عمیرہ احمد

ناول  ادب کی ایک انتہائی اہم صنف ہے جو دورِ نو میںانسانی زندگی کی مختلف گھتیوں کو سلجھانے کا ایک اہم ’’ٹانک‘‘ ہے۔ ناول انگریزی ادب کے راستے اُردو میں دَر آیا ہے ۔اُردو میں ناول نگاری کا فن آج اپنے جوبن پر ہے۔ گذشتہ ایک صدی سے اُردو میں سینکڑوں ایسے ناول معرضِ وجود میں آچُکے ہیں کہ جن کو دنیا کے بہترین ناولوں میںشمار کیا جا سکتا ہے۔ اردو ناول نگاری کے فن کو جہاں مرد ناول نگاروں نے پروان چڑھایا وہیں خاتون ناول نگاروں نے بھی اس کی بھر پور آبیاری کی ہے۔ گوکہ مردوں کے مقابلے میں خواتین ناول نگار بعد میں منظر ِ عام پر آئیں ۔ لیکن اُردو ناول نگاری کے اِس فن کو بامِ عروج تک پہنچانے میں خواتین ناول نگار بھی مرد ناول نگاروں کے ہم پلہ ہیں۔
اُردو میں خاتون ناول نگاروں نے بیسویں صدی کے آغاز میںناول لکھنا شروع کیے اور تب سے یہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اُردو کی کئی خاتون ناول نگار آج بین الاقوامی شہرت کی مالکہ ہیں جنھوں نے ناول کے فن اور موضوع کو وسعتیں بخشیں ۔ ماضی میں اگر رشیدہ نساء، نذر سجاد حیدر، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، عطیہ پروین، مسرور جہاں، خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی، صغریٰ مہدی، بانو قدسیہ وغیرہ جیسی خاتون ناول نگار اس صنف میں خدمت کا کام انجام دے چُکی ہیں ۔ تو دورِ حاضر میں یہی کام نمرہ احمد، فرحت اشتیاق، سمیراحمد، مہوش افتخار، سمیرا شریف طور، عفت سحر طاہر، سائمہ اکرم چودھری، عالیہ مرہ جیسی خاتون ناول نگار بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔
اُردو ادب میں عصرِ حاضر کی خاتون ناول نگاروں کی اس فہرست میں عمیرہ احمد بھی ایک معتبر اور غیر معمولی نام ہے۔ عمیرہ احمد ۱۰؍ دسمبر۱۹۷۶ء کو پاکستان کے مشہور شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئی۔ انھوں نے مُرے کالج سیالکوٹ سے انگریزی زبان کی درس و تدریس سے اپنے کیریر کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ بعد ازاں تحریری کاموں پر پوری طرح سے توجہ دینے کے لیے ملازمت چھوڑ دی۔ 
عمیرہ احمد نے بطور مصنفہ اپنے کیریر کا آغاز ۱۹۹۸ء میں کیا۔ ان کی ابتدائی کہانیاں ماہانہ اردو ڈائجسٹوں کی زینت بنیں اور بعد ازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں۔ عمیرہ احمدکم وبیش۲۰ ؍ ناولوں کی خالق ہیں جن میں بیشتر ناول قبول ِ عام حاصل کر چکے ہیں ۔عمیرہ کے کئی ناولوں،میری ذات ذرۂ بے نشان، تھوڑا آسمان، لاحاصل، شہرِ ذات، مات، زندگی گلزار ہے، اڑان، وجودِ لاریب وغیرہ، کوپاکستان میں ڈراموں کی صورت میںٹیلی ویژن چینلوں پربھی پیش کیا گیا جنھیں ناظرین کی جانب سے بے حد سراہا گیا۔ٹیلی ویژن ڈراموں کے شایقین میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے یہ ڈرامے نہ دیکھے ہوں۔
عمیرہ احمد کی کہانیوں کا پلاٹ اور موضوع جیتے جاگتے سماج کے نوبہ نو مسائل پر مبنی ہوتا ہے۔ عمیرہ کی کہانیاں زمانۂ حاضر(برصغیر کے تناظر میں) کی تہذیب و ثقافت کی عکاس ہیں۔ عمیرہ کا رجحان مذہب کی جانب غالب ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میںایک پاکیزہ ماحول پیدا کرکے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح قارین کے دل و دماغ کو معطر کرتی ہیں۔ عمیرہ کی کہانیوں کو بعض ناقدین’’ مذہبی پلندہ‘‘ قرار دے کر اُن کو ایک ادیبہ کے بطور قبول کرنے سے ہچکاتے ہیں۔لیکن فی الوقت اُردوحلقے میں وہ جس مقبولیت کی حامل ہے وہ بذاتِ خود اِس بات کی دلیل ہے کہ عمیرہ پاپولر فکشن کاایک معتبر نام ہے۔لاریب عمیرہ کی سوچ اور فکر سے کچھ ناقدین کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ کسی بھی طرح ان کے کام اور فن کی اہمیت کو کم تر نہیں بناتا۔خیر یہ ایک لگ موضوع ہے ۔ لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ عمیرہ کی تحریروں نے ایک وسیع حلقے خصوصاً نوجوانوں کو اُردو ادب کے مطالعہ کی جانب مائل کیا ہے۔ذیل میں عمیرہ کے چند مقبول ناولوں کا مختصر تعارف پیشِ خدمت ہے:
پیرِ کامل ؐعمیرہ احمد کا شاہکار ناول ہے۔ ابتداً یہ قسط وار خواتین ڈائجسٹ کراچی میں چھپتا رہا ۔ بعد ازاں ۲۰۰۴ء میں اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا جسے قارئین میں بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ پیر کاملؐ کا موضوع ’’ختم ِ نبوت‘‘ یعنی ردِقادیانیت ہے جو اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔کہانی کی مرکزی کردار’’ امامہ ہاشم‘‘ ہے جو ایک قادیانی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔ امامہ پر جب ختم نبوت کی حقیقت آشکار ہوتی ہے تو وہ حضور ؐ کی محبت میں اپنے گھر اور خاندانی رشتوں کو ترک کرکے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے داخل ِ اسلام ہوتی ہے۔ عمیرہ نے پیر کامل میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کی ترجمانی کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔وہ انتہائی آسان لفظوں میں زندگی کو احسن طریقے سے گزارنے کا درس دیتی ہے:ـ
’’ مومن عیاش نہیں ہوتا،نہ تب جب وہ رعایا ہوتا ہے اور نہ تب جب وہ حکمران ہوتا ہے، اس کی زندگی کسی جانور جیسی زندگی نہیں ہوتی، کھانا پینا، نسل آگے بڑھانا اور فنا ہو جانا یہ کسی جانور کی زندگی کا انداز تو ہو سکتا ہے، مگر کسی مسلمان کا نہیں۔‘‘(پیر کامل،ص۳۶۷)
’’ آبِ حیات‘‘ پیر کاملؐ کا دوسرا حصہ ہے۔ ناول کا بنیادی موضوع’’ سود‘‘ ہے۔ سود وہ فتنہ جسے نبی کریمؐ نے اپنے آخری خطبے حجتہ الودواع میں حرام قرار دیتے ہوئے اس کی بیخ کنی کا حکم دیا تھا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان واضح احکامات کے باوجود آج مسلمانوں کی اکثریت بالواسطہ اور بلاواسطہ سودی کاروبار کا حصہ بنی ہوئی ہے۔
’’ سود جن لوگوں کے خون میں رزق بن کر دوڑنے لگ جائے وہ سود کو مٹانے کا کبھی نہیں سوچے گے۔‘‘ (آبِ حیات، ص۲۵۹)
’’سود ‘‘ کے موضوع کے علاوہ ’’ آبِ حیات‘‘ میں سالار سکندر اور امامہ ہاشم کی ازدواجی زندگی کا عکس بھی نظر آتا ہے۔
امر بیل بھی عمیرہ احمد کے قلم سے نکلا ہوا ایک شاہ کار ناول ہے۔ یہ ایک رومانوی ناول ہے جس کے تانے بانے پاکستان کی سول سوسائٹی اور اِن کے طرز زندگی کے تحت بُنے گئے ہیں۔ ناول میں سول سروسزمیں ہونے والی کرپشن کا ذکر بڑے ہی مؤثر الفاظ میں کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ناول کے مرکزی کردار ’’ عمر جہانگیر‘‘ اور’’ علیزے‘‘کی محبت کی کہانی بھی ناول میںپیش کی گئی ہے ۔ ان کرداروں کی نفسیات کی ترجمانی عمیرہ نے احسن طریقے سے انجام دی ہے۔قصہ مختصر یہ کہ امربیل ایک متاثر کن اور منفرد موضوع پر لکھی گئی ایک بھرپور کہانی ہے۔
’’ عکس‘‘ عمیرہ احمد کا ہی لکھا ہوا ایک اور ناول ہے جو پاکیزہ ڈائجسٹ میں اگست۲۰۱۱ء سے دسمبر۲۰۱۲ء تک قسط وار شائع ہوا۔ یہ ناول ایک لڑکی کی زندگی کی جدوجہد کی داستان ہے۔ اس لڑکی کو بچپن میں کسی طرح نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس نے اپنی زندگی میں آنے والی ہر مصیبت کا سامنا کیا اور اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بنایا۔ ناول کا نام ’’ عکس‘‘ اس لڑکی کے غیر معمولی کردار پر ہی رکھا گیا ہے۔ عمیرہ احمد نے اس ناول کا بیک گرائونڈ بھی پاکستان کی سول سروسز سے لیا ہے۔ ناول میں بچوں کی نفسیات کا ذکر بھی بڑ ے ہی پُر اثر انداز میں کیا گیا ہے۔
’’ من و سلویٰ‘‘ عمیرہ احمد کا ایک اور بہترین ناول ہے۔ اس ناول میں عمیرہ فن کی بلندیوں پر پرواز کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔نیز اُس کی سوچ کی پختگی کا مظاہرہ بھی اس کہانی میں خوب ہوتا ہے۔ ناول کے کردار ہماری عام زندگی سے لیے گئے ہیں ، جو ہمیں اپنے ارد گرد نظر آتے ہیں۔’’ من و سلویٰ‘‘ اللہ تعالیٰ کی وہ ضیافت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پہ نازل کی تھی۔ ناول کا بنیادی موضوع رزقِ حلال ہے۔ ناول کے مرکزی کردار زینب اور شیراز ہیں۔
’’ لاحاصل‘‘ عمیرہ احمد کی تازہ تصنیف ہے جو گزشتہ سال منظر عام پر آچُکی ہے۔ اس ناول کا مرکزی موضوع اطمینانِ قلب اور سکون ہے ۔ یہ کہانی ہے خدیجہ نور کی جو اسلام قبول کرنے سے پہلے کتھرین نام کی ایک عیسائی لڑکی تھی۔ خدیجہ نور نہ صرف اسلام قبول کرتی ہے بلکہ مشکلات اور مصائب میں بھی دین پر ثابت قدم رہتی ہے۔ناول میں مصنفہ نے عورت کے جذبات کی خوف عکاسی کی ہے:
’’ دنیا عورت کے ماضی کو کبھی نہیں بھولتی، دنیا صرف مرد کے ماضی کو بھولتی ہے۔‘‘ (لاحاصل، ص ۲۳۲)
عمیرہ اللہ کی محبت کا ذکر نہایت ہی متاثر کُن الفاظ میں کرتی ہیں:
’’ دائمی محبت صرف ایک ہوتی ہے۔ ایسی محبت جسے کبھی زوال نہیں آتا اور وہ محبت اللہ کی محبت ہے، دوسری ہر محبت کی ایک موت ہوتی ہے، پہلے اس کی شدت میں کمی آتی ہے پھر وہ ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ (لا حاصل، ص ل، ۲۰۳)
ناول کا ہر لفظ عمل کی طرف اُکساتا ہے۔
’’ دربارِ دل‘‘ عمیرہ احمد کے قلم سے تحریر کردہ ایک اور ناول ہے جو ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا ۔ دربارِ دل کا موضوع انسان کی اللہ سے مانگی ہوئی دعا ہے۔ ناول قاری کو گہری سوچ میں مبتلا کرتا ہے اور اُسے یہ پیغام ملتا ہے کہ دُعا بھی سوچ سمجھ کر مانگنی چاہیے کیونکہ بعض دفعہ ہماری دُعا ہمارے لیے خیر کی جگہ شر لے آتی ہے۔ بطاہر یہ ایک رومانی ناول نظر آتا ہے لیکن کہانی کے کرداروں کے ذریعے مصنفہ نے اپنا پیغام بھرپور طریقے سے اپنے قارئین تک پہنچایا ہے۔
’’میری ذات ذرۂ بے نشان‘‘ بھی عمیرہ کا ایک لازوال ناول ہے جو دسمبر ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کو ڈرامائی شکل بھی دی گئی جو کہ کافی مشہور بھی ہوا۔ناول کا مرکزی موضوع ’’ تہمت ‘‘ ہے اور ساتھ ہی بنیادی تھیم یہ بھی ہے کہ خدا کے کلام یعنی قرآن کی توقیر کرنا ہر کسی پر فرض ہے۔خدا کے اس کلام کو کسی کی سچائی یا جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے گواہ بنانے کی بجائے اپنی زندگی اور سوچوں کو اس کے تابع کر لینا چاہیے ورنہ انسان ہمیشہ گھاٹے میں ہی رہتا ہے،یہی اِس ناول کانفسِ مضمون ہے۔
ایمان اُمید اور محبت ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو محبت اور مذہب کے درمیان کشمکش کا شکار ہوجاتی ہے اور جس کا منگیتر اُسے گناہ کرنے پر اُکساتا ہے لیکن اس کا ضمیر اور اچھی تربیت اس کو اس گناہ کے ارتکاب سے باز رکھتی ہے۔ وہ لمحہ جب اس لڑکی کو اپنی محبت اور ایمان میں سے کسی کو چننا ہوتا ہے تو اس کے باپ کی بتائی ہوئی باتیں اور نصیحتیں اس کو یاد آتی ہے ۔اس قربانی کے عوض اللہ تعالیٰ اس کو حقیقی محبت سے نوازتا ہے۔
متذکرہ بالا ناولوں کے علاوہ بھی عمیرہ احمد نے کئی ناول لکھے ہیں جن میں حاصل، زندگی گلزار ہے، تھوڑا سا آسمان، حسنہ اور حسن آرا، واپسی، میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے، سحر اک استعارہ ہے، حرف سے لفظ تک اور شہرِ ذات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔آج کل عمیرہ کا تازہ ناول ’’ الف‘‘ قسط وار شائع ہورہا ہے۔ اس ناول پر پاکستان میں ڈرامہ بھی بن رہا ہے۔ ناول ’’الف ‘‘کے بارے میں عمیرہ احمد خود یوں رقم طراز ہیں:ـ
’’ بچپن میں اردو کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی۔ایک بچہ اللہ کے نام خط لکھتا ہے جو پوسٹ آفس والوں کے ملتے ہیں تو پوسٹ آفس والے اس غریب اور یتیم بچے کو اللہ کی طرف سے خط اور پیسے بھیجنا شروع کرتے ہیں۔ وہ کہانی مجھے ہمیشہ یاد رہی کیونکہ اللہ سے میرے سوال اور جواب ہی آپ بہت کی طرح ہمیشہ چلتے رہتے ہیں اور بہت دفعہ اللہ کو خط لکھنے کو دل چاہتا ہے۔یہ بتانے کے لیے مجھے اس سے محبت ہے…ویسی محبت اور کسی سے نہیں… تو ’’ الف‘‘ اسی محبت سے میری دائمی محبت کے نام…‘‘
 دورِ حاضر کے اس پُر فتن دورمیں عمیرہ احمد کے ناولوں کا مطالعہ سماج کی اصلاح اور اخلاقی اقدار کے فروغ کے ضمن میں فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان ناولوں میںقارئین کے لیے تفنن طبع کا سامان بھی موجود ہے اور اخلاقیات سے بھرپور سینکڑوں دروس،جس کی انسانیت کو آج سب سے زیادہ ضرورت ہے، بھی ان ناولوں کا حصہ ہیں۔آج عمیرہ احمد کو سماج کے علمی طبقے کے ایک وسیع حلقے میں مقبولیت حاصل ہے۔ عمیرہ معاشرے کی اصلاح میں ایک مثالی کردار کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ضرورت فقط اس بات کی ہے کہ عمیرہ کو بغیر کسی تعصب اور نیک نیتی سے پڑھا جائے۔ 
