جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ، عبداللہ خانوادے کی تیسری نسل اور این سی سیاست کے وارث حال ہی میں امریکہ کی ایک دانش گاہ برکلی میں طالب علموں اور اسکالروں کے ایک مجمع سے مخاطب ہوئے۔ اپنے خطاب میں اُنہوں نے کشمیر سے متعلق مختلف موضوعات پہ روشنی ڈالی جس میں 1947ء کی افتاد کے علاوہ اُس کے بعد کے واقعات و حالات پہ اُن کا تبصرات بھی شامل رہے۔اِس خطاب کو جب تاریخ کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے تو کئی مقامات پہ حقائق کے برعکس لن ترانی صاف نظر آتی ہے۔عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں 1947ء کے الحاق کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے اِسے مہاراجہ ہری سنگھ کے خاطے میں ڈال دیا ۔ یہ نیشنل کانفرنس کو کسی بھی قسم کی ذمہ واری سے مبرا قرار دینے کی ایک ایسی سعی ہے جو تاریخی اعتبار سے صیح قرار نہیں دی جا سکتی۔
یہ سچ ہے کی الحاق ہری سنگھ کا دستخط شدہ ہے لیکن اِس الحاق کو نیشنل کانفرنس کی بھر پور حمایت حاصل رہی جیسا کہ 1947ء اور بعد کے واقعات سے عیاں ہے۔ ہری سنگھ کے بارے میں عمر عبداللہ کے خطاب میں یہ اظہار ہوا ہے کہ’’مہاراجہ جیسے کہ میں سمجھتا ہوں آزاد جموں و کشمیر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ریاست کے مستقبل کے فیصلے کے لئے اُنہوں نے وقت مانگااور نہ ہندوستان سے نہ ہی پاکستان سے ملنے کی حامی بھری لہذا جب 15آگست 1947ء ہندوستان کو آزادی ملی اور پاکستان وجود میں آیاتو ایک اور آزاد مملکت کا ظہور ہوا اور وہ جموں و کشمیر کی ریاست تھی البتہ یہ کچھ ہی مہینوں کیلئے آزاد رہی جو ایک کوتاہ مدت تھی‘‘ عمر عبداللہ کا یہ کہنا صیح ہے مہاراجہ ہری سنگھ کا رحجان آزاد رہنے کا تھالہذا اُنہوں نے نہ ہندوستان سے ملنے میں جلدی کی اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ملنے میں بلکہ اُنہوں نے معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی کوشش کی اور اِس سلسلے میں اُنہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ایک سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کرنے کو ترجیح دی جس کا مطلب یہ تھا کہ جموں و کشمیرجس حالت میں ہے اُسی حالت میں رہنے دیںیعنی اُس کی آزاد حثیت کوتب تک بدلنے کی کوشش نہ کی جائے جب تک کہ ریاست اِس بارے میں کوئی فیصلہ نہ لے۔
مہاراجہ ہری سنگھ کی پیشنہاد سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کو جہاں پاکستان نے پذیرائی بخشی وہی ہندوستان نے اِس بارے میں واضح اظہار نظر نہیں کیا۔مہاراجہ کی اِس پیشنہاد کے زمانے میں وزیر اعظم رام چند کاک اُن کے اقدامات کو من و عن لاگو کرتے رہے۔اِسی زمانے میں کم و بیش ایک سال پہلے 1946ء میں شیخ محمد عبداللہ کی سر براہی میں نیشنل کانفرنس نے کویٹ کشمیر یعنی کشمیر چھوڑ دو کی تحریک شروع کی تھی لہذا ریاست میں متضاد سیاسی روش تھی گر چہ ایسے نازک وقت میں ریاست کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے یکساں سیاسی روش کی ضرورت تھی۔نیشنل کانفرنس کاآل انڈیا کانگریس کے ساتھ قریبی رابطہ تھا۔ شیخ محمد عبداللہ نظریاتی طور پہ پنڈت جواہر لال کے قریب مانے جاتے تھے۔یہ نزدیکی بیسوی صدی کے تیسرے دَہے میں ایک سیاسی حقیقت بن چکی تھی جب مسلم کا نفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر دیا گیا۔بیسوی صدی کے چھوتے دَہے میں نیشنل کانفرنس کے کنونشن میں کانگریسی لیڈروں کی شمولیت ایک عیاں سیاسی حقیقت ہے۔
یہ صیح ہے کہ ہری سنگھ کی یہ کوشش کہ ریاست جموں و کشمیر ایک آزاد ریاست بنی رہی کے پس پردہ یہ مقصد تھا کہ ڈوگرہ شاہی کی مطلق العنانی کو جاری رکھا جائے۔اِس مطلق العنانی میں کشمیری ایک صدی سے پستے جا رہے تھے اور شاہی خاندان کے زیر سایہ حکومت کسی بھی صورت میں کشمیریوں کیلئے قابل قبول نہیں تھی لیکن اُسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں برطانوی راج سے نجات اور انتقال قدرت کے بعد یہ قرار پایا تھا کہ ریاستوں کا الحاق ہندوستان سے ہو یا پاکستان سے اِس کا فیصلہ راجوں مہاراجوں کو ہی کرنا تھا اور اِس حساب سے پرکھا جائے تو مہاراجہ ہری سنگھ کو الحاق کے مسلے میں کلیدی حثیت حاصل تھی اور ایسے میں عملی سیاست کا یہ تقاضا تھا کہ انتہائی دانشمندی و تدبر کا مظاہرہ کیا جائے لیکن اِس کے برعکس ریاست میں سیاسی شعور کا فقدان تھا۔
ڈوگرہ شاہی کو جموں کے کچھ میدانی علاقوں میں حمایت حاصل تھی جب کہ ریاست جو کہ اکثر و بیشتر پہاڑی اضلاع پہ محیط ہے کی اکثریت مطلق جمہوری اقدار کی قائل تھی حتّی کہ جموں کے میدانی علاقوں میں بھی آبادی کا ایک خاطر خواہ حصہ ڈوگرہ شاہی کے خلاف تھا ۔1931ء میں جب کشمیر کی مسلی ہوئی روح بیدار ہوئی اور تحریک مزاحمت نے زور پکڑا تو مسلمین جموں کی بھر پور حمایت کشمیر یوں کے شامل حال رہی ۔ 1938ء میں جب مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا گیا تو اِس حمایت میں رخنہ آ گیا۔ شیخ محمد عبداللہ جو کہ کشمیریوں کی آواز بن چکے تھے مسلمین کشمیر کے ایک حصے کی حمایت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔یہ اختلاف آگے چل کے شیر بکری کا بد نام سیاسی عنواں بن گیا ۔یہ کشمیر کی سیاست کا ایک بد ترین دور تھا جس کے اثرات ایک طویل مدت پہ محیط رہے۔جموں و کشمیر میں ایک نازک دور میں سیاسی رخنہ اندازی آگے چل کے گرانبار ثابت ہوئی۔
عمر عبداللہ کے دانشگاہ برکلے کے خطاب میں 1947ء میں جو بھی گذری وہ جیسا کہ پہلے ہی ذکر ہوا ہے مہاراجہ ہری سنگھ کے خاطے میں ڈالا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس دوران کچھ اور بھی محرکات تھے جن کا ذکر اُن کے خطاب میں نہیں ہوا چونکہ یہ حقائق اُن کی سیاسی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ جو کہ الحاق کے معاملے میں کلیدی حثیت رکھتے تھے شدید دباؤ میں تھے کہ وہ جلدی فیصلہ کریں اور اِس سلسلے میں وائسرائے لارڑ مونٹ بیٹن بھی سرینگر آئے لیکن مہاراجہ نے سنی ان سنی کی بلکہ ایک اہم مٹینگ کو پیٹ درد کا بہانہ کر کے ٹال دیا۔مہاراجہ کا پیٹ درد پنڈت نہرو کیلئے درد سر بنتا گیا چونکہ وہ کشمیر کے بارے میں بے قرار ہو رہے تھے ۔ ہندوستان کی عبوری حکومت کے سر براہ کی حثیت سے پنڈت نہرو برطانوی سلطنت کا ایک کلیدی مہرہ تھے اور وہ بھی ایک ایسے دور میں جب کہ اِس سلطنت کا سب سے اہم حصہ ہندوستان اُس کے ہاتھ سے چھوٹا جا رہا تھا کیونکہ یہ سلطنت وہ سکت کھو چکی تھی جو ہندوستان کو باندھے رکھنے کیلئے ضروری تھی۔ ویسے بھی تاریخ برطانوی سلطنت کے آخری وائسرائے لارڑ مونٹ بیٹن اور پنڈت نہرو کے خصوصی رشتے کی گواہ ہے۔دو کلیدی شخصیات کے خصوصی رشتے نے نہ صرف تقسیم بر صغیر کو متاثر کیا بلکہ ریاست جموں و کشمیر بھی اِس رشتے کے اثرات سے بچ نہ سکی اور اُس کے دور رس نتائج آج تک کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
پنڈت نہرو اور مونٹ بیٹن کے خصوصی رشتے کی مانند شیخ محمد عبداللہ اور پنڈت نہرو کے خصوصی تعلقات بھی تاریخ کے اوراق میں منعکس ہیں اور اِس رشتے نے بھی ریاست پہ اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ 1947ء کے حالات وواقعات کامطالعہ شیخ محمد عبداللہ اور پنڈت نہرو کے خصوصی سیاسی رشتے کی بر رسی کے بغیر ایک ادھوری کہانی رہے گی۔جہاں پنڈت نہرو مہاراجہ ہری سنگھ پہ دباؤ ڈالنے میں مصروف تھے وہی اُن کا منشا یہ بھی تھا کہ ہری سنگھ کے الحاق پہ دستخط کے ساتھ ساتھ وہ اِس الحاق کیلئے شیخ محمد عبداللہ کی حمایت بھی حاصل کر لیں چونکہ وہ کشمیر کے جانے مانے لیڈر تھے ۔پنڈت نہرو کشمیر کے وزیر اعظم رام چند کاک کو بھی اپنی راہ کا ایک روڑہ مانتے تھے حالانکہ دیکھا جائے تو ایک مطلق العناں حکومت کے وزیر اعظم کی حثیت سے رام چند کاک کے ہاتھ میں اختیار اُسی حد تک رہ سکتا تھا جس حد تک کہ ہری سنگھ کہ ہری سنگھ کی اجازت رہتی ۔رام چند کاک کے ساتھ شدید خصومت پنڈت نہرو اور شیخ محمد عبداللہ میں ایک قدر مشترک تھی۔1946ء میں جب پنڈت نہرو اپنے سیاسی رفیق شیخ محمد عبداللہ کو کشمیر چھوڑ دو کی تحریک کے دوراں عدالتی سزا سے بچانے کیلئے کشمیر آئے تو اُنہیں کوہالہ کے قریب روکا گیااور بعد میں اُنہوں نے آصف علی کو شیخ عبداللہ کے دفاع پہ مامور کیا۔
ایک پُر آشوب سیاسی دور میںپنڈت نہرو اور سردار پٹیل کی سر براہی میں آل انڈیا کانگریس دو احداف پہ کام کر ہی تھی ایک یہ کہ رام چند کاک کا پتہ صاف کیا جائے ثانیاََ شیخ محمد عبداللہ کی رہائی کیلئے مہاراجہ ہری سنگھ پہ دباؤ ڈالا جائے۔پنڈت نہرو چونکہ جمہوری اقدار کے قائل مانے جاتے تھے لہذا اُن کے تعلقات مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ ٹھیک نہیں تھے البتہ سردار پٹیل کے تعلقات دوسری ریاستوں کی مانند ریاست جموں و کشمیر کی ڈوگرہ شاہی کے ساتھ بھی اہم فیصلوں پہ اثر انداز ہونے کی حد تک آراستہ تھے۔سردار پٹیل عبوری ہندوستانی کابینہ میں وزیر داخلہ ہونے کی مناسبت سے ریاستوں سے براہ راست رابطے میں تھے۔کشمیر کے ضمن میں پنڈت نہرو کی بے قراری لارڑ مونٹ بیٹن کے ساتھ ساتھ سردار پٹیل کیلئے بھی پریشانی کا باعث تھی چناچہ آگست 1947ء کے اوائل میں مہاتما گاندھی کو کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اِس دورے کے باوجود مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کے مستقبل کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں لیاالبتہ 11آگست 1947ء کو رام چند کاک کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کیا گیا اور اُن کی جگہ جنک سنگھ عبوری وزیر اعظم بنا دئے گئے۔
1947ء کے حالات و واقعات کے بارے میں نیشنل کانفرنس کا اُس زمانے میں مطبوعاتی ترجمان ’خدمت‘ سیاسی سند کی حثیت رکھتا ہے۔ اِس اخبار کے اُس زمانے کے اداریے نیشنل کا نفرنس کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔اِن اداریوں میں رام چند کاک کے خلاف اُس زمانے میں جو کچھ شائع ہوا ہے اُس میں صاف عیاں ہے جو بھی واقعات کویٹ کشمیر تحریک کے دوران پیش آئے اُن کا ملبہ رام چند کاک پہ ڈالا گیا ہے حالانکہ وہ ایک مطلق العناں حاکم ہری سنگھ کے وزیر اعظم تھے۔خدمت کے اِن ادرایوں کے مطالعے سے حیرت ہوتی ہے کہ کس کو کشمیر چھوڑنے کا کہا جا رہا تھا؟؟آج تک عام تصور یہی ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کو کشمیر چھوڑنے کے لئے کہا جا رہا تھا لیکن اِن اداریوں میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ رام چند کاک نے مہاراجہ ہری سنگھ اور عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی یعنی مہاراجہ کے بجائے رام چند کاک کو قصور وار مانا گیا ہے۔11آگست 1947ء کو جب سرینگر کے اولڈ سیکرٹریٹ میں جنک سنگھ عبوری وزیر اعظم کا چارج لے رہے تھے تو سیکرٹریٹ کے باہر مظاہرین وزارت عظمیٰ میں تبدیلی کے حق میں اور باغی عبداللہ زندہ باد کے نعرے دے رہے تھے۔رام چند کاک کی جو تذلیل ہوئی وہ کہانی اُس زمانے سے آج تک نسل بہ نسل منتقل ہو رہی ہے۔
عبوری وزیر اعظم جنک سنگھ نے جلد ہی وزارت عظمیٰ کا چارج مہر چند مہاجن کو دیاجو آل انڈیا کانگریس کے کافی قریب مانے جاتے تھے۔موصوف پیشے سے ایک جج اور ریڈ کلف باونڈری کمیشن میں ہندوستان کی نمائندگی پہ مامور تھے۔ اُنکی تقرری کے بعد حالات تیزی سے بدلنے لگے۔آگست کے آخری ایام میں پونچھ میں بغاوت ہوئی۔پونچھ کے بہت سارے فوجی جنگ جہانی دوم میں ہندوستان کی فوج میں شامل تھے جو جرمنی کے خلاف برطانوی افواج کی ہمرکاب تھی۔ جنگ سے فارغ ہو کے جب وہ وطن واپس لوٹے تو ہموطناں کی حالت زار سے متاثر ہو کے وہ باغی ہو گئے۔داخلی بغاوت کا یہ عنصر ریاست کی سرحد کے بار کے قبیلوں میں بھی پھیلنے لگا البتہ اِسے صرف و صرف خارجی مداخلت کے یاد کیا جانے لگا۔شدید دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ دہلی کے مشوروں کو موقعہ و محل دینے لگے۔جنک سنگھ کے بیٹے کشمیرا سنگھ جو کہ ہندوستان فوج کے آفیسر تھے ڈوگرہ دربار کے ساتھ لائزن آفیسر مقرر کیا گیا۔کئی اور اقدامات کئے گئے جن میں سرینگر ایر پورٹ پہ مواصلاتی رابطے کا فروغ،دہلی اور سرینگر کے بیچ ہوائی رابطے میں اضافہ ،پٹھانکوٹ سڑک رابطے کی تعمیراور یہ سب رابطے اِس بات کا واضح اشارہ تھے کہ مہاراجہ ہری سنگھ ہندوستان کے ساتھ الحاق کیلئے پر تول رہے تھے۔
29ستمبر 1947ء کے روز شیخ محمد عبداللہ کو 16مہینے کی قید و بند کے بعد رہا کیا گیااور اِس طرح اُس سزا میں کاہش کی گئی جو عدالت نے کویٹ کشمیر تحریک کی پاداش میں مقرر کی تھی ۔ہندوستان کیلئے نہ صرف مہاراجہ ہری سنگھ کا دستخط شدہ الحاق امر مہم تھا بلکہ کانگریس کی لیڈرشپ مخصوصاََ پنڈت جواہر لال نہرو الحاق کیلئے عوامی لیڈرشپ کی تائید کے خواہاں تھے۔عمر عبداللہ نے اپنے برکلے یونیورسٹی کے خطاب میں الحاق کے ضمن میں صرف و صرف مہاراجہ ہری سنگھ کا ذکر کیا ہے اور اِس الحاق کو عملیانے میں جو نیشنل کانفرنس کا کردار رہا ہے اُس کا کہیں ذکر نظر نہیں آتاجبکہ اُسکی تاریخی شہادت موجود ہے۔عمر عبداللہ کے خطاب میں کئی اور تاریخی مرحلوں پہ نظر ڈالی گئی ہے جو کئی مقامات پہ حقائق کے برعکس ہیںاُن پہ کسی اگلے مقالے میں بحث ہو گی۔
Feedback on: [email protected]