عربی کے معروف صحافی، ادیب، عربی ادبیات پر موسوعاتی گرفت رکھنے والے مؤرخ، ژرف نگاہ نقاد اور کئی یورپی زبانوں کے ماہر اور دسیوں مقبول عام کتابوں کے مصنف ڈاکٹر عمر فروخ کی خودنوشت سوانح کا خوبصورت ترجمہ موصول ہوا اور بقول فیض ایسا محسوس ہواجیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔ماہ اپریل میں جب وبا کی شدت، دہشت اور زندگی کی تمام اعلانیہ سرگرمیوں کی تالا بندی کے حکومتی فیصلے نے گھر کے نہاں خانہ میں پناہ گزین بنا دیا تھا۔ ایسے میں عمر فروخ کی آپ بیتی، زندگی کے تپتے ہوئے صحراء میں باد نسیم کی طرح فرحت بخش بن کر آئی۔
عمر فروخ اپنی متوازن شخصیت مضبوط کردار اور فکری خود مختاری کی بنا پر میرے انتہائی پسندیدہ ادباء میں سے ہے۔ اس کی خودنوشت کو اردو کے حسین قالب میں ڈھالنے والے ڈاکٹر شمس کمال انجم کا ارسال کردہ تحفہ جوں ہی موصول ہوا میں اس کی سرسری ورق گردانی میں لگ گیا۔ ارادہ تھا کہ اس کتاب کو مطالعہ کی ترجیحی فہرست کے ضمن میں میز پر ہی رکھوں گا، مگر اس نے چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی کا مصداق بن کر مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہاں تک کہ چند نشستوں میں اس کا مطالعہ مکمل ہو گیا۔ اس کے صفحات اور مضامین سے دل بستگی کا یہ عالم ہوا کہ اس دوران ہر مصروفیت روک دی گئی۔
یہ آپ بیتی عام خود نوشت سوانح سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں کسی ذاتی فضل و کمال کی نمائش یا تشہیر کے بجائے مصنف کی ساری توجہ تجربہ و مشاہدہ سے حاصل شدہ نتائج کی تفہیم پر مرکوز ہے۔اس کے اسلوب نگارش میں اپنی ذات کا حوالہ محض واقعات کی کڑیوں کو جوڑنے اور ان کے منطقی ربط کو ثابت کرنے کے لئے بر سبیل تذکرہ آیا ہے۔
عام مشاہدہ سے یہ تاثر بہت راسخ ہے اور بجا طور پر درست ہے کہ خودنوشت سوانح نگار کی غیر اعلانیہ کوشش اپنی ذات کا اثبات ہوتا ہے۔ لیکن عمر فروخ نے ابتدا ہی ان واقعات کے ذکر سے کی جو انکار ذات کی انتہائی شکل لئیے ہوئے ہیں، شاید اتنا حوصلہ بر صغیر کا کوئی صاحب قلم نہ کر سکے۔انھوں نے اپنے ملک لبنان کے معاشرتی ثقافتی اور تعلیمی ماحول کی دلآویز منظر کشی کی ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چھوٹا سا ملک کیوں کر عالم عرب کی بہت سے میدانوں میں قیادت کر رہا تھا اور ابھی ماضی قریب تک اس کا دارالحکومت عربی مطبوعات کا بین الاقوامی دار السلطنت تھا۔افسوس آج کل اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے۔ عمر فروخ کی خود نوشت کے وہ حصے جو اس کے جرمنی میں ریسرچ اور تحقیق کے سلسلے میں قیام کے زمانے سے متعلق ہیں، ان کی بین السطور بہت اہم تاریخی حقائق کا اشارہ دیتی ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ھٹلر اپنے انتہائی عروج پر تھا۔ پورا جرمنی اس کے اشارہ چشم و ابرو کا پابند تھا۔ عمر فروخ نے اس وقت کے حالات کی نقاب کشائی میں جس قدر کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا ہے اس کی گفتگو کا سیاق اس سے کہیں زیادہ تفصیل بیان کر کے بھی اپنے نقطہ ترکیز سے دور نہ جاتا، تاہم اس کا قلم گرد و پیش سے دانستہ تغافل برتتے ہوئے سبک خرامی سے طے شدہ راہ پر گامزن رہا۔
کتاب کا قاری فاضل مترجم کے حسن انتخاب کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اردو داں طبقے کو جدید عربی ادب و ثقافت کی ایک نمائندہ شخصیت کے افکار و تجربات سے روبرو ہونے کا موقع فراہم کیا۔ڈاکٹر شمس کمال انجم صاحب عربی زبان و ادب کے پختہ کار استاذ ہیں۔ ساتھ ہی اردو ادب اور شاعری میں ان کا ایک تسلیم شدہ مقام ہے۔ تصنیف و ترجمہ میں وہ ملک بھر میں عربی اساتذہ کی صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ بہت سی شاہکار علمی و ادبی تصنیفات کو وہ عربی سے زندہ و دل نشین اردو میں منتقل کر کے اردو کتب خانہ میں گراں مایہ اضافہ کر چکے ہیں۔جب مترجم دونوں زبانوں کا رمز آشنا ہو تو اس کی ترجمانی استناد و روانی کا خوبصورت سنگم ہوتی ہے اور یہی کیفیت غبار حیات میں بھی جلوہ گر ہے۔
عمر فروخ نے دشت نوردی ایام کی یادوں کو غبار حیات کے نام سے موسوم کیا، لیکن یہ وہ غبار نہیں جو روئے حقیقت کو دھندلا کر دے یا ماحول کو آلودہ کر دے بلکہ وہ اس کے حقیقت نگار قلم اور ڈاکٹر شمس کمال کی زندہ و متحرک ترجمانی کی بدولت غازہ ٔرخ ایام بن کر حسین تر لگ رہا ہے۔
(صدر شعبہء عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی)