غزلیات

ہر ایک  سنگ شیشۂ افکار سے نکال
اس بار خار خار کو گلزار سے نکال
مجروح ہوگئی ہے مری فکرِ نازنیں
منفی ہے سوچ! خنجرِ افکار سے نکال
خوشبو ہوئی حرام محبت کے نام پر
اُڑتا ہوا غبار بھی گلزار سے نکال
واقف ہیں ہم بھی لذّتِ گریہ سے اب بہت
احساسِ درد زخم کے دربار سے نکال
کب تک اُٹھے گی موجہ ٔ خوں لفظ لفظ سے
اب سرخیٔ لہو مرے اخبار سے نکال
مری زمینِ شوق ٹھٹھرتی رہے گی کیا؟
سورج تو اپنا سایۂ دیوار سے نکال
ضائع نہ کر یہ تلخیٔ جاں اِس طرح سُنو!
جیون سے اپنے زہر بھی مقدار سے نکال
تبدیل ہوگیا ہے جہانِ سراب بھی!
عادلؔ شکن شکن تو بھی دستار سے نکال
 
اشرف عادلؔؔ
کشمیر یونیورسٹی، موبائل نمبر؛7780806455
 
 
 
نتائج کچھ بھی ہوں لیکن یہ دل سنسان نکلے گا
میرے دل سے تری یادوں کا ایک طوفان نکلے گا
ابھی ہر حلقئہ زنجیر بولے گا مرے حق میں
مرا خونِ اکارت اب تہِ زندان نکلے گا
درودیوار پر میرے اُداسی ہی اُداسی ہے
اسے معلوم تھا میرا ہی گھر ویران نکلے گا
زمانے کے خدائو اس قدر نہ خود پہ اِترائو 
ابھی محشر بپا ہو گا ابھی میزان نکلے گا
تری تخلیق بر حق ہے مگر نوری نہ کہتے تھے 
جہاں میں سب سے فتنہ گر یہی انسان نکلے گا
مری سانسوں کا رُکنا بھی ہے کوئی معجزہ جاوید ؔ
یقیناً اب مرے دل سے کوئی ارمان نکلے گا
 
سردار جاوؔید خان 
 پتہ مہینڈھر پونچھ
 رابطہ 9419175198,9697440404
 
 
 
زندگی کا یہ باب کیا کہئے
یعنی پیری عذاب کیا کہئے
بخش دی حیات ہے لیکن
ہے یہ آخر حباب کیا کہئے
یوں تو گائوں میں رات دن نغمے
دل ہے لیکن کباب کیا کہئے
چھا گئی ہے بیوگی ہر سوٗ
بستی بستی سراب کیا کہئے
لے لو، لے لو اب دائمی رُخصت
اُن کا بانکا جواب کیا کہئے
دورِ رفتہ ہے یاد کر عشاقؔ
عہدِ ماضی، شباب کیا کہئے
 
عشاق کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اُردو(ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469
 
جب سے جی کو بھاگئی ہے دشت کی وحشت مجھے
ڈھونڈتی ہے پربتوں میں شہر کی عِشرت مجھے
ہنس کے سہہ لُوں مُشکلیں، دیتی ہے غیرت مشورہ
گریہ پر اُکسا رہی ہے درد کی شدت مجھے
جانتا ہوں میں اکیلا ہی اُترجائوں گا پار
بھیڑ میں چلنے کی لیکن پڑ گئی عادت مجھے
میں خدائی کا نہیں مُنکر، مگر تقدیر نے
بخش دی ہر شئے پرکھنے کی بُری عادت مجھے
ہر نفس ہر لمحہ اُلجھا خواہشوں کے دام میں
زندگی میںزندہ رہنے کی نہیںفرصت مجھے
تو چٹانوں سے اُلجھ پر وسعتوں میں پھیل جا
مل گئی ساگر میں طوفانوں سے یہ عبرت مجھے
مجھ کو دیوانہ سمجھ کر لوگ پیچھے پڑ گئے
شہر میں چرچا ہوا اور مل گئی شہرت مجھے!
 
یوسف نیرنگؔ
موبائل نمبر؛9419105051
 
نظریں تو بدل لیں ، کبھی لہجہ نہیں بدلا 
کافر نے بھلا کس لئے قبلہ نہیں بدلا 
 
مجھ کو بھی نہ پہچانتا اپنا کوئی شاید
اچھا ہوا اس نے مرا چہرہ نہیں بدلا
 
محروم سکوں سے رہا اس دل کا سفینہ 
بے چین ہوا نے کبھی رستہ نہیں بدلا
 
وہ لوٹ کے جب آئے تو رستہ نہ بدل دے 
اس ڈر سے میں نے شہر کا نقشہ نہیں بدلا 
 
احباب کے ٹکڑوں پہ میں پلتی رہوں کب تک
قسمت کا ابھی تک تو ارادہ نہیں بدلا 
 
غم یہ نہیں جو تجھ میں محبت نہیں جگی
دُکھ یہ ہے نے اپنا رویہ نہیں بدلا
 
بدلے ہیں گر اپنے سبھی انداز تو ضیاء
خود کو سزا دینے کا طریقہ نہیں بدلا
 
عذرا حکاک
طالبہ شعبہ اُردو،کشمیر یونیورسٹی، سرینگر
 
دور فلک پر چمکا تارا، ایک نظر ہے اُٹھائی میں نے
اپنے دل کی ساری باتیں کس کو جاکے سنائی میں نے
 
میں کچھ بھی نہ سمجھ پائی ہوں، آخر کون ہے جسکی خُومیں
چپہ چپہ گھوم کے آئی اور منزل بھی گنوائی میں نے
 
مل جائے جو دھرتی پر وہ، ساری بات سنائو اُسکو
جس کے غم میں پل پل جی کر اپنی جان لُٹائی میں نے
 
چاہت کے اظہار میں اُس سے جانے کیوں تاخیر ہوئی ہے
رسمِ وفا ایمان سمجھ کے بڑھ چڑھ کر ہے نبھائی میں نے
 
خلوتِ مل جائے تو پھر کیا، باتیں کرلونگی جی بھر کے
پھولوں سی تصویر ہے اُسکی اپنے دل میں چھپائی میں
 
مانا رستہ مشکل تر ہے، دشواری کا عالم ہرسُو
منزل پانے کی خواہش میں شمع ایک جلائی میں
 
آئینہ کیا دیکھا میں نے، خود کو دیکھ کے آنسو پھوٹے
خستہ حالت اپنے حال کی دیکھو کیسے بنائی میں نے
 
جو کچھ بھی تعمیر کیا تھا سب بکھرا ہے تنکا تنکا 
قیمت آخر دیکھو زہراؔ، کیسے ہے یہ چکائی میں نے
 
جواہرہ بانو زہراؔ
لال بازار، سرینگر