عورت کی معاشرتی حیثیت ؟

 
عصرحاضر اپنے فکری فسلفے، تہذیبی تجربے اورمعاشرتی رویوں کے باعث دراصل مغربی تجربہ ہے۔ مغرب فی الوقت دنیا کی غالب قوت ہے اوراس کی فساد قلب ونظر کی حامل تہذیب تقریباً دنیا پرچھائی ہوئی ہے۔ تھوڑی بہت مزاحمت اگرہے تووہ مسلم معاشروں میں ہے۔ تمام معاشرتی ادارے مغربی منھاج پرکام کررہے ہیں،تعلیم ،سوچ اورتہذیبی رویوں میںمغربی ماڈل ہی پیش نظرہے، مغرب کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس نے اس تہذیبی جنگ کے لیے مسلم معاشروں کوہی میدانِ جنگ کے طورپر منتخب کیا۔ اس لیے تہذیبی تصادم مسلم معاشروں کے اندر بپاہے۔ مسلم معاشروں کی تعلیمی ، معاشرتی ،سیاسی ،عسکری اورفکری قیادتیں اس تہذیبی تصادم میںمغرب کی معاونت کررہی ہیں اورمغرب اپنے حلیفوں کوہرقسم کی امدادمہیاکررہاہے۔
مغرب کا غالب مزاج مادی ہے اورعیش کوشی ان کاطرزحیات ہے۔ یہ دوعناصر ان کے تہذیبی تجربے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ مسیحی عہدمیں خصوصی روحانیت کچھ دیرغالب رہی لیکن جلدہی ریاست اورکلیسا کی کشمکش شروع ہوگئی ہو۔بالآخر کلیسا اورمذہب کی شکست اورمادیت وعیش کوشی کی فتح پرمنتج ہوئی ۔موجودہ مغرب مادی،سیکولر اورعیش کوش ہے۔اس کی عسکری طاقت اس طرزِ حیات کے دفاع اورپوری دنیا میں اِس نظام اقدار کے نفاذکے لیے استعمال ہورہی ہے۔ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ تمدنی ترقی کالازمی نتیجہ عیش پرستی اوراخلاقی قدروں کازوال ہے جوبالآخر تباہی پرمنتج ہوا۔عیش پرستی کامرکزی کردارعورت ہے۔ یونانیوں پرنفس پرستی اور شہوانیت کاغلبہ ہوا تو طوائف کلچر کوفروغ ملا، عمل قوم لوط ایک وبا کی طرح پھیلا ۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے بقول :’’تاریخ شہادت دیتی ہے کہ اس کے بعد یونانی قوم کوزندگی کاکوئی دوسرا دورپھرنصیب نہیں ہوا۔‘‘(پردہ :ص ۱۴)اور ’’بہیمی خواہشات اس قدر مغلوب ہوجانے کے بعد روم کا قصر عظمت ایساپیوندخاک ہواکہ پھر اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ پرقائم نہ رہی۔ ‘‘(پردہ ۱۸)۔ جدید مغرب اس تباہی کی طرف کشاںکشاں جارہاہے۔ فرق صرف اتناہے کہ یونان اورروم تباہ ہوئے تویہ قومی وعلاقائی بربادیاں تھیں۔جدیدمغرب تباہ ہوگا توساتھ دنیاکے بڑے حصے کوبھی لے ڈوبے گا۔ مسلم معاشروں کے دانشوروں کے لئے بے حدضروری ہے کہ مستحکم حکمت عملی ،صف بندی اورایمانی جزبے کے ساتھ توایسا اقدامی لائحہ عمل اختیار کریں کہ جواسلامی ،اخلاقی وتہذیبی قدروں کے نفاذکاذریعہ بنے اورمغربی یلغار کاسریاب ہوسکے۔ اس تہذیبی تجربے کاجائزہ لیںتواس میںعورت کی حیثیت ہمیشہ پست رہی۔ آزاد جنسی تعلقات، طوائف کلچر کے فروغ سے لے کرعورت کے شیطانی دروازہ ہونے تک کے سب تصورات یورپین معاشرت کاحصہ ہیں۔ قرون وسطیٰ میں کیتھولک چرچ کارویہ خطرناک حدتک عورت دشمن تھا۔ ’’Door of the devil‘‘اور ’’Misbegotten Male‘‘جیسی اصطلاحیں مسیحی مذہبی ارب کاحصّہ ہیں۔ پھر بعض عیسائی تحریروں سے واضح ہوتاہے کہ عورت اپنی انوثت کو ختم کرکے ہی نجات حاصل کرسکتی ہے۔ 
یورپ کانیادور نشاۃٔالثانیہ سے شروع ہوتاہے۔تحریک اصلاح مذہب،انقلاب فرانس اورانگلستان میںصنعتی انقلاب (Industrial Revolution) نے علمی ومعاشرتی شخصیتیں پیداکیں۔ ان فکری وعملی انقلابات نے معاشرتی حالات میںتبدیلی پیداکی۔ اب آزادی ومساوات (Freedom & Equality) نئی قدریں قرارپائیں۔ مسیحیت کی مذہبی روایت کے خلاف بغاوت نے مختلف سطحوں پرکام کیا۔ دورجدید کے آغاز میںصنف اناث کوپستی سے اٹھانے کے لیے کوشش کی گئی۔ عورت کی تذلیل کے تصور کوختم کیاگیا، اس کے سلب شدہ معاشی حقوق بحال کئے گئے اور نکاح وطلاق کے لیے کوشش کی گئی۔عورت کی تذلیل کے تصور کوختم کیاگیا، اس کے سلب شدہ معاشی حقوق بحال کئے گئے ۔ عورت کے حقوق کے لیے جومہم چلائی گئی، دراصل ان نظریات پرمبنی تھی جوجدیدمغربی معاشرت کے ستون متصور ہوتے ہیں جیسے (۱)  مردوعورت کی مساوات  (۲) عورتوں کامعاشی استقلال  (۳)  دونوں صنفوں کاآزادانہ اختلاط۔
صنعتی انقلاب (Industial Revolution) نے کارخانوں  کے مزدوروں اورکارکنوں کی طلب بڑھادی تھی اورکارخانہ دار کو سستے کارکنوں(مزدوروں) کی ضرورت تھی۔اس لئے انہوںنے عورتوں اوربچوں کوترجیح دی کیونکہ انہیں کنٹرول کرنابھی آسان تھا اورزیادہ کام لینابھی۔ عورتوں کی مسابقت مردمزدوروں سے شروع ہوتی اورجلد ہی یہ مسابقت رقابت میںبدل گئی اورمردکارکنوں میںاجتماعی طور پراس کے خلاف ردعمل شروع ہواتو عورتیں آہستہ آہستہ وزنی کاموں سے عہدہ برآہوکر دفتری کاموںپراکتفاکرنے لگیں۔ یورپ میںپہلی مرتبہ مردوں اورعورتوں کے درمیان ،محبت ،معاشرتی یکجہتی اوراجتماعی ہم آہنگی کی جگہ مقابلے کی فضاپیداہوئی، جس نے تحریک آزادی نسواں کے لیے ایندھن فراھم کیا۔ ملازمت کرنے والی عورت نے معاشی آزادی کا ادراک کیا تووہ معاشرتی آزادی پربھی عمل پیراہوئی۔ گھر،خاندان،اولاد کی پرورش ،خانہ داری کی تنظیم کوبوجھ سمجھنے لگی اورآزاد معاشرتی زندگی کی راہ پرچل نکلی۔انقلاب فرانس (French Revolution)کے دوران عورتوںنے اجتماعی آواز اُٹھائی اور عورت کے انتقامی رویوں کااظہار ہونے لگا۔ صنعتی معاشرت نے عورت کی شخصیت کواجتماعی سرگرمیوں میںجزب کرلیا۔دفتروں اورکارخانوں کی ملازمت ،آزادتجارتی سرگرمیوں میںشرکت، کلب ،سٹیج اوررقص وسرور کی مصروفیتیں اس کی شخصیت کاحصّہ بن گئیں۔ نکاح آہستہ آہستہ غیرمتعلق ہونے گا، آزادانہ جنسی تعلقات قابل قبول ہونے لگے۔ اسقاط حمل اورہم جنس پرستی فروغ پانے لگی۔ مغربی معاشرت آہستہ آہستہ انہی معیارات کی طرف بڑھنے لگی ،جنہیں یونانی اوررومی معاشروںنے تمدنی عروج کے زمانے میںاپنایاتھا اورسنت اللہ کے مطابق موجودہ مغربی معاشرت کاانجام بھی وہی ہوگا جویونانی اوررومی معاشروںکاہواتھا۔                                                                               
   تحریک آزادیٔ نسواں :۔تحریک آزادیٔ نسواں ابتدامیں عورت کے حقوق کی تحریک تھی،جوبعدمیں آزادیٔ نسواں اورنسائیت کے نام سے پہچانے جانے لگی۔ صنعتی انقلاب سے پہلے تک یورپی ممالک میںبھی عورت کاروایتی تصور ہی رائج تھا کہ وہ گھر کی دیکھ بھال کرنے والی ہوتی تھی جبکہ مرد اورروٹی کمانے والے کہلاتے تھا۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی یہ تصور پلٹ گیا۔ اورعورتوں کے حقوق کی وہ تحریک چلی جوہنوزچل ہی رہی ہے۔ وولسٹون کرافٹ(Mary Woll Stonecraft) نے اس تحریک کی بنیادڈالی۔انہوںنے عورتوں کے استحصال کے خلاف لڑائی کاآغازکیا ۔اس کی معروف کتاب ’’A Vindication of the Rights of Women‘‘ ۱۸۹۳ء؁ میںچھپیی، اس کے ساتھ ہی تحریک نسواں(Feminism) کی بنیاد ومضبوط ہوگئی۔ کرافٹؔ نے یہ نقطۂ نظر دینے کی کوشش کی تھی کہ مردعورتوںپراپنی برتری برقراررکھنے کے لئے انہیں تعلیمی،سماجی اورسیاسی حقوق سے محروم رکھتے ہیں تاکہ اس طرح وہ ہمیشہ مردوںپر منحصر (Dependent) رہیں۔ 1960ء؁ کی دہائی اس تحریک کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتاہے ۔ مغرب کی عورت نے اب اپنی مکمل آزادی کامطالبہ پیش کیا اوراس سے مغربی معاشروں پربالخصوص اورتمام انسانی معاشروں پرجومضراثرات مرتب ہوئے ان میںسے چندیوںہے:
  خاندانی نظام کاانتشار :۔عورت کی آزادی نے اسے خاندانی نظام اور اس کے اندرروایتی کردارسے بغاوت پرآمادہ کیا لہٰذا پہلا اثریہ ہوا کہ خاندان ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوا ۔خاندان میں عورت کاوجودرحمت وشفقت اورہمدردی وغمگساری کانمونہ تھا، جس سے بچّے بھی محروم ہوئے اوربوڑھے بھی۔ خاوندجس کامنتظمانہ کرداربیوی کے مشفقانہ طرزعمل سے مل کر خاندان کواستحکام عطاکرتاتھا ان ذمہ داریوں سے دستِ کش ہوکرنئی راہوںپر چل نکلا۔شادیاں ختم ہوگئیں،طلاقوں کی کثرت ہوئی،بچے بے راہ اور بزرگ بے یارومددگار ۔ خاندان کی اس تباہی کاراست تعلق عورت کی آزادی سے ہے۔ مغربی معاشروں کواپنے فلاحی کاموں اورمعیارزندگی کوبرقراررکھنے کے لئے نئی لوٹ کھسوٹ کی ضرورت پڑ رہی ہے، اس لئے کمزور معاشروں کے وسائل پر قبضہ کرنے اوران پرڈاکہ ڈالے بغیر یہ معیار برقرارنہیں رکھاجاسکتا۔ امریکہ اور اس کے کفش بردار حیوانی صفات کے حامل ممالک ابھی اورکیاکیاکرینگے، اس بارے میں کچھ نہیںکہاجاسکتا۔ دوسری طرف مغرب اب دوبارہ خاندانی قدروں کے احیاء کے لیے بھی سرگرم عمل ہے لیکن وہ اس لیے ممکن نہیںکہ عورت نے آزادی کاجو لطف اُٹھایا ہے ،اسے وہ ضائع کرنے کے لئے تیارنہیں۔ مغربی مرد قوامیت (Supervisory Role) کھوبیٹھاہے اورروٹھے صنم کوالتجاؤں سے تومنایانہیں جاسکتا بالخصوص وہ اگرظالمانہ اورغیرمنصفانہ روش پر چل نکلاہو۔ 
  جنسی آوارگی:۔عور ت کی آزادی کاایک مظہراختلاط مردوزن ہے۔ یورپی معاشرہ اسے اپنی ثقافتی پہچان قراردیتاہے لیکن اس نے مغربی معاشرے سے شرم وحیا اورعفت وعصمت جیسی صفات ختم کردی ہیں۔ عورت اورمردمیںایک پراسرار جاذبیت ہے، جس میںدوری اورفراق کابنیادی کردارہے۔ آزادانہ میل جول نے اس پراسرار یت کوختم کردیاہے۔ وہ محض ایک جسمانی لطف اندوزی ہے جس کاتقاضا حیوانی جبلتیں کرتی ہیں۔ آزادانہ اختلاط نے زناباالرضا وزنابالجبر کے ذریعہ مغرب میں ایک طوفان بپاکررکھاہے۔مغربی معاشروں پرتواس کے مضراثرات مرتب ہوہی رہے تھے،افریقہ اورایشیاء کے روایتی معاشروں نے اس نو دریافت جنسی آزادی کوآوارگی سے بھی کسی اگلے مرحلے تک پہنچایاہے۔ غیر منظم معاشروں میںآزادی جوتباہی لاتی ہے اسے افریقہ میں دیکھاجاسکتاہے۔
  مردوںکے خلاف نفرت:۔آزادیٔ نسواں کاایک پہلو جس کاظہور مغرب میںہواوہ مردکی کردار کشی ہے۔ یہ تحریک عورت کے خوف اوراس کی مظلومیت سے شروع ہوکرمردم آزادی تک پہنچی ۔ ملازمتوں میںعورتوں نے ہرجگہ قبضہ کیا جس سے مردوںکی بے روزگاری بڑھی۔ مردوں کی زیادہ تعداد کم تعلیم یافتہ ہے اس لیے ان کے لئے ملازمتیں نہیںاورجہاں ملازمتیں ہیں وہ سب مزدوروں یاجسمانی مشقت والی ہیں۔ سٹیو بڑلف (Steve Biddulp) نے مغربی معاشروںکے بعض دلچسپ حقائق بیاںکئے ہیں۔وہ کہتاہے:
۱۔ شرح اموات سے پتہ چلتاہے کہ مردعورت سے اوسطاً چھ سال پہلے مرجاتاہے۔
۲۔ مرد عام طور پرقریبی تعلق قائم رکھنے میںناکام رہتاہے۔کیونکہ چالیس فیصد شادیاں ناکام ہوتی ہیں اورسترفیصد معاملات میں عورت طلاق کامقدمہ دائر کرتی ہے۔
۳۔  بیروزگاری میںمردوں کی شرح سترفیصدہے۔
۴۔  بارہ سے ساٹھ سال کی عمر میں مرنے والوں کی بڑی وجہ خودکشی ہے۔
۵۔  1996ء؁ میںبرطانیہ میںچھ ہزار خودکشیاں ہوئیں جن میں پچھتر فیصد مردتھے۔  (بحوالہ :اسلام کامعاشرتی نظام)
  خودانحصاری کاغرور:۔اللہ نے مردوعورت کوایک دوسرے کامعاون اورباہمدگر وابستہ بنایاہے۔ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور مل کی نئی تخلیق اورنشوو نماکاسامان پیداکرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے رفیق اورمحب ہیں، رقیب نہیں ۔تحریک نسائیت (Feminism) نے غضب ڈھایا کہ عورت کوخودانحصاری کی راہ پرچلادیا۔ مردکے خلاف مہم کے پیچھے بھی یہی نفسیات کام کررہی ہے۔عورت اورمردتواپنے لئے تسلی کاکوئی اورسہارا ڈھونڈلیتے ہیں لیکن بچوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ وہ فلاحی اداروں کی نذرہوجاتے ہیں جہاں وہ کئی مصائب کاشکار ہوتے ہیں اوریوں معاشرے کوایسے شہری میسرآتے ہیں جودماغی طورپر
 غیرمتوازن ،نفسیاتی طورپرالجھاؤ کاشکار اورمعاشرتی طورپرناقابل قبول ہوتے ہیں ۔اقبال ؔ نے ٹھیک ہی توکہاتھا   ؎
دہرمیں عیش دوام آئین کی پابندی میںہے
موج کی آزادیاں سامان شیون ہوگئیں 
تحریک حقوق نسواں کی ساری کوششوں اورمحنت کے باوجود حالات بدستور ویسے ہی ہیں یا اورخراب ہوئے ہیں؟دراصل معاشرے کابرتاؤ ،اس کازاویۂ نگاہ ،عورتوں کے بارے میں اس کی سوچ جب تک بنیادی طورپرتبدیل نہیں ہوتی ہے یہ استحصال ، مظالم اور تشدد برقراررہیں گے ،آخرجہاں مغربی معاشرے نے عورت کوپہلے سے ہی کمتر مان لیاہواورمذہب یاعقیدے سے بھی اس مفروضے کوتقویت ملتی ہو ،وہاںیہ کیسے ممکن ہے کہ عورتوں کواپنی حیثیت یااپنا مقام مل جائے؟آج جبکہ حالات بے قابوہوگئے ہیں، یہ فطری ہے کہ عورتیں ،جن کواب اس مغربی معاشرے میں گُھٹن سی محسوس ہورہی ہے، کوئی ایسی راہ ضرور تلاش کریںجہاں انہیں اپنا اصل مقام حاصل ہو۔مختلف افکارونظریات سے واقفیت ہرایک کوحاصل ہے ۔لوگوں کے رہنے سہنے کااندازان کی تہذیب وثقافت اب ہرایک کومعلوم ہوچکاہے۔ ایسے میں اسلام کانظام حیات اب بھی یورپی ممالک میںسب کے لئے دلچسپی کامرکز ہے۔ا س نظام حیات کاآزدانہ مطالعہ کرنے والوں کی کثرت عورتوں کی ہے اوراس کواپنانے میںبھی صنف نازک ہی پیش پیش ہیں۔ ایک حالیہ مثال محترمہ میٹسن (Ingvid Mattson) کی ہے جو ISNA(اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ ) کی سابقہ صدرتھیں۔ یہ پہلی نومسلمہ ہیں جواس مقام پر فائز ہوئی ہیں۔ ان کارہنے سہنے کاانداز،پردے پران کے خیالات اورعمل،اسلام کاتحقیقی ومطالعہ سب کچھ اتناٹھوس ہے کہ دنیاوالوں کے سامنے اسلام کی برتری پیش کرنے میں انہیںذرابھی جھجک نہیں(بحوالہ دعوت 2006)۔ اس سے پہلے طالبان کی قیدی ، بی بی سی کی نامہ نگار ایوان ریڈلی کی مثال بھی سامنے ہے۔ یہ اوران جیسی دوسری خواتین جنہیںصحیح سمت مل گئی،صراط مستقیم جنہوںنے دنیامیںپالیا،اسلام اور تحریک اسلامی کے لیے انمول توہیں ہی،ساتھ ہی تحریک آزادیٔ نسواں کے مقابلے میںاسلامی نظام رحمت کے لئے ٹھوس دلائل بھی پیش کررہی ہیں۔