ڈاکٹر عریف جامعی
تاریخ عالم میں حب الہٰی کی داستان رقم کرنے والوں نے ہمیشہ شجر محبت کی آبیاری آہ صبح گاہی سے بھی کی ہے اور گریۂ نیم شبی سے بھی اس نخل الفت کو سینچا ہے۔ یہ داستان عقیدتوں کی رہین منت بھی رہی ہے اور خون جگر نے بھی اس کی جڑوں کو تر رکھا ہے۔ برگزیدہ ہستیوں کی لوح دل پر منقش خلوص اور للٰہیت نے ایسی کتاب محبت ترتیب دی جسے پڑھ کر آج بھی انسانی دل عقیدتوں سے دھڑکنے لگتے ہیں۔ ایمان و ایقان کے روغن زیتون سے ایسی قندیلیں روشن ہوئیں جو آج بھی فانوس بن کر تشکیک اور تشریک کی تند و تیز ہواؤں کو روک رہی ہیں اور توحید کی تجلّی کو چہار دانگ عالم میں پھیلنے کا سامان کررہی ہیں۔ اس شاہراہ محبت میں اہل عزیمت نے ہمیشہ عزم و ہمت کی ایسی تاریخ لکھی جو آج بھی نہ صرف قابل دید ہے، بلکہ اسے اہل دل آج بھی قابل عمل پاتے ہیں۔
تاہم خلوص و محبت کبھی بھی زبانی جمع خرچ کا نام نہیں رہا ہے۔ بلکہ اس چمنستان محبت کو خون دل سے سیراب کرنا پڑتا ہے۔ یہاں پر اپنے مطمح نظر یا منزل کے حصول کے لئے انسان کو سمع و طاعت کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ محب کو اپنی انا محبوب کی انائے مطلق کے سامنے بلا حیل و حجت جھکانا پڑتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ کسی بھی صورت میں انائے منفرد اور انائے مطلق کا اتصال نہیں ہوتا، بلکہ یہ مخلوق کی خالق کے سامنے سرافگندگی کی انتہا ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہاں بندہ خدا کے سامنے کسی بھی قیل و قال کے بغیر عبودیت کی معراج کو پہنچ چاتا ہے۔ قرآن بندے کے سامنے یہ لائحہ عمل ان الفاظ میں رکھتا ہے: “کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا۔” (آل عمران، ۳۱)
عبودیت اس طرح بندے کا ایک عمومی رویہ بن جاتا ہے، اور بندہ اس منصوبۂ خداوندی میں شریک ہوجاتا ہے جس کے تحت عبادت ہی جن و انس کی تخلیق کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ (الذٰریٰت، ۵۶) یعنی عبادت بندے کی کیفیت اور سجدہ اس کا انداز بن جاتا ہے۔ تصوف کے الفاظ میں بندے کا حال اور مقام ایک ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ ہر صورت سر تسلیم خم کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ہر لحظہ خدا کی یاد میں گزار کر ہر آن نماز (خدا کی یاد، طٰہٰ، ۱۴) میں رہتا ہے۔ جہاں تک سجدے کا تعلق ہے تو وہ سجدہ خدا سے قریب ہونے یعنی اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے۔ (العلق، ۱۹)واضح ہوا کہ نماز اور سجدہ بندے کو خدا کے قریب لاتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے یہی معنی “قربانی” کے بھی ہیں۔ بائبل کے تاریخی سلسلے کی کتاب نحمیاہ، جسے کئی لوگ عزرا کی کتاب کا تتمہ بھی سمجھتے ہیں، کے مطابق “لفظ قرب اور اس کے متعلقات کے معنی خدا کے قریب لانے کے ہیں۔” (۱۰، ۳۵) اس کا ترجمہ “تحفہ” (گفٹ) اور “پیش کرنا” (پریزینٹیشن) کے بھی ہیں۔ تحفہ اسی شئے کو کہہ سکتے ہیں جو پیش کرنے کے قابل ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی ہی شئے انسان کو خدا کے قریب کرسکتی ہے۔ انسانی تاریخ میں ہابیل کی قربانی “ایک بہترین تحفہ” تھا جسے “بہترین انداز” یعنی خلوص کے ساتھ خدا کے حضور میں پیش کیا گیا، جبکہ قابیل کی قربانی سے یہ دونوں چیزیں غائب تھیں۔ (المائدہ، ۲۷-۳۱)
قربانی کی اس تشریح کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ نے جو قربانی آخر کار ٹھوس صورت میں پیش کی وہ ان تمام قربانیوں (تحائف) کی معراج تھی جو آپ یکے بعد دیگرے بارگاہ ایزدی میں پیش کرتے رہے۔ یہاں پر یہ بات بھی نہایت دلچسپ ہے کہ جب قربانی دینا آپ کی ادا اور آپ کا انداز بن گیا، تو رب تعالی نے اپنی جناب سے قربانی بھیج کر آپ کی قربانیوں کی ابدیت کا اعلان فرمایا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: “اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔” (الصٰفٰت، ۱۰۷) شرک و الحاد کے اس دور میں، جب قربانیوں کو جھوٹے خداؤں کے آستاتوں پر چڑھاوے کے طور پر چڑھایا جاتا تھا، سیدنا ابراہیمؑ رب تعالی کے اس منصوبے میں شریک ہوکر لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ قربانی (نعمت، خیر، فضل) رب کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف اس کو لوٹایا جانا چاہئے۔تاہم یہ تمثیلی طور پر اس بات کا اعلان تھا کہ طاغوت کے علمبرداروں نے جو شرک کا گورکھ دھندا جاری کیا ہوا تھا، اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جائے، اور اس کی جگہ نظام توحید کو نہ صرف مترشح کیا جائے بلکہ اسے دلائل اور براہین کی بنیاد پر انسان کے ذہن پر منقش کیا جائے۔ قربانی کی اس شاہراہ عظیم پر قدم رکھنے کے لئے سیدنا ابراہیمؑ نے سب سے پہلے اپنے ارادے کی قربانی دی، یعنی اپنے آزاد ارادے سے رب تعالی کے حکم پر دستبردار ہوگئے۔ سیدنا ابراہیم ؑ کی اس ادا یا اس انداز کو رب تعالی نے اس طرح بیان فرمایا ہے: “جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہا، فرمانبردار ہوجا، انہوں نے کہا، میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری (اختیار) کی۔” (البقرہ، ۱۳۱)
سیدنا ابراہیم ؑ نے جس طرح شرک کے علمبرداروں کے ایک ایک دعوے کا مضبوط عقلی دلائل اور فکری براہین کے ذریعے توڑ کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے عقل و عشق کے امتزاج سے نظام کفر کو نظریاتی شکست دے دی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بادشاہ وقت نے اپنے زعم باطل سے سیدنا ابراہیمؑ کی یہ دلیل کہ “میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے” اپنے اس دعوے کہ “میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں” سے رد کرنے کی کوشش کی، تو آپ نے اس ناقابل تردید دلیل کہ “اللہ تعالی آفتاب کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے، تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ” (البقرہ، ۲۵۸) کے ذریعے بادشاہ کو لاجواب کردیا۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ بادشاہ نے آپ کو اپنی کٹ حجتی کے ذریعے الجھانا چاہا، لیکن آپ نے بڑی مہارت سے بحث کا رخ اس آفاقی حقیقت کی طرف موڑ دیا جہاں بادشاہ کا مبہوط ہونا طے تھا۔
صنم خانے میں سیدنا ابراہیم ؑکی بت شکنی کی کاروائی بھی دراصل “مروجہ قانون توڑنے” کا کوئی عمل نہیں تھا۔ اگر یہ کسی قسم کی انقلابی کاروائی ہوتی تو اس کے لئے ایک جتھے کا موجود ہونا لازمی تھا، جو توڑ پھوڑ کرکے نکل جاتا اور اپنا کام کرکے بھاگ کھڑا ہوتا۔ یہ دراصل اس بات کا مظاہرہ (ڈمانسٹریشن) تھا کہ قوم کے سامنے اس نظریے کا رد اور نفی کی جائے جس کے تحت اس نے بے ضرر اور بے حیثیت پتھروں کو معبودوں کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ یہ کاروائی کرتے ہوئے اپنے سوالات کے ذریعے ان کی بے بسی بھی بیان کرتے جارہے تھے۔ قرآن کے الفاظ میں: “فرمانے گے، تم کھاتے کیوں نہیں؟ تمہیں کیا ہوگیا کہ بات تک نہیں کرتے ہو؟ پھر تو (پوری قوت کے ساتھ) دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے۔” (الصٰفٰت، ۹۱-۹۳) یہی وجہ ہے کہ قوم نے سیدنا ابراہیم ؑ کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے انتہائی کاروائی کرنے کی ٹھان لی۔ اور ایسا فیصلہ کرتے ہوئے انہوں نے واضح اشارہ دیا کہ انہیں دراصل اپنے نظام شرک کو بچانا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: “کہنے لگے کہ اسے جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے۔” (الانبیاء، ۶۸)
سیدنا ابراہیم ؑ کے سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب رب تعالی کی طرف سے ان کی امامت کا اعلان ہوتا ہے، تو وہ اپنی ذریت کے بارے میں بھی امامت کی تمنا کرتے ہیں۔ اس پر ان کو رب تعالی کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے: “میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔” (البقرہ، ۱۲۴) یعنی ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ رزق عادل و ظالم (البقرہ، ۱۲۶) ہر کسی کو دیا جائے گا، لیکن امامت میں ظالموں کا کوئی حصہ نہیں۔ اسی طرح جب سیدنا ابراہیمؑ حیات بعد الممات کی حقیقت جاننے کے متمنی ہوتے ہیں، تو ان سے سوال ہوتا ہے کہ “کیا تمہیں ایمان نہیں،” تو وہ جواب دیتے ہیں کہ “میرے دل کو اطمینان حاصل ہوگا۔” (البقرہ، ۲۶۰) یعنی جس طرح ہر انسان ایک عالم کے سامنے زندگی بھر طالب علم بنا رہتا ہے، اسی طرح پیغمبر کرام ہر آن خدا کے سامنے علم کے لئے دست سوال دراز کرتے رہتے ہیں۔
انداز ابراہیمؑ میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تمام پیغمبروں کی طرح آپ بھی ایک انسانی معاشرے کے ہی فرد تھے۔ اس لئے آپ نے بھی انسانی رشتوں کو بھر پور انداز میں نبھایا۔ رشتوں کو نبھانے میں آپ حلم اور برداری کی معراج پر فائز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آزر نے آپ کی دعوت ماننے سے صاف انکار کیا تو آپ نے اس کے سامنے کسی ترش روی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپ نے “ہجر جمیل” کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس کی مغفرت کے لئے دعا (مریم، ۴۷) بھی کی۔ اس کے شرک پر اصرار کی وجہ سے آپ نے پھر اس عمل (دعا کرنے) سے رجوع کیا۔ (التوبہ، ۱۱۴) یعنی معاشرتی معاملات میں آپ احسان کے مقام پر ہی متمکن رہے۔ اسی احسان کا عکس پھر ہم سیدنا اسمٰعیل ؑ میں دیکھتے ہیں۔ ان کو جوں ہی اپنے والد کی زبان مبارک سے رب تعالی کا حکم سنایا گیا، تو انہوں نے بالکل ابراہیمی انداز میں خدا کے حکم کے سامنے ان الفاظ میں سر تسلیم خم کیا: “جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔” (الصٰفٰت، ۱۰۲)
اس ساری داستان عبودیت اور محبت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بخوبی سمجھی جاسکتی ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ کے فکر و عمل کو کیونکر “اسوہ حسنہ” قرار دیا گیا۔ چونکہ شرک اور وفا ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، اس لئے مشرک والد کو دعائے مغفرت کرنے کے علاوہ سیدنا ابراہیم ؑ کے ہر انداز اور آپ کی ہر ادا کو قرآن نے ان الفاظ میں “اسوہ حسنہ” قرار دیا گیا: “(مسلمانو!) تمہارے لئے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے ۔ لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا ۔ یقیناً تمہارے لئے ان میں اچھا نمونہ ہے۔” (الممتحنہ، ۴-۶)
تمام مکارم اخلاق کی طرح اس “اسوہ حسنہ” کی تکمیل بھی خدا کے آخری نبی، محمدؐ کے مبارک ہاتھوں سے کی گئی۔ (الاحزاب، ۲۱) چونکہ دین توحید یعنی اسلام کی تکمیل بھی رسول اللہ ؐ کے ذریعے فرمائی گئی (المائدہ، ۳)، اس لئے آپ ؐ کو دنیا میں نظام توحید کی صورت میں اور آخرت میں اس کے انعامات، انوار اور تجلّیات کی صورت میں “خیر کثیر” عطا فرمایا گیا۔ اسی کا اعلان سورہ الکوثر میں اس طرح کیا گیا: “(اے نبی!) ہم نے تمہیں کوثر عطا کردیا۔ پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔” (الکوثر، ۱-۲) یعنی دین ابراہیمی میں صلوٰۃ زندگی (یعنی دنیا میں خدائی منصوبے کے مطابق جینے) کا اظہار ہے، جبکہ قربانی موت (یعنی خود کو خدا کے سپرد کرنے) کی علامت ہے۔ اسی کو سیدنا ابراہیمؑ نے اس طرح بیان فرمایا ہے: “کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔” (الانعام، ۱۶۲)
(رابطہ ۔9858471965)