عمل

موسم کے بدلتے ہی زندگی کے رنگ بدل جاتے ہیں۔ ہر گھر کا طریقہ اور ترتیب بدل جاتی ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں اور کھانے کا طریقہ بدل جاتا ہے۔ بہار کے آتے ہی گرم کپڑوں کی جگہ ہلکے اور کاٹن کے کپڑے لے لیتے ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں کے پردے بدل جاتے ہیں۔ کمروں کے دیواروں کا رنگ اور فرش بدل جاتا ہے۔ پالیتھین سے ڈھکی چھپی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔ لیکن عمل کے گھر کا موسم اور ترتیب کبھی نہ بدلی۔ کیونکہ گھر میں کسی ایک کی تکلیف پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ 
کچی اینٹوں کے دو کمرے، تنگ تاریک غسل خانہ، چھوٹی سی رسوئی اور سُونا سُونا مختصر سا صحن۔ گھر کی بوسیدہ کھڑکیاں اور دروازے، بے جان اور بے رنگ دیواریں، پرانا بستر اور کمبل، بوسیدہ چٹائیاں، اسی ماحول میں عمل نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ لیکن عمل کو اپنا یہ گھر کسی کشادہ حویلی سے  کم نہ لگتا تھا۔ عمل اس گھر میں اپنے بہن بھائی اور والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ قسمت زیادہ مہربان نہ تھی۔ انہیں آرام دہ اور آسان زندگی نہ ملی تھی لیکن عمل اور اس کے بھائی بہن کو اپنے ابا اور امی کی طرف سے شفقت محبت اور بھرپور توجہ مل رہی تھی۔ عمل کے ابا گاؤں میں ہی آٹے کی چکی چلاتے تھے۔ گاہک بھی گنے چنے تھے۔ ابا مہینے میں کئی بار چکی بند کر کے مزدوری کرنے جاتے تھے۔ ابا خاموشی سے زندگی کی گاڑی دھکیل رہے تھے۔ عمل کی بڑی بہن عالیہ لا ابالی، لا پرواہ اور بے مروت سی لڑکی تھی جبکہ عمل محبت کی مٹی سے گندھی مضبوط ، ذمہ دار اور سنجیدہ طبیعت کی لڑکی تھی۔ ان کا چھوٹا بھائی آزاد، جو کہ گھر کے ایک کونے میں بستر پر پڑا رہتا تھا، ہماری طرح کھاتا پیتا اور سانس بھی لیتا تھا لیکن جسمانی طور پیدائشی ناخیز اور چلنے پھرنے کی صلاحیت سے قاصر تھا۔ اس کی زندگی دوائیوں کے سہارے گزر رہی تھی۔ ماں ہر مہینے کم سے کم ایک ہفتہ اس کے ساتھ ہسپتال میں گزار کر آتی تھی۔ وہ ہر وقت آزاد کے دبلے پتلے وجود کو کمبل اور رضائی کے سہارے بٹھانے کی ناکام کوشش کرتی تھی۔ جس سمت اس معصوم کو رکھتے تھے اسی سمت پڑا رہتا تھا۔ اس کی طرف سے نہ کوئی فرمائش،نہ کوئی شرارت نہ ہی کوئی ہلہ گلہ،نہ معصوم مسکراہٹ نہ کوئی اشارہ ۔ صرف اور صرف خاموشی۔ البتہ کبھی کبھار خوشی اور افسردگی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہوتے تھے۔ اس ننھے سے گنچے کو دیکھ کر ابا امی کا دل نہ ہنسے کو کرتا تھا نہ رونے کو اور نہ ہی کچھ کہنے کو۔ ان دونوں کو آزاد کی فکر اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ وہ دونوں اس کو لے کر بہت دکھی تھے۔ امی ہمیشہ کہتی تھی میرا آزاد پانی کے ایک بلبلے کی طرح ہے۔
 ہر انسان کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو، یہ ضروری نہیں۔ باغ کے سارےغنچےپھل پھول کر بہار کی رونق بڑھائیں یہ ضروری نہیں۔ ننھی سی عمل اپنی سنجیدہ اور حساس طبیعت کے باعث ہمیشہ اپنے بھائی اور گھر کے حالات کے متعلق گم صم ہو کر سوچتی رہتی تھی۔
گھر میں تنگ دستی ہونے کے باوجود میں اور آپا سرکاری سکول میں زیر تعلیم تھیں اور نزدیکی درسگاہ سے قرآن شریف کی تعلیم بھی حاصل کر رہی تھیں۔ ہماری دنیا جھیل کی طرح خاموش۔ زندگی رکے رکے قدموں سے کھسک رہی تھی۔ ابا کی اچانک موت سے اس جھیل میں طوفان آیا۔
ابا کے جانے کے بعد پتہ چلا کہ کتنی آسانی سے انہوں نے اس گھر کو توازن کے ساتھ سنبھال کے رکھا تھا۔ ابا کے چلے جانے کے بعد امی نے بچوں اور گھر کا بوجھ سمیٹ کر اپنے کندھوں پر لے لیا۔ اپنی اور ہماری دو وقت کی روٹی اور آزاد کی دوائی کے لیے اپنی پرواہ کئے بغیر کولہوں کے بیل کی طرح کام کرنے لگی۔ ہمیں کبھی بھی ابا کی کمی محسوس ہونے نہ دی۔
محنت مشقت کر کے ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت کے لیے چار انسانوں کی زندگی کا بار اٹھانا کوئی آسان کام نہیں۔ امی کی زندگی میں دن اور رات کا آرام حرام ہو گیا۔ محنت اور پریشانی سے امی اندر ہی اندر گیلی لکڑی کی طرح سلگنے لگی۔ بھری جوانی میں جیسے بڑھاپا آ گیا۔ اسکی جوانی کو دیمک لگ گئی۔ فکر غم اور تکلیف سے آج تک دنیا میں بنی آدم کبھی نہ جیت پایا ہے۔ امی کو محنت اور غم اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا گیا۔ اور وہ لاغر اور کمزور ہوگئی۔ وہ ایک بے درد رات تھی۔ جب امی تیز بخار میں مبتلا ہو کر ہم سب کو اکیلے چھوڑ کر چلی گئی۔ جاتے جاتے اپنے ننھے کانچ کے کھلونے کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
امی ابا کے چلے جانے کے بعد ہماری زندگی اور دنیا ہی بدل گئی۔ بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی۔سب سے پہلے ہم دونوں بہنوں کی پڑھائی چھوٹ گئی۔ آپا بالکل لا پروہ اور بے فکر ہو گئی۔ جب تک امی زندہ تھی ہمیشہ آپا کو سدھرنے کیلئے کہتی تھی۔ امی کے چلے جانے کے بعد نہ کوئی فکر کرنے والا رہا نہ ڈانٹنے والا اور نہ پالنے والا۔ جن بچوں کے ماں باپ گزر جاتے ہیں وہ بالکل بے یارومددگار ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہمدردوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے پرائے تعزیت کے لیے آئے ہمدردی جتا کر اپنی اپنی رائے اور مشورے دے کر چلے گئے۔ مڑ کر کسی نے نہ دیکھا۔ سیانے کہتے ہیں ماں کے رشتہ دار ماں کے زندہ ہونے تک اور باپ کے رشتہ دار باپ کے زندہ ہونے تک ہوتے ہیں۔
ابا اور امی کے چلے جانے کے صدمے سے اور گھر کی حالت دیکھ کرعمل ٹوٹ گئی۔ اس کی دنیا ہی جیسے ختم ہو گئی۔ لیکن اس وقت ان کی زندگی میں پڑوس کی مہرو خالہ فرشتہ بن کر آئی۔ مہرو خالہ نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں حوصلہ دیا۔ انکی ڈھارس بندھائی۔ اُن پر یہ باور کیا کہ جب جب بندہ مایوس ہوا ہے تو اللہ کی رحمت ضرور نازل ہوئی ہے۔ خالہ نے انہیں سمجھایا کہ دنیا کے دکھوں اور تکلیفوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ تمہیں اپنی بھائی کی خاطر اپنے دکھوں اور غموں کو اپنے دلوں میں دفنانا ہوگا۔ مشکل حالات کا مقابلہ کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ مایوسی اور ماتم سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ جو نصیب میں ہوتا ہے وہ مل کے رہتا ہے۔ اس معصوم بھائی کی خاطر ہمت سے آگے بڑھو جو ایک پانی کا قطرہ اپنے منہ میں ڈالنے سے قاصر ہے۔ آپ کے علاوہ اس کا دنیا میں کوئی ہمدرد اور اپنا نہیں ہے۔ اگر آپ مضبوط رہو گے، آپس میں جڑ کے رہو گے تو اللہ بھی آپ کی مدد ضرور کرے گا۔ مہرو خالہ نے آبدیدہ ہوکر انہیں گلے لگایا۔ چھوٹی سی عمل مہرو خالہ کے دامن میں منہ چھپا کر بہت دیر تک روتی رہی ۔ خالہ کی سنجیدہ باتوں سے عمل کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا، اس کی سوچ بدل گئی اور وہ اپنا غم بھول گئی۔ اس کی سمجھ میں اللہ کا فیصلہ آگیا۔ مہرو خالہ اپنا فرض نبھا کر بہت بڑا کام کر گئی۔ چھوٹی سی عمل کو جینے کی راہ مل گئی۔ رفتہ رفتہ زندگی ایک بار پھر اپنی راہ پر گامزن ہو گئی۔ ابتدائی دن بہت ہی مشکل اور دشوار گزر ے۔مہرو خالہ نے ان کی بھر پور مدد کی۔ اس کی مدد سے عمل نے سلائی کا بہترین کام سیکھ لیا۔مہرو خالہ نے قرضِ حسنہ دے کر سلائی کی مشین دلانے میں اس کی مدد کی۔ اس طرح عمل نے اپنے ہی گھر میں اپنا کام شروع کیا۔ لوگوں کے کپڑے سینے کے ساتھ ساتھ عمل نے آپا کی نسبت اپنے گھر کو سمیٹ لیا۔ محنت کی کمائی ہاتھ  آتے آتے اس کا حوصلہ بھی بڑھ گیا۔ اس طرح اس نے خود داری سے جینا بھی سیکھ لیا۔
دور پرے کے ایک چاچا جی تھے ۔ وہ  ہمیشہ خیر خیریت پوچھنے ضرور آتے تھے۔ کچھ رقم بھائی کے ہاتھ میں دے کر چلے جاتے تھے۔ چاچا جی نے اپنے لیے جنت کمائی۔ کچھ عرصہ بعد آپا کے لئے ایک رشتہ لے کر آئے۔ اس خود غرض اور لالچی دنیا میں بغیر کسی لالچ کے خود خرچہ اٹھا کر آپا کی شادی کرادی۔ شاید چاچا جی آپا کے مزاج سے واقف ہو چکے تھے۔
 شادی کے کچھ عرصہ بعد آپا اپنے شوہر کے ساتھ شہر ہجرت کر گئی۔ اس کا شوہر بھی آپا کی طرح ہی لاپروا ثابت ہوا۔ ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے کی بجائے وہ دونوں شہر کی بھیڑ میں گم ہو گئے۔ اڑتے اڑتے یہ خبر آئی کہ آپاکا شوہر شہر میں کسی  امیر آدمی کے یہاں نوکری کرنے لگا ہے اور خود بھی ترقی کر رہا ہے۔ جانے ایسا کون سا کاروبار کرتے تھے۔ انہوں نے گاؤں سے بالکل ہی رشتہ توڑ دیا۔آپا کایوں چلے جانا میرےلئے کسی صدمے سے کم نہ تھا۔
عمل اور آزاد کے درمیان محبت اور خون کے رشتے کے علاوہ کوئی اور رشتے کے ڈور تھی جس نے ان کو مضبوطی سے باندھ کر رکھا تھا۔ یہ رشتہ روز بروز مضبوط ہوتا گیا۔ عمل نے اپنے بھائی کو بڑے آرام اور حفاظت سے رکھا۔ عمل اپنی دنیا میں اطمینان سے رہنے لگی۔ محنت مشقت اور بھائی کی دیکھ بھال کے علاوہ خدا کی عبادت کرتی رہی۔عمل کے معصوم اداس چہرے پر دکھ درد اورتنہائی کے گہرے سائے نمایاں ہونے لگے۔ غم اس کی اداس آنکھوں میں ٹھہر سا گیا تھا۔ زندگی کے دن گن گن کر گزرنے لگے۔ایسے ہی ڈھیر سارا وقت گزر گیا۔
ایک دن عمل ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر بھائی کو کھانا کھلانے کے بعد دوائی پلانے لگی تو دروازے پر دستک ہوئی۔ عمل نے دروازہ کھولا سامنے آپا کو پایا۔ عمل ایک طرف ہٹ گئی۔ آپا کو اندر آنے کا راستہ دیا۔ سامان سے لدی پھندی آپا مدہم قدموں کے ساتھ اندر آئی۔ پھل فروٹ، کپڑے، جوتے چپل، گوشت، بسکٹ کیک اور بہت سارا سامان اپنے ساتھ لائی تھی ۔ آپا کا قیمتی لباس، دلفریب مہک، بھرے بھرے ہاتھوں میں سونے کے موٹے کنگن، کانوں میں وزن دار سونے کے جھمکے، ہاتھوں میں انگوٹھیاں، گلے میںدمکتی چین اور آپا کا فربہ بدن اور یہ ٹھاٹ باٹ۔ آپا کوئی مہارانی لگ رہی تھی۔ اس کے لب و لہجہ پر شہر کا رنگ پوری طرح حاوی ہوچکا تھا۔ اتنے برس کے بعد اچانک آپا کو اپنے خون کے رشتے یاد آئے۔ عمل کو یہ بدلاؤ اور یہ مہربانی کچھ ہضم نہ ہوئی لیکن وہ زبان سے کچھ نہ بولی۔  رسمی گفتگو کے بعد عمل یہ جان کر حیران ہوئی جب آپا نے بتایا کہ وہ دس پندرہ دنوں کے لیے رہنے آئی ہے۔ عمل سوچنے لگی کہ غریب بہن اور بیمار بھائی کے پاس کس چیز کا مزہ لینے آئی ہے۔  شہر میں عیش عشرت کے ہزاروں سامان ہوں گے۔ کچھ دن گزرنے کے بعد آپا کی زبان پر اصل بات آہی گئی، جب باتوں باتوں میں یہ بتایا کہ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ خون کے رشتوں سے تعلق توڑنے سے رشتے تھوڑی ہی ختم ہوتے ہیں۔اپنوں  کو ہی اپنوں کی فکر ہوتی ہے، اس لئے میں تیرے لئے بہت ہی اچھا رشتہ لے آئی ہوں۔عدنان کے مالک کی بیوی کا انتقال دو مہینے پہلے ہو چکا ہے۔ اس کے بچے شادی شدہ ہیں اور الگ الگ رہ رہے ہیں۔ وہ آزاد کی ذمہ داری لینے کے لئے بھی تیار ہے۔ وہ آزاد کا داخلہ کسی اچھے سے یتیم خانے میں کرا کے ہر مہینے اس کی فیس ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم نے ہر بات اس کے ساتھ طے کی ہے۔ وہ کافی امیر آدمی ہے۔ تو اس کے ساتھ بہت خوش رہے گی۔ وہ تجھے مہارانی کی طرح رکھے گا۔ آپا نے عمل کی کلائی میں پہنے کالے لوہے کے کڑے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
نہیں آپا جس بھائی کو آپ شائد میرے لئے بوجھ سمجھتی ہیں وہ میرے لئے بوجھ نہیں بلکہ بہت ہی اہم ہے۔ اس  کے درد اور تکلیف کو میں اپنے اندر لے کر بانٹ تو نہیں سکتی ہوں لیکن میں اُسے محسوس کرتی ہوں۔ اس کے درد کی وجہ سے میرا دل درد سے بھراہوا ہے۔ اس کی طرف دیکھ کر خدا کی خدائی یاد آتی ہے۔ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔ پروردگار نے شاید اسی لئے دنیا میں رشتے بنائے ہیں تاکہ ہم ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹ کر آپس میں جڑے رہیں۔ باقی رہی خوشیوں اور غموں کی باتیں وہ بھی پروردگار کے اختیار میں ہے کہ کس کی جھولی میں خوشی اور کس کی جھولی میںتکلیف بھر دے۔  ہمیں ہر حال میں  خوش رہنا چاہیے۔ الحمدللہ میں اپنی زندگی میں خوش ہوں عمل نے سنجیدگی کے ساتھ واپس جواب دیا۔
جانے آپا کی خود غرضی تھی یا ہمدردی وہ ایک بار پھرعمل کو سمجھانے لگی کہ تیری ساری زندگی اس کال کوٹھری میں گزر کر جوانی کے دن نکل جائیںگے تو پھر کون اپنائے گا۔ قسمت بار بار دروازے پر دستک دینے نہیں آتی ہے۔ ذرا باہر جھانک کر دیکھ، باہر کتنی حسین اور خوبصورت زندگی تیرا انتظار کر رہی ہے۔ اس زندگی کو اپنائےگی توسارے دکھ درد بھول جائے گی۔ اس نامراد بھائی کی خدمت کر کے کیا ملے گا۔ آپا نے اس سے قائل کرنے کی بہت کوشش کی۔جس بھائی کو تم نامراد سمجھتی ہو وہ فرشتہ ہے۔آپا میں بہت خوش نصیب ہوں میرے حصے میں یہ فرشتہ آیا۔ اس کے ہوتے ہوئے میں شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ہوں۔ میں اس کانچ کے کھلونے کو اپنے آپ سے نہ الگ کر سکتی ہوں۔ نہ اس کے لئے کبھی کوئی سمجھوتا کر سکتی ہوں نہ ہی کوئی کوتاہی کیونکہ میں اس کے بغیر نہ خوش رہوں گی نہ ہی جی پاؤ گی۔ یہی میرا آخری فیصلہ ہے۔ عمل کا لہجہ مضبوط تھا۔ اس طرح عمل نے یہیں پر موضوع ختم کرکے آپا کو لاجواب کردیا۔  دوسرے دن  آپا واپس شہر چلی گئی۔
عمل امیدوں، خواہشوں، عیش، عشرت، امیری غریبی اور دنیا کے رنگوں سے بے نیاز ہو کر اپنا فرض نبھاتی رہی۔ اپنے بہن بھائی سے سب کو محبت ہوتی ہے لیکن جو مثال عمل نے قائم کی وہ بے مثال تھی۔ اکیلے اکیلے لمبی مسافت طے کر کے عظیم مقام پر پہنچ گئی، ایک مثال بن گئی۔ اس کی ذمہ داری پوری ہوئی۔ اس کا معصوم بھائی آزاد اپنے حصے کا آب و دانہ  چکھ کر اپنے حصے کا درد سہ کر جس خاموشی کے ساتھ دنیا میں آیا تھا اس خاموشی کے ساتھ اپنا وقت پورا کرکے واپس وہاں چلاگیا، جہاں ہم سب کو ایک ایک کر کے ضرور جانا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمل کی اپنی دنیا بھی آباد ہو گئی۔ آج اسے دنیا کی تمام خوشیاں مل گئی ہیں۔اسے اپنے بھائی کے بغیر ایک خالی پن محسوس تو ہو رہا ہے لیکن جب جب عمل اپنی خوشیوں کے بیچ ہوتی ہے تو اسے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ابا امی اور آزاد دورکھڑے کہیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔
���
پہلگام، اننت ناگ،رابطہ:۔ 8713892806، 9419038028