عمر فروخ، عقاد اور طہ حسین

  عمر  فروخ (۱۹۰۶ء- ۱۹۸۷ء)طہ حسین (۱۸۸۹ء-۱۹۷۳ء) عباس محمود عقاد (۱۸۸۹ء -۱۹۶۴ء) عربی کے نامورمعاصر ادیب  تھے۔طہ حسین اور عقاد مصری تھے تو عمر فروخ لبنانی۔ طہ حسین نے مصر کے علاوہ پیرس کی سوربون یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی تو عمر فروخ نے جرمنی سے ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ جب کہ عقاد صرف ابتدائی درجات تک تعلیم حاصل کرسکے تھے مگر انہوں نے ایک سیلف میڈ ادیب کی حیثیت سے عربی ادب میں اپنا نام آب زر سے لکھوایااور اپنے علمی ورثے سے عربی ادب کو بے انتہا مالا مال کیا۔
عمر فروخ اور عقاد میں ایک مضمون کی وجہ سے عرصے تک کھٹ پٹ رہی۔ہوا یوں کہ عمر فروخ نے ابن الرومی کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے عقاد پر ہلکی سی تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ایسالگتا ہے کہ عقاد اور بستانی نے ابن الرومی کے سماجی حالات کو مد نظر نہیں رکھا۔ بعد میں ان کی اس تحریر کو پڑھ کر عقاد نے مجلہ الرسالہ (شمارہ ۲۳/۷/ ۱۹۴۶ء)  کے اداریہ میں عمر فروخ کو موضوع بحث بنایا اور ان پر کم وبیش ۷۶ سطریںقلمبند کیں۔الرسالہ مصر کے عظیم جرنل میں شمار کیا جاتا تھا مگر عمر فروخ نے الرسالہ کے اداریے اور عقاد کی تحریر پر کوئی جواب نہ دے کر سکوت اختیار کیامگر دونوں میں ایک طرح سے کم وبیش بیس سال تک تعلقات اچھے نہیں رہے۔ عمر فروخ لکھتے ہیں کہ ۱۹۶۰ء میں جب میں مصر کی مشہور علمی اکیڈمی مجمع اللغۃ العربیۃکا ممبر نامزد کیا گیا تواکیڈمی کی مختلف نشستوں میں مختلف موضوعات پر بحث ومباحثے کے دوران ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تک نہیں تھے۔اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے بغیر ہی  بات کہتے تھے مگر ایک مرتبہ یوں ہوا کہ مجمع اللغۃ العربیۃ قاہرہ کے صدر ڈاکٹر طہ حسین نے تجویز رکھی کہ عربی کے حروف تہجی میں ایسے حروف کا اضافہ کیاجائے جن کے ذریعے فرنچ کے وکٹر ہیوگو جیسے نام لکھنے میں آسانی ہو۔عمر فروخ نے کہا کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کچھ حروف کے اضافے سے وکٹر ہیوگو (فیکتو ہیوجو) جیسے فرانسیسی نام لکھنے میں آسانی ہوجائے گی تو ترکی، فارسی، انگریزی، جرمنی، اسپینش اور چینی زبانوں میں وارد ناموں کو لکھنے کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے گا؟ اس پر بحث ہوئی۔ بحث کے بعد ووٹنگ ہوئی۔عمر فروخ نے طہ حسین کی اس تجویز کی مخالفت کی مگر ان کی رائے ووٹنگ میں شکست کھا گئی۔ نتیجے کے اعلان کے بعد عقاد کھڑے ہوئے اورعمر فروخ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ فلاں صاحب بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ ہم عربی زبان میں اس طرح کے اضافوں کے فتنے کا دروازہ نہیں کھول سکتے۔اور انھوں نے عمر فروخ کی تائید کرتے ہوئے دلائل سے ان کی تائید کی اور دوبارہ ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ عقاد کی اس بحث سے دوبارہ ووٹنگ ہوئی اور ڈاکٹر طہ حسین کی تجویز ناکام ہوگئی۔
عمر فروخ کہتے ہیں اس میٹنگ کے بعد ہال کے باہر ہم دونوں آپس میں ملے۔ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اورگلے ملے۔عقاد نے عمر فروخ کی تائید اس لیے کی کہ عمر فروخ نے الرسالہ میں شائع شدہ عقاد کی تحریر کا جواب نہیں دیاتھا بلکہ اسے علمی بحث سمجھ کر انگیز کرلیاتھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایسے نازک وقت میں عقاد نے عمر فروخ کاساتھ دے کر عربی زبان کو ایک ایسے فتنے سے محفوظ کردیاکہ اگر اس کا دروازہ کھل گیا ہوتا تو نہ جانے عربی زبان پر کیاکیا مصیبتیں اپنے ساتھ لاتا۔
سچ ہے کہ ساتھیوں، دوستوں، رشتے داروں، عزیزواقارب کی سخت سست کا کبھی کبھی جواب دینا ضروری نہیں سمجھناچاہیے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ اتنی گنجائش رہے کہ پھر کبھی جب دوست ہوجائیں تو شرمندہ نہ ہوں۔ ساتھ ہی حق کی تائید ہمیشہ کرنی چاہیے خواہ حق کا داعی اپنا دشمن  اور فریق مخالف ہی کیوں نہ ہو۔

 

عرش کے سائے میں

عمر   فروخ (۱۹۰۶-۱۹۸۷ء)عربی کے بہت بڑے لبنانی ادیب تھے۔ میں نے سب سے پہلے ان کا نام۶ جلدوں پر مشتمل  ان کی معرکۃ الآراء کتاب تاریخ ادب عربی سے جانا۔ کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں اور ان کی خوونوشت غبار السنین کے مطالعے سے قبل میں بھی سمجھتا تھا کہ عمر فروخ مسیحی تھے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ وہ خالص سچے پکے سنی مسلمان تھے۔ایک ایسے دینی گھرانے میں ان کی تربیت ہوئی جہاں نماز روزے کی پابندی کی جاتی تھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ فیض احمد فیض اپنے والد کے ساتھ فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے تھے اور بعد نماز فجر مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کا درس قرآن بھی سنتے تھے۔ مگر فیض صاحب بعد میں کمیونزم سے متاثر ہوئے اور بچپن کی تربیت ان کی باقی ماندہ زندگی پر اثر انداز نہیں رہی۔مگر اس کے بالکل برعکس عمر فرو خ کی زندگی پر ان کی گھریلو  تربیت کااثر ہمیشہ برقرار رہا اورانہوں نے عمر بھر ایک مومن کامل کی طرح زندگی جی۔
عمر فروخ نے ۲۸ سال کی عین جوانی کی عمر میں جرمنی کا سفر کیا اور وہاں سے مشہور مستشرق یوسف ہل کی نگرانی میں محض دو سال کی مختصر مدت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔  اس دو سال میں انہوںنے جرمنی سمیت یورپ کے بے شمار شہروں کا سفر کیا۔ بے شمار مستشرق اساتذہ سے استفادہ کیا۔ دینی غیرت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے استاد کے سامنے اپنے مقالے کے اوراق پڑھ کر سنا رہے تھے جس میں انھوں نے محمد کے ساتھ ’رسول اللہ‘ لکھا ہوا تھا۔ استاد نے کہا۔ تم پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے ہو اور محمد کے ساتھ آج بھی رسول اللہ لکھ رہے ہو۔ عمر فروخ نے فورا اپنے اوراق سمیٹے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ استاد یہ دیکھ کر حیران ہوگئے۔ پوچھاکیا ہوا؟ کہا میںبیروت واپس جانا چاہتا ہوں۔ پوچھا کیوں؟ کہا میں ایسے کسی استاد سے علم حاصل نہیں کرنا چاہتا جسے لفظ محمد کے ساتھ رسول اللہ سن کر تکلیف ہوتی ہو۔ استاد نے کہابیٹھو او رجس طرح چاہو لکھو۔
عمر فروخ کو جرمنی میں بارہا دعوت گناہ دی گئی۔ دعوت زواج  ونکاح دی گئی مگر اس عنفوان شباب میں بھی انھوں نے کسی کی نگہ التفات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ ان کی پاکیزگی، تقوی اور طہارت کا یہ عالم تھاایک مرتبہ ایک جرمن لڑکی ان کے پاس آئی اور ان سے معذرت کا اظہار کرنے لگی۔ انہوں نے سبب پوچھا؟ تو اس نے کہا کل میں اپنی سہیلی کے یہاں جانا چاہتی تھی۔ ماں باپ نے منع کردیا۔دوسرے روز میں نے کہا میں عمر فروخ سے ملنے جارہی ہوں۔ تو انہوں نے اجازت دے دی اور میں اپنی سہیلی کے یہاں چلی گئی۔ 
عمر فروخ نے لکھا ہے کہ جرمنی میں انہیں ایک لڑکی نے propose کردیا۔ عمر نے انکار کردیا۔ اس نے کہا میں مسلمان ہوجاؤں گی۔ کہا بالکل نہیں۔ کہا میں عرب میں تمہارے ساتھ چل کر رہوں گی۔ عمر نے کہا ہرگز نہیں۔ اس نے کہا میں حجاب کروں گی۔ عمر نے نہیں ہرگزنہیں۔ کہا میں تمہارے گھر سے باہر قدم نہیں رکھوں گی۔ عمر نے اس کی ایک نہیں سنی۔جب تک زندہ رہے ان کی مومنانہ صفات میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ان کے ایک استاد تھے جن کی اکلوتی بیٹی تھی اور اپنے صاحب ثروت والدین کی اکلوتی وارث۔ وہ حسن وجمال میں بھی طاق تھی۔ عمر فروخ اکثر اپنے استاد کے یہاں جاتے تھے۔ ان کے ساتھ کئی بار سیر و تفریح کے لیے بھی جاتے مگر انہوں نے اپنے استاد کی بیٹی سے کبھی بات نہیں کی۔
انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھاہے کہ میں اپنے استاد کے ساتھ ایک کافی ہاؤس میں بیٹھا تھا۔ ایک یورپی لڑکی کافی ہاؤس میں داخل ہوئی۔ وہ اس قدر خوب صورت تھی کہ سبھی اسے دیکھنے لگے۔ وہ ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئی ۔ اس کے بعد اس نے ویٹر کے ہاتھ سے ایک رقعہ بھیجا جس میں لکھا تھا کیا تم آج میرے ساتھ گھومنا پسند کروگے؟ عمر فروخ نے ویٹر سے کہا جاکر اس سے کہہ دو نہیں اور ہر گز نہیں۔ اس کے استاد  اسے دیکھتے رہ گئے۔ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔عمر فروخ جب جرمنی سے واپس آرہے تھے تو یہی استاد گرامی جو ان کے ساتھ کافی ہاؤس میں تھے۔ انہیں الوداع کرنے اسٹیشن گئے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ عمر فروخ نے کہااستاد کیوں اشکبار ہیں؟ میں تو آپ کا علم اور آپ کی یادیں لے کر جارہا ہوں۔ استاد نے فرمایا۔ عمر میں نے تمہارے جیسے کردار صرف کتابوں میں پڑھے تھے۔ کبھی دیکھے نہیں تھے۔
کیا ایسے کرداروہ بھی کسی ادیب، مورخ، شاعر، ڈرامہ نگار کے بھیس میں آج بھی ہمارے اردگرد موجود ہیں؟ ہوں گے ضرور ہوں گے۔ اسی لیے تو اللہ کی رحمت مدام اس عالم فانی پر قائم ودائم ہے۔اللہ ہمیں اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ آمین 
 

نعمل لأجلکم ونأسف لإزعاجکم

سعود ی  عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں جہاں کہیں روڈ کی اصلاح  و ترمیم کا کام چلتا ہے وہاں جلی حرفوں میں لکھ دیا جاتا ہے’’ نعمل لأجلکم ونأسف لازعاجکم‘‘ یعنی آپ کو ڈسٹرب کرنے کے لیے ہمیں افسوس ہے لیکن ہم آپ ہی کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔اور پھر وہاں سے گزرنے والے صبرایوب کے اکسیلیٹر پر پاؤں دابے ہوئے کارگہ حیات کی گاڑی میں بیٹھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دوسرے روز جب اسی راستے سے دوبارہ ان کا گزر ہوتا ہے اور راستے کی مشقت دور ہوئی نظر آتی ہے تو ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا ہے۔کل کی مشقت اور تکلیف کا احساس زائل ہوجاتاہے۔
آج پوری دنیا کا نظام خلل کا شکار نظر آتا ہے کیونکہ ہم میں سے بیشتر لوگ اپنے سامنے والے کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ ماںباپ اپنی اولاد کونماز فجر کے لیے ڈسٹرب نہیں کرتے کہ کہیںان کی نیند میں خلل واقع نہ ہو۔ اساتذہ طلبہ کے ساتھ سختی نہیں کرتے کہ کلاس کا ماحول خراب نہ ہو۔حکومت رعایا کے ساتھ قانون کا سختی سے نفاذ نہیں کرتی کہ کہیں ان کے خلاف بغاوت نہ ہو۔ ان کا ووٹ بینک نہ بکھر جائے۔ مختلف اداروں کے منتظمین  اپنے ماتحتوں کے ساتھ سختی نہیں کرتے تاکہ ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے۔ بہت سارے اساتذہ امتحان گاہوں میں طلبہ کو نقل کرتے نہیں پکڑتے کہ انھیں اس کے لیے بھیانک نتائج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بہت سارے ممتحن اساتذۂ بھی طلبہ کو ڈسٹرب نہیں کرتے اور ان سے جس طرح بحث ومباحثہ، سوال وجواب اور مناقشہ ہونا چاہیے نہیں کرتے تاکہ انہیں مدعو کرنے والے ناراض نہ ہوجائیں۔ نتیجۃ ہر لائق ونالائق ممتاز نمبرات سے کامیابی کی سند حاصل کرلیتا ہے اور کھرے کھوٹے باہم شیر وشکر ہوکر نظام حیات کی گڑبڑی میں شریک وسہیم ہوجاتے ہیں۔
 میں سوچتا ہوں اگر حضرت موسی نے بھی یہی سوچا ہوتا اورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی شب بار بار واپس نہ کیا ہوتا تو آج امت محمدیہ کے ناتواں کاندھوں پر پچاس نمازوں کا وہ بار گراں ہوتا جس سے وہ کبھی سبک دوش نہیں ہوسکتی تھی۔ مگر حضرت موسی کا خلوص  دیکھیے۔ ان کی نگاہ دوربیں کو ٹٹولیے۔ ان کے تجربات ومشاہدات کو سلام کیجیے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار بارگاہ خداوندی میں جاکر فریضۂ نماز میں تخفیف کی درخواست پر مجبور کیا۔
اللہ رب العالمین نے حضرت آدم کو شجرممنوعہ کے پاس جانے کی پاداش میں انہیں جنت سے نکال دیا۔حضرت یونس  علیہ السلام مچھلی کا شکار بن گئے۔قوم لوط کو ہلاک کردیاگیا۔ ثمود وعاد کو برباد کردیاگیا۔ یوسف علیہ السلام نے حکمت کے تقاضے کے تحت بنیامین کو اپنے پاس رکھ لیا۔موسی علیہ السلام کو ان کی ماں نے حکمت  وحکم الہی کے تحت دریا میں ڈال دیا۔ووغیرہ وغیرہ۔اللہ تعالی نے ہمیں ہمارے گناہوں پر ایسے ایسے عذاب کی دھمکی اور وعید دی کہ اللہ کی پناہ۔ اعاذنا اللہ وایاکم منہ۔جنت بنایا جہنم بنایا۔ ثواب بنایا عقاب بنایا۔ مومن اور منافق میں تفریق کی۔ مسلم اور کافر میں امتیاز برتا۔اللہ والوں اور غیر اللہ والوں کے درمیان تفاوت پیدا کیا۔ 
آج بھی ہم انہی اساتذہ کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کیں۔ ہماری گوش مالی کی۔ ہماری کوتاہیوں پرسرزنش کی۔ ہمیں اچھے برے کی پہچان کا سلیقہ عطا کیا۔ہمارے والدین کی سختیاں ہمیں موقعے موقعے سے کچوکتی ہیں۔ راہ حیات میں مشعل راہ بن کر زندگی کو روشن کرتی ہیں۔اللہ غریق رحمت کرے میرے بڑے بھائی حماد انجم کو جنھوں نے مجھے ہمیشہ ہر غلطی کے لیے ٹوکا۔ہر کوتاہی کے لیے سرزنش کی۔ان کی اور ان جیسے اساتذۂ کرام کی سختیاں آج بھی رہ حیات کو روشن کرتی ہیں اور ہمیں انسان بن کر محو سفر رہنے کی خاموشی سے تلقین کیا کرتی ہیں۔ کیا خوب کہا ہے کسی عربی شاعر نے      ؎
فقسا لیزدجروا ومن یک حازما…فلیقس احیانا علی من یرحم
(یعنی انہوں نے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے سختی سے کام لیا۔ جو لوگ عقل والے ہوتے ہیں اپنے عزیزوں پر کبھی کبھی سختی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں)
سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ سختی کرتے ہیں وہی آپ کے اپنے ہوتے ہیں۔ جو سختیاں نہیں کرتے  وہ نہ آپ کے اپنے ہوتے ہیں۔ نہ دوست  اور نہ دشمن۔ اور ان سے اس کائنات میں کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔
………………….
صدرشعبۂ عربی/ اردو/ اسلامک اسٹڈیز باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں کشمیر
9086180380