بلال احمد پرے
رب العالمین کا نہایت ہی فضل، کرم و احسان ہوا کہ ہمیں اس مقدس ماہ کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھنے کی سعادت نصیب فرمائی ہے ۔ اس مقدس ماہ میں صوم و صلوٰت، ذکر و اذکار، تلاوتِ قران، قیامِ اللیل، نوافل، زکوٰۃ، صدقات، خیرات، امداد کا اہتمام اور ہمدردی و خیر خواہی سے ایک دوسرے کو پیش آنا کا ایک غیر معمولی ماحول دیکھنے کو ملا ۔ یہ مہینہ ایک مسلمان کو اگلے گیارہ مہینوں کے لئے مستقل عبادات ادا کرنے کے لئے تیار کرتا ہے ۔ رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کمانے کا ماحول پایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو تزکیہ نفس حاصل کرنے کا ایک تربیتی کورس فراہم کرتا ہے۔ ان مقدس ایام کو رُخصت ہوتے ہی ہمیں اپنے پُرانے مقام پہ ہرگزلوٹنا نہیں چاہئے بلکہ پاکیزہ زندگی اختیار کر کے اِس مشق کو برقرار رکھ کر بے لگام گھوڑ کی طرح آوارہ گھومنے سے اجتناب کرنا چاہیے ،کیوں کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے، عین اُسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہوتا ہے ۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حِمیٰ اس کی وہ حدیں ہیں جن سے اُس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے ۔‘‘ (ابن ماجہ؛ 3984)
عربی زبان میں حِمیٰ اس چراگاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ، عوام الناس کے لیے ممنوع قرار دے دیتا ہے ۔ جو جانور حِمیٰ کے گرد ہی چرتا رہے گا، ہو سکتا ہے کہ وہ حِمیٰ کے اندر داخل ہو جائے ۔ جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت، اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو کر رہ جاتے ہیں ۔قرآن کریم نے واضح فرمایا ہے کہ یقیناً فلاح پا گیا وہ ،جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ، جس نے اس کو دبا دیا۔‘‘ (الشمس؛ ۹ تا ۱۰)
تزکیہ نفس کے بارے میں یوں فرمایا گیا کہ اصل میں کامیاب و کامران وہی شخص ہوا، جو خبائثِ عقائد سے پاک ہوگیا ہے ۔ ارشاد فرمایا ’’ فلاح پا گیا وہ، جس نے پاکیزگی اختیار کی ۔‘‘ (الاعلیٰ:۴۱)رمضان المبارک کی سعادت مندی سے بہرہ ور ہو کر ہی مسلمان پاکیزگی کی زندگی اختیار کر سکتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ’’ وہ شخص بد نصیب اور نامراد ہے جو ماہِ رمضان میںوہ اپنی مغفرت کا سامان نہ کر لے ۔‘‘ ( الترمذی؛ 3545 )
شوال المکرم کی پہلی تاریخ کو عید الفطر یعنی یوم الجوائز (انعام و بدلے کا دن) کہا جاتا ہے ۔ عید کے لفظی معنی لوٹنا ہے ۔ یعنی روحانی، نفسانی، اخلاقی، بدنی، مالی پاکیزگیوں کے بعد رحمت، مغفرت اور جہنم سے خلاصی جیسے عشروں کی سعادتوں سے بہرہ ور ہونے کے بعد دوبارہ ایک نئی پاکیزہ زندگی کی طرف لوٹ آنا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ۔’’بے شک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے ۔ (البخاری؛ 952)
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب عید کا دن ہوتا ہے تو فرشتے عیدگاہ کے راستے میں انتظار کرتے ہیں اور پکارتے ہیں کہ اے مسلمانوں کے گروہ! چلو اپنے رب کریم کی طرف جو احسان کرتا ہے، بھلائی کے ساتھ اور اجر عطا فرماتا ہے اور تم کو رات کو عبادت کرنے کا حکم فرمایا گیا پس تم نے قیام کیا اور تم کو روزے رکھنے کا حکم فرمایا گیا، پس تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت کی ۔ اب تم انعام حاصل کرو ۔ اور جب مسلمان نمازِ عید الفطر ادا کرکے فارغ ہو جاتے تو ملائکہ اعلان کرتے ہیں ۔
’’ آگاہ ہو جاؤ !بے شک تمہارے رب نے تمہیں اجرِ عظیم عطا فرمایا اور تم آئے اپنے گھر کی طرف کامیاب ہو کر ۔‘‘
عید درحقیقت انعام ہے ان بندگان خدا کے لیے، جنہوں نے پورے اہتمام کے ساتھ اس ماہِ مبارک کی قدر کی ۔ عید اُن لوگوں کے لیے ہے، جنہوں نے تقویٰ و طہارت اختیار کیا اور عید اُن لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے گناہوں کو چھوڑا ہے، جنہوں نے توبہ کیا اور جنہوں نے پاکیزہ زندگی اختیار کر لی ہے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور قول ہے کہ مومن کے لئے ہر وہ دن عید کا ہے جس دن وہ کوئی گناہ نہ کرے ۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنے عارفانہ انداز میں یوں اظہار فرمایا ہے کہ ’’عید اُن کی نہیں جنہوں نے عمده لباس زیب تن کر لیا بلکہ عید تو اُن کی ہے جو الله کے خوف اور اس کی پکڑ سے ڈر گئے۔‘‘
الغرض عید الفطر کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ عمدہ ترین لباس میں ملبوس ہونے، مختلف ضحافتیں پکوانے ، کھیل کود میں مشغول ہونے اور پٹاخے ڈالنے کے بجائے اللہ کا خوف دل میں بٹھائے رکھے، گناہوں پہ پشیماں ہوکر توبہ کرے، تقوٰی و پرہیزگاری کو اپنا توشہ بنائے، تلاوت قرآن سے دل کو مسحور کرے، پاکیزہ زندگی کی طرف لوٹ آئے ۔
(ہاری پاری گام ترال،رابطہ – 9858109109)
[email protected]