نیوز ڈیسک
اللہ تعالی اپنے بندوں سے شدید محبت رکھتا ہے اور ہرگز نہیں چاہتا کہ اس کے بندے کسی عذاب کے مستحق ہو جائیں بلکہ ذات باری تعالی اپنے بندوں کو اپنی مغفرت کے ذریعے اپنے عذاب سے بچانا چاہتا ہے.جیسے قرآن میں آیا ہے…
واللہ یرید ان یتوب علیکم
ہاں اللہ تو تم پر اپنی رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے۔
اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو آزمانے کے ساتھ ساتھ ان کے روحانی اقبال و بلندی کے لئے کچھ ایسے با برکت اوقات وایام مقرر کیے ہیں جن میں وہ الله تعالیٰ کی قربت حاصل کرکے بندگی کے نقطہ عروج پر جا کے قیام کرتے ہیں۔ان بابرکت اوقات و ایام سے بہرہ ور ہونے کے لئے ایک خاص منصب پر فائز ہونا شرط لازم قرار دیا ہے وہ شرط لازم ہے ایک انسان کا زبان و قلب سے کلمہ طیب کی تصدیق کرنا۔جو اس منصب پر فائز نہ ہو تو ان کا اس اعزازِ قربت سے معزز ہونا ناممکن ہے.یہ نادر مواقع ہر کس و ناکس کے لیے نہیں ، بلکہ ایک عظیم ذمہ داری کا بوجھ برداشت کرنے والوں کے لیےمخصوص ہے.اس عظیم ذمہ داری والے منصب کا نام مسلمان ہے.مسلمان کے لیے یہ مواقع اللہ تعالٰی نے ماہ صیام،عیدین،جمعہ اور تہجد کے ایام و اوقات کی صورت میں عطا کیے ہیں. ان ایام اور اوقات کی قدروقیمت اور غیر معمولی اہمیت صرف ایک کامل ایمان والا مسلمان ہی جان سکتا ہے۔
یہ مواقع ایک مسلمان کے روحانی وجود کی بالیدگی کے لیے موئثر ماحول فراہم کرتے ہیں. وہ ماحول اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کی جانب مائل بہ کرم ہونے کی صورت میں ہوتا ہے.اس ماحول میں بندے کی اپنے رب کے حضور سائلانا تڑپ ،عابدانہ طلب اور زاہدانہ انداز سے بدست دعا ہونا ایک قفل پر چابی لگانے کی مترادف ہے.چاہے ایک بندہ کتنے ہی جرائم لے کر اللہ کے دربار میں حاضری دیتا ہے صرف اقبال جرم کرکے ندامت اور شرمندگی کے اثر سے عرق انفعال بہائے وہ یقیناً اپنے رب کو نہایت مہربان اور معاف کرنے والا پائے گا۔اسی نسبت سے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے تھے جو میرے عرقِ انفعال کے
ایک بندے کا اللہ سے مغفرت طلب کرنے کا وقت بھی نہایت عجیب وغریب ہوتا ہے ۔یہ معاملہ ایک گم شدہ غلام کی اپنے اس آقا کی طرف واپسی کے برابر پے جو اس سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے. اگر ایک بندےکو اپنے رب کی طرف سے اس قدر محبت ہونے کا احساس ہو تو اسے تب جا کر اپنا بندہ ہونے کا مزہ حاصل ہوگا.وہ پکار اٹھے گا فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا۔
ماہ صیام مومن کے اندر تقوی کی تخم ریزی کرکے عید الفطر کے دن اس کے عملی اظہار کے لیے مومن کو مثبت ماحول فراہم کرتا ہے.چونکہ ماہ مبارک میں مومن تقویٰ کے موتی جمع کرتا ہے اور عید کے دن ان کا ہار پہن کر اظہار مسرت کرتا ہے۔ماہ صیام کے روحانی ماحول کی برکت سے مسلمان اپنی سابقہ تمام لغزشوں کو بھول کر ایک نئی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا آغاز کرنے کا مصمم ارادہ کرتا ہے.انفرادی زندگی میں روزوں کا بہترین عطیہ عاجزی وانکساری کی صورت میں حاصل کر کے مومن عید کے دن خدا ترسی کی بہترین علامت بن جاتا ہے.یہی خدا ترسی پورے سال کے لیے مومن کی زندگی کا انقلاب آفریں خاموش دعوت ہوتی ہے.خدا ترسی اور ذوق خدائی کی ان صفات سے متصف مومن عاجزی وانکساری کا مجسم بن کر صراط المستقیم پر محو سفر رہتا ہے.یہ عاجزی وانکساری اس کو ہر قسم کے روحانی امراض سے نجات دلاتی ہے.تکبر ،نفرت،حسد،بغض اور لالچ وغیرہ جیسی مہلک روحانی امراض جو ہمیشہ ایک انسان کو قطع تعلقات،بے رحمی ،ظلم وزیادتی پر اکساتی ہیں ان سے بچانے کا کلیدی رول یہی عاجزی وانکساری ادا کرتی ہیں. ایک مسلم معاشرے سے ان بیماریوں کو ہٹانے کے بعد اس کی بنیاد صحیح وسالم اخلاقی مواد پر رکھی جاتی ہے.اس معاشرے میں محبت و اخوت ،عزت و احترام اور جذبہ خدمت کا ہر طرف سے اظہار ہوتا ہے. ایسا معاشرہ ہی انسانیت کی معراج اور بندگی کی مثال بنتا ہے.عید دراصل اس قسم کے جنتی معاشرے کی بنیاد رکھنے کی طرف پہلا قدم ہے ،جو خوشی اور مسرت، نیکی اور اچھائی کی وجہ سے وجود میں آتا ہے.عید دراصل مومن کی شخصیتِ عالیہ کی تعمیرِ نو کا وقت ہوتا ہے۔
عید کی خوشیاں امت مسلمہ کے نوجوانوں کے لئےوہ لمحہ خاص کی حیثیت رکھتی ہیں جس میں ان کا کیا گیا مصمم و پختہ ارادہ ایک ناقابل تسخیر قوت کی صورت اختیار کرتا ہے. ان کا وہ ارادہ انھیں یقین محکم اور عمل پیہم کو برقرار رکھنے کا بہترین نسخہ کی حیثیت رکھتا ہے.عید کے بعد ان کی زندگی سابقہ زندگی سے یکسر مختلف ہوتی ہے. وہ امت کی جملہ پریشانیوں کے سد باب کے لیے تگ ودو کرتے ہیں.وہ امت مسلمہ کے اقبال و سر بلندی کے لیے ستاروں پر کمند ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں. ان کی پاکبازی اور پاکدامنی پر فرشتے بھی رشک کرنے لگتے ہیں. جنت بریں کی حوریں ان کے دیدار کے لیے بے تاب رہتی ہیں.ان کی نوجوان شخصیتیں لوگوں کی محبت وعزت کا مرکز بننے لگتی ہیں. وہ اپنی زندگیوں میں عجیب وغریب قسم کی تبدیلیاں پاتے ہیں. ان کا مزاج و طبیعت اور رغبت و مودت ایک نئے اور نرالے انداز پر تشکیل پاتا ہے.اس کے برعکس وہ لوگ جو ماہ صیام میں بھی اپنی نفس پرستی اور خود غرضی سے چٹھکارا حاصل نہ کر سکے ان کے لئے صیام اور عید اچھے اور لذیذ پکوان کھانے کے ایام اور دن تھے.انھیں امت کے جملہ مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ صرف اپنی ذات کے مفاد کے لیے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔