یونانی ،رومی اور عراقی تہذیبوں کی طرح مصری تہذیب بھی نہ صرف بہت قدیم بلکہ منفرد بھی ہے ۔لاشوں کو ممی (Mumy) بنانا یا حنوط کرنااُ ن کو ہزاروں برسوں تک کے لئے باقی رکھنا ایک ایسا عجیب وغریب اور حیران کن عمل ہے جس کے لئے موجودہ سائنس بھی انگشت بدنداں ہے ۔ ریگستانوں میں جہاں دُور دُور تک پتھروں کا نام ونشان نہیں ہے ،وہاں اہرام (Pyramids) بنوانا او راُن کے لئے ہزاروں من وزنی پتھروں کے سلیب ترشوانا ، ڈھونا ، بہت اونچائی تک لے جاکر اُن کو مربوط کرنا، یہ سب صرف کہنے کی بات ہے ،عقلِ انسانی چکر کھا کے رہ جاتی ہے ۔اور وہ بھی اُس زمانے میں جب ویل ایجاد ہوا تھا مگر انسان نے دیگر اوزار وہتھیار ، کرین اور مشین وغیرہ ابھی بنائی نہیں تھی ۔اُسی جادوئی نگری یا ونڈر لینڈ سے متعلق چند سطور آپ کی بصارت نوازی کے لئے پیش خدمت ہیں ۔
طوطن خامن مصر کا ایک کمسن بادشاہ (فرعون) تھا جو گیارہ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا اور اُنیس سال کی عمر میں فوت ہوا۔ صرف آٹھ سال حکومت کرنے والا یہ فرعون فراعنہ مصر کے اُس خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس نے تین ہزار ایک سوسال اور دوہزار آٹھ سوسال قبل مسیح کے دوران مصر پر حکومت کی ۔ماہرین کی رائے ہے کہ بوائے کنگ (Boy King) طبعی موت نہیں مرابلکہ اُسے زہردے کر مار ڈالا گیا تھا۔
بادشاہوں کی وادی (Valley of Kings) جوقاہرہؔ سے چھ سو کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ، میں جب سابقہ فراعنہ مصر کے جن میں سولہویں ، سترھویں اور اٹھارویں خاندان کے مشہور فراعنہ کے علاوہ میری نپٹاہ ، آمن میسی ، رامیس اول ، دوم ، سوم ، نہم ،یادزدہم ،ملکہ طیئی، سیتی اول، دوم ، ہرم ہائی ،آمن ہوٹپ وغیرہ وغیرہ کی ریت میں گمشدہ مقابردریافت کئے گئے جو چوروں کے دست بُرد سے بچے رہ گئے تھے اور تھیوڈورڈیوس ایک ماہر آثار قدیمہ اور ماہر مصریات نے اعلان کردیا کہ ’’وادیٔ شاہان‘‘ کی سرزمین میں اب اور کوئی مقبرہ باقی نہیں بچامگر ہاورڈ کارٹر نامی ایک حافر (Excavator) کو اس بات کا پورا یقین تھاکہ اب بھی ’’مقدسوں کے مقدس‘‘کامقبرہ زیرزمین ریت کے انباروں کے نیچے کہیں موجو دہے ۔
برطانیہ کے لارڈ کارنروَن کی مالی معاونت سے ہاورڈکارٹر نے مذکورہ مقبرہ کی کھوج کے لئے سن 1907ء میں کھائی شروع کی تھی لیکن دو تین چھوٹی چھوٹی چیزوں کے سوا اُس کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگا۔ چودہ سال یعنی سن 1921ء تک جدوجہد اور پانی کی طرح روپیہ بہانے کے بعد منصوبے کو ’’بے برگ وبار‘‘ اور ’’لاحاصل ‘‘ قرار دیا گیا۔اس کے فوراً بعد ہی جب لارڈ ؔ مکمل طور سے اس منصوبے سے بیزاراورکارٹرمایوس ہوگیا اور وہ اس منصوبے کو بند کرنا ہی چاہتے تھے کہ اچانک سن 1922ء میں ہاورڈکارٹر کو ایک دن وہ سیڑھیاں مل گئیں جو کمسن بادشاہ کے مقبرے کو جاتی تھیں ۔ اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ پندرہ سال کی جان توڑ اور اعصاب شکن محنت آخررنگ لائی ۔ اس نے مقبرے کو ڈھونڈ نکالا اور پھر مقررہ وقت پر اُس وقت کے فرعون شاہ فاروق ؔ نے بوائے کنگ کے تابوت کا ڈھکن خود اپنے ہاتھوں سے اُٹھایا۔کارٹر کو مزید دس سال (فروری 1932ء کے آخر تک ) مقبرے میں ملی اشیاء ، خزانہ اور حنوط شدہ لاشوں اور ان کے تابوتوں کو صاف کرنے اور ٹھکانے لگانے میں لگے ۔
اُس وقت تک جو اشیاء اہراموں سے حاصل ہوئیں تھیںوہ مذکورہ مقبرے سے ملنے والی اشیاء کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھیں ۔ دُنیا کو پہلی بار عظیم فنی شاہکار،مصوری کے نمونے ، سنگ جراحت کے زیورات، کراکری کے اعلیٰ ٹکڑے ، منقش ظروف ، نقش ونگار والے جار ، سونے کے سکے اور زیورات ، ہیرے جواہرات ، سجاوت کے طغرے اور طرح طرح کی اشیاء بمع فرنیچر دستیاب ہوئیں ۔ اُن چیزوں کی قیمت آج سے لگ بھگ پچاسی برس قبل کھربوں روپیہ لگائی گئی تھی ۔ تھامس ہوونگ (مصنف کتاب طوطن خامن اَن کہی کہانی) کے الفاظ میں :
’’کارٹرکون تھا ، اُس نے کون سا کام سرانجام دیا۔ ایک ایسا شخص جو لوگوں میں اپنے حوصلے کے سبب محترم ٹھہرا۔ جس نے اپنے آپ کو کار ِ عظیم کے لئے وقف کردیا۔ باحوصلہ ، منتظم اعلیٰ کارپرداز ،عالی حوصلگی سے متصف ۔ اُس نے وہ کام سرانجام دیا جو اس سے پہلے کوئی نہ کرسکا ۔ اور نہ اس کے کرنے کا تصور ہی کرسکا تھا ‘‘۔طوطن خامن کامقبرہ دریافت ہونے پر ساری دُنیا میں ایک تہلکہ مچا تھا اور بیسویں صدی میں پہلی بار ایک ساتھ اتنے فوٹوگرافر ، صحافی اور ماہر آثار قدیمہ ایک جگہ جمع ہوگئے تھے ۔اُس وقت اس دریافت کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ قراردیا گیا تھا۔ زرکثیر صرف کرنے والا لارڈ کارنرون اور کھوج کرنے والے عالی حوصلہ کارٹر ہاورڈ کو مقبرے سے برآمد ہوئی دولت کا اپنا حصہ اتنا ملا کہ اُن کی دس پیڑیوں کے لئے وہ کافی سے زیادہ تھا۔ مقبرے میں داخل ہونے پر کارٹر کے تاثرات کچھ اس طرح کے تھے:
’’ایک معدوم تہذیب کے پُرجلال اور باوقار مذہبی رسومات کے واضح نظارے۔ مختصر انسانی زندگی کی قیود سے آزاد اپنے پس منظر کی یاد دلا رہے تھے جسے وقت کی طنابیں مقید کرنے میں ناکام ثابت ہوچکیں تھیں ۔‘‘
آج فراعنہ مصر کی حنوط شدہ لاشیں دُنیا کی مختلف عجائب گھروں میں لوگوں کی دیداور عبرت کا سامان کررہی ہیں اور ریگزار مصر میں صرف ابوالہول ہی ٹکرٹکر خالی اہراموں کی جانب دیکھتا رہتاہے جو کبھی فراعنہ مصر کے پُرہیبت اور شان وشوکت والے مقابرتھے ۔ حسرت کا مقام ہے کہ اُن عظیم المرتبت شاہوں اور شان وشوکت والی سلطنتوں کے سربراہوں کو زمانے نے مدفن سے بھی بے دخل کردیا ۔ کاش موجودہ دور کے فرعون ان مناظر سے کچھ سبق لیتے ۔ اپنی نام نہاد اعلیٰ تہذیب و ثقافت پر فخر وغرور کرنے کی بجائے انسان کی مختصر زندگی کے لئے کچھ راحت کا سامان بہم کرتے ۔ آزادانہ فضائوں میں آزادی کے ساتھ انسان کو اپنے خدا کی بندگی کرنے دیتے ۔سوچتے سمجھتے کہ آخر انسان کیا ہے فقط ایک مٹی کاپتلا ہی تو ہے ۔ دُنیا میں محض چند دنوں کا مہمان ہی تو ہے ،پھر اس کی ہستی وہی دھول مٹی کے ہیولے یا مشتِ غبار بن کے رہ جاتی ہے ۔ موجودہ حاکم اور کرم فرمافرعون اور ہامان بننے کے بجائے انسان دوستی کاپرچار کرتے اور خود خدا بننے کی بجائے اُسی خدا ئے بزرگ و برتر کا قانون جاری وساری کرنے میں خداپرستوں کا ہاتھ بٹاتے ، خود جیتے اور کمزوروں کو بھی جینے کا حق دیتے ، معصوموں اورمغلوبوں کے خون سے ہولی نہیں کھیلتے ۔ اپنے کالے قوانین سے لوگوں کا جینا حرام نہیں کرتے ،تب فخر ومباہات رتھ یاترائوں اور اَہنسا پرمودھرما کے معنی واضح ہوسکتے تھے۔ تب ہزاروں سال پرانی تہذیب پر فخر کیا جاسکتا تھا ۔ تب ہی دیومالائی شیر اور بکری کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پلایا جاسکتا تھا ۔
کیافلسطینی او رشامی ،عراقی او رافغانی ، ہندوستانی اور پاکستانی ، کشمیری اورفلپائنی ، فرانسیسی اور انڈونیشیائی ، بوسنیائی اور سوڈانی مسلمان نہیں ہیں؟کیا اُن کو دُنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟کیا مسلمانوں کی نسل کشی کے جملہ حقوق یورپین ملکوں کے سربراہوں نے اپنے نام محفوظ کروالئے ہیں ؟ کیا یہود ونصاریٰ نے آئین خداوندی اور پیغمبراسلام صلعم کی اہانت کرکے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح ومضروب کرنے کے لئے شیطانی سپریم کورٹ سے ڈگری حاصل کرلی ہے ؟ آخر اس مسلم نسل کشی کا مطلب کیاہے ؟وجہ کیا ہے ؟ اغیار کو اس خدا پرست جماعت سے اتنی نفرت کیوں ہے …کیوں ہے ؟
………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691
جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995
(((((((()))))))))