُسی کے آگے ہیں پیشانیاں بہت 
 
ثمینہ سحر مرزا
بڈھون راجوری
 
دلِ ناداں! محبت سےپرے ہیں
شرارت سے رقابت سے پرے ہیں
یہ کِس دُنیا میںپیارے آگئے ہیں؟
یہاںتوسب اَذیت سے پرے ہیں
ہوائیں کِس کی خاطرجُھومتی ہیں
میاں ہم تو حمایت سے پرے ہیں
کرےگا کون اب عزت ہماری 
تَحَیُّر کی عنایت سے پرے ہیں
یہاں چھائی ہوئی ہے یار وحشت 
مکاں سارے ہی راحت سے پرے ہیں
سید مرتضٰی بسمل
طالب علم :شعبہ اردو، ساؤتھ کیمپس کشمیر یونیورسٹی6005901367/9596411285
 
عشق سے گر گزر چکے ہوتے
کب کے ظالم تو ڈر چکے ہوتے
فیصلہ ہوگا قتل کر کے ہی
تم جو کہتے تو کر چکے ہوتے
چھین کر چین چہروں سے اب تک
زخم یہ کب کے بھر چکے ہوتے
کٹتی ہیں انتظار میں راتیں
ورنہ تو کب کے مر چکے ہوتے
ہے خدائی نہ لوگوں کے بس میں
یہ کہیں بھی مُکر چکے ہوتے
✍راتھر عمر
سرہامہ،سریگفوارہ،اننت ناگ
رابطہ: 9906535991/7006817548