عہد نو میں سرسیدتاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ انسانوں کی بستيوں میں معماریت کے پُرعزم سالاروں نے ایثار و وفا کا لبادہ پہنے جب مسیحائی قوم کیلئے ہاتھ بڑھایا ہے تو متاعِ ناپایہ دار کی حقیر شہرتوں اور مسندوں کو گھماتے یا اشتہار چھپواتے نہیں کیا بلکہ اپنی ذات کو مثلِ شمع ڈھلا کر رہتی دنیا کو سراغ مہیا کروائے ہیں۔اُنہیں تاریخ کے مسیحائوں میں سرسید احمد خاں انیسویں صدی کے اُفق پہ مسیحائی قوم کے تابناک کمک کی طرح روشن ہیں۔ہر شخص کیلئے سرسید کو دیکھنے کا مختلف انتخاب ہو سکتا ہے۔کوئی ادبی نقطہ نظر سے نثر کا ابا آدم مانتا ہے تو کوئی سیاسی و سماجی نظریہ میں فرقہ پرست اور استعماریت کا پیشوا کہتا ہے۔وہی قومی اعتبار سے تنگ نظری کا شکار سمجھتے ہیں تو مذہبی کٹہرے میں شیوخ کے نزدیک وہ ملحد تھے۔جیسے شیخانِ وقت نے سرسید احمد خاں کو مذہبی نقطہ نظر سے ملحد اور فرنگی ایجنٹ قرار دیا ۔ظاہر ہے سماجی سطح پر بھی نئی تحرک و تفکر کی پرزور مخالفت ہونی تھی۔چنانچہ اختصار کیساتھ یوں کہا جائے کہ ہر شعبہ ہائے وقت نے اس نو تغیر تبدل کی آواز کو ہر ممکنہ طریقے سے روکنے کی پرزور کوشش کی۔ اگر سرسید کی ذاتِ کلّت میں سے ایک پہلو پہ بحث کی جائے یعنی عصر حاضر میں سرسید کی سیاسی بصیرت و بصارت کی مطابقت، تو یقینا ً سرسید نہ صرف اس مطابقت میں طاق کی طرح سجھے دجھے ہیں بلکہ آزاد ہند کا علمی و فکری طبقہ،اپنے علم فکر کے تبصراتی حلقہ میں اس سے بے حد گراں بار ہے۔ سرسید بیک وقت مختلف فیلڈ کے ماہر بلکہ تخلیق کار ہوتے ہوئے اتنے بڑے سیاسی مبصر زیرک بین تھے کہ انکی سیاسی پیشن گوئی آج بھی وقت کے لحاظ سے مشعلِ راہ ہے۔انکا ماننا تھا کہ ہندوستانی اور ہندوستانیوں میں بالخصوص مسلم طبقہ علمی و فکری طور پہ مثل یتیم اور لاوارث ہے۔لہٰذا نیشنل کانگریس انکے لئے ایک شائق سے بڑھ کے کچھ ثابت نہیں ہوسکتی۔سرسید 1857 کی ناکام بغاوت کے بڑے نزدیکی شائق تھے اور اسکی دور بینی کے ماہر پیشن گوہ بھی۔اسلئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ سرسید نے برطانوی سامراجیت کو جسطرح سمجھا اور پرکھا تھا اسکو نمٹنے کا وہی سب سے بہترین طریقہ تھا۔ان کے نزدیک برطانوی سامراجیت ایک تیز چلتی ریل کی طرح ہے، جس کے سامنے کھڑے ہونے سے پسنا ہے اور اسے رُکنے کا انتظار کرنا اور اندر گھس کے انجن کو پکڑنا ہی کامیابی کی امید کہی جاسکتی ہے، جسے وہ جدید تعليم سے تعبير کرتے تھے ۔عہد حاضر میں جہاں فرقہ پرست طاقتیں ہر دیوار پر چپک چکی ہیں ،ہر دفتر اور مسند سے گنگناتی ہیں، حتیٰ کہ تاریخی کتب کے دوٹوک پنوں کو گرد آلود کر چکی ہیں۔وہاں سرسید کی سیاسی بصیرت سے استفادہ کرنا حق و صداقت کی للکار کے ساتھ کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔وہی سرسید جو ہندوستان میں قومی ریاست کے نظام سے بہت پہلے ہندؤ ںاور مسلمانوں کو اپنی دو آنکھ کہہ چکے ہیںاور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیادوں میں ایشوری پرشاد اوپدائے کو ابتدائی دور کے گریجویٹ ہونے کا شرف حاصل کرانے اور کالج کے خزانے کے خزانچی تک کا تعین ایک کشوری لال کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرقہ پرست اور تنگ نظر نہیں بلکہ معقولیت کے موجد تھے۔ کسی بھی ہندوستان کی سیاسی یا سماجی شخصیت سے اگر سرسید کی سیاسی و سماجی ایثار و قربانی کا موازنہ کیا جائے تو پہلے ترازوسے دوسرا ترازو نہ صرف بھاری ہے بلکہ قومِ ہند بالخصوص قوم مسلم اسکے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔اس راہِ خارزار اور کوہسار میں سرسید نے تن تنہا جو اپنا سفر باندھا تو طوفانوں و سونامیوں سے ٹکراکے خوف کے بجائے قومی روشن مستقبل پیشِ نظر تھا۔دلدلی قوم کی دستگیری کے دوران سرسید پہ جوتوں کے ہار زیب تن بنانا اور اسے سے طلاب کے اخراجات کیلئے بیچنا ،ان کیلئے کوئی تذلیل نفسی نہیں تھی۔المختصر مکمل ادب و احترام کیساتھ اگر شیخ صاحب کے دو ٹوک و اٹل فیصلہ کو پوری ادبی رسومات کیساتھ طاق میں رکھا جائے۔فرقہ پرست طاقتوں کے بہتانو ںکو پاؤں کی نوک پہ رکھا جائے۔ماہرین کے بے جا الزامات کو کوڈا دان کی نظر کیا جائے اور شیخ،سیاستداں،مدبر اور تنگ نظر مفکر کے قلم سے دئے گئے کافر ایجنٹ اور فرقہ پرست سرسید احمد خان کو انسانی،معماری،فکری،علمی،ادبی اور اسلامی جدید فکر کی زیرک بینی سے دیکھا جائے اور کہا جائے کہ سرسید آپ قومِ مسلم کی وہ دھڑکن ہو جو دھڑکنا بند ہوجائے تو صرف ایک ذات ہی نہیں ایک زمانہ نہیں بلکہ پوری قوم نہ ختم ہونے والے زندگی و موت کے دلدل پھنس کر رہ جائے اور ایسی پھنسی قوم کی وہ ضرورت ہو ،جس سے وہ ناآشنا ہے۔کوئی کہے نا کہے، شیخ جی چاہے مجھے بھی اُسی فہرست میں شامل کر لیں مگر میں اس چمن کا حصہ ہونے کے ناطے بلکہ فکر ِاحساس کا مرکب ہونے کی حیثیت سے جو سمجھا ہو، وہ کہوں گا بغیر کسی مبالغہ آرائی کے کہ سرسید آپ برصغیر کی قوم مسلم کے وہ معمار و مسیحا ہو، جنہوں نے 1857 کی بغاوت کے بعد مسلم سماج کے خانوں پہ ڈھلتے و بجھتے زندگی آرام و سکون کے چراغوں کو پھر لو بخشی اور نہ ایک زمانے کو بلکہ اُن کی آنے والی نسلوں کو علم فکر کی جھولانی و جاودانی بخش دی اور جو ہزار سالہ مغلیہ سلطنت نہ کر سکی وہ کر دکھایا، وہ چمن عطا کیا، جسے مسلم قوم کی ریڈ کی ہڈی تھی اور ہے۔ جب لچکے گی تو یہ قوم ٹوٹنے، کمزور ہونے و بکھرنے لگے گی۔ جو نہ صرف ہند کیلئے بلکہ برصغیر کیلئے عہد زری کا بغداد و عہد نو کا آکسوارڈ کے مترادف ماننا ہم ناچیزوں کیلئے اعزاز ہوگا۔
(اے۔ایم۔یو علی گڑھ)