ندا سکینہ صدیقی
ایجادات کی دنیا کو مزید وسیع کرنے کے لیےسال گذشتہ میں جدت سے بھر پور ستارے چمکے ،کیوں کہ اس برس بھی دنیا بھر میں علم وحکمت،دریافتوں اور ایجادات کی دوڑ بہت تیزی سے جاری رہی ۔تحقیق ،ایجادات ہر ملک کی ترقی کے بنیادی عناصر ہیں ۔ان کے بغیر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مشکل ہے، چناں چہ مختلف ماہرین اور سائنس دانوں نے2023 ء میں متعدد ایجادات اور دریافتیں منظرِعام پر پیش کیں۔ماہرین نے گزشتہ برس کاربن ڈائی آکسائیڈ جاذب کرنے والی لکڑی ،فضائی آلودگی ناپنے والا آلہ،بیکٹیریا تلف کرنے والافوم ،جیپ میں سما جانے والا اڑن کیمرہ اور بہت کچھ تیار کیا ۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایجادات کسی بھی ملک کا نقشہ بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں تو غلط نہیں ہو گا ۔ گذشتہ سال میں ایک نجی کمپنی نے طاقت ور پاور بینک ایجاد کیا اور ساتھ ہی اس میں1080 ریزولوشن کا کیمرہ نصب ہے جسے گھریلو حفاظت کے لیےاستعمال کیا جاسکتا ہے ۔اس میں سائونڈ ریکارڈ ہے اور نائٹ وژن کے ساتھ ہائی ریزولوشن ویڈیو کیمرہ بھی ہے جو براہِ راست آپ کے فون پر ویڈیو اور آڈیو ریلیز کرسکتا ہے۔ اتنے سارے خواص کے باوجود اس کا وزن بہت کم ہے اور ہاتھوں میں آسانی سے سماسکتا ہے۔ کیمرہ کسی بھی رخ پر ہو یہ 135 درجے کا منظر دکھاتا ہے اور اپنی اسمارٹ ایپ پر نشر کرتاہے۔ اس کوگھر کی چوکیداری ، بچوں کی حفاظت اور گاڑی وغیرہ میں اسے رکھا جاسکتا ہے۔گزشتہ سال رائس یونیو رسٹی کےماہرین نے عمارت تیار کرنے کے لیے پائیدار اور ماحول دوست میٹرئیل تیار کیا ہے ۔یہ لکڑی نہ صرف گھر اور بلڈنگ کے لیے مفید ہوگی بلکہ کا ربن ڈائی آکسائیڈ بھی جذب کرے گی ۔اس میں ایسے ذرّات ڈالے گئے ہیں جو در حقیقت’ ’میٹل آرگینک فریم ورکس(ایم او ایف ایس)‘‘ سے بنے ہیں۔ اس کے لیے لکڑی کے اندرپہلے سے موجود بنیادی ساخت کو نکال باہر کیا گیا ہے۔اس طرح انجینئرڈ طور پر تیارشدہ لکڑی نہ صرف پہلے سے مضبوط ہوگئی بلکہ وہ کاربن جذب کرنے والی ماحول دوست شےبھی بن گئی ہے۔
برطانوی ماہرین ِ فلکیات نے سورج کے حجم سے 30ارب گنا بڑابلیک ہول دریافت کیا ہے، اب تک جتنے بھی بلیک ہول دریافت کیے گئے ہیں یہ ان میں سب سے بڑا ہے ۔اس کا وجود ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود سیگیٹیریس Aسے 8000 گنا بڑا ہے ۔
2023 ء میںزمین سے دو ارب نوری سال دور کا سب سے روشن دھماکہ ہوا۔اس کے نتیجے میں انتہائی شدید نوعیت کی شعائیں خارج ہوئیں جنہوں نے پورے نظامِ شمسی کو لپیٹ میں لیتے ہوئے متعدد خلائی کرافٹ میں نصب آلات کو بھی متاثر کیا۔گیما شعاؤں کی بوچھاڑ کا اس قسم کا وقوعہ کائنات میں طاقتور ترین اور روشن ترین دھماکوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔اس دھماکے کو GRB 221009A کا نام دیا گیا ہے ۔7000 ہزار گیما شعاؤں کی بوچھاڑوں کے تجزیے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ GRB 221009A اب تک کے مشاہدہ کیے گئے دھماکوں میں سب سے زیادہ روشن تھا ۔ اس کی بوچھاڑ چند سیکنڈ وں تک جاری رہی ۔ اس دورانیے میں ہمارے سورج کے مقابلے میں کئی گناہ توانائی خارج ہوئی ۔جارجیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نےگزشتہ سال ایک ایسا فوم تیار کیا جو ایک جانب سے ماحول آلودہ تیل جاذب کرسکتا ہے اور دوسری جانب طبی آلات اور آپریشن کے دوران بیکٹیریا بھی جذب کرسکتا ہے۔اسے ’’سپرفوم‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس پر گرافین کے چھوٹے ذرّات ڈالے گئے ہیں، جب کہ تانبے کا برادہ رکھا گیا ہے جو جراثیم دور کرنے میں کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کرنے کے لیے سائنس دانوں نے ایک نمک تیار کیا جو معمولی توانائی استعمال کرتے ہوئے محیط دباؤ اور درجہ ٔ حرارت میں کا ربن ڈائی آکسائیڈ کوذخیرہ کرسکتا ہے ۔اس کو ماہرین نے ’’گونیڈینیم سلفیٹ ‘‘کا نام دیا ہے ۔یہ طریقہ کار انڈسٹری میں اس گرین ہاؤس گیس کو کشید کرنے، دوسری جگہ منتقل کرنے اور ذخیرہ کرنے کے طریقے کو بدل سکتا ہے۔
2023 ء میں ماہرین نے کمرے میں رکھی روشن اور چمکیلی اشیا کے انعکاس سے تصاویر لینے والا ایک کمپیو ٹر وژن سسٹم تیار کیا ۔میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور رائس یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر یہ کمپیوٹر وژن سسٹم بنایا ہے۔ اس طرح کسی بھی ایسی چیز کو کیمرہ بنایا جاسکتا ہے جو تھوڑی بہت چمکتی ہو ،جس میں دھات سے لے کر پلاسٹک تک شامل ہوس۔ یہ نظام معمولی انعکاس والی اشیا کو بھی ڈجیٹل سینسر میں بدل سکتا ہے۔اس کمپیوٹر وژن سے ہر ایک زاویئے اور جیومیٹری کو بھی دیکھا جاسکتا ہے اور یوں وہ سب کو ملاکر ایک تصویر بناتا ہے۔ کمپیوٹروژن سسٹم کےذریعے اطراف ، کونوں اور چھپے ہوئے گوشوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
سعودی عرب میں قائم کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر ماریو لینزا اور ان کے ساتھیوں نے 2023 ء ،میں دنیا کی پہلی دوجہتی (ٹوڈائمینشنل) مائیکروچِپ بنائی ہے۔ یہ چپ کم توانائی پر بلند معیار کا کام کرتی ہے۔ 2004 میں گریفائٹ کی باریک ترین تہہ، گرافین کی دریافت کی وجہ سے ہی اس چپ کی تیاری ممکن ہوئی تھی۔ اسے قابلِ عمل بنانا بھی ایک چیلنج تھا۔ سالِ گذشتہ میں سائنس دانوں نے اڑن کیمرہ تیار کیا جو جیب میں سماسکتا ہے ۔اس کا وزن 125 گرام ہے اور پہلے سے پروگرام شدہ راہ پر چل کر بہت اچھی ویڈیو بناتا ہے۔ مٹھی میں سماجانے والا ’’ہوور کیمرہ ایکس ون‘‘ اڑنے میں تین سیکنڈ لگاتا ہے اور یوں کوئی لمحہ کیمرے کے آنکھ سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔ اپنے طاقتور کیمرے کی بدولت یہ سینما کوالٹی کی شاندار ویڈیو بناتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ ڈرون کیمرے کو اڑاناا اور قابو کرنا بہت ہی آسان ہے۔
گزشتہ سال جنوبی کوریا کی یونسیائی یونیورسٹی کے ماہرین نے گھر کی اندرونی ہوا کوصاف رکھنے کے لیے برقی لیمپ پر لگائی جانے والی شیڈ تیار کی ہے جو کمرے میں ہوا کو آلودگی سے صاف کرتی ہے ۔ٹٹانئیم ڈائی آکسائیڈ اور پلاٹینم سے بنی لیمپ شیڈ کوٹنگ گھر کے اندر مضر کیمیائی بخارات تلف کرتی ہے۔
اگرچہ اس میں پلاٹینم کی مقدار کم ہے لیکن جیسے ہی گھر میں موجود کیمیائی اجزا اس سے ٹکراتے ہیں وہ تیزی سے ختم ہوتے رہتے ہیں یا غیرمضر اجزا میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس عمل میں بلب کی حرارت اہم کردار ادا کرتی ہے۔جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے ایک مائیکرو ڈرون بنایا ہے جو روایتی ڈرون سے 150 درجے کم توانائی استعمال کرتا ہے، ہوا سے بجلی بناتا ہے اور یوں طویل عرصے معلق رہ سکتا ہے۔تمام خوبیوں کے باوجود ڈرون کی بجلی تیزی سے خرچ ہوتی ہے اور یوں انہیں طویل عرصے تک پرواز کے قابل نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کمی کے تحت کوریا ایڈوانسڈ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے تجرباتی ہوائی سُرنگ (وِنڈ ٹنل) میں اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
ڈرون نے ہوا سے ہی بجلی بنائی اور بہت دیر تک فضا میں برقرار رہا۔یہ ہوا کی امواج میں معلق رہنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور توانائی کی بچت میں ایک اہم ایجاد بھی ہے۔
سوئٹرز لینڈ کے شہر لوزان میں قائم فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے گزشتہ سال مردار ای کولی بیکٹیریا سے بجلی بنانے کا کام یاب تجربہ کیا ہے۔ سائنس دانوں کی ٹیم نے ایکسٹرا سیلولر الیکٹرون ٹرانسفر (ای ای ٹی) نامی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے بیکٹیریا میں رد و بدل کی، تاکہ ان کو انتہائی مؤثر برقی مائیکروب بنایا جاسکے۔یہ عمل روایتی طریقہ کار کی نسبت برقی کرنٹ کی پیداوار میں تین گنا اضافہ کر تا ہے۔
2023 ء میں سائنس دانوں نےایک ایسا پیس میکر بنایا ہے جو دل کی دھڑکنوں کواستعمال کرتے ہوئے اپنی بیٹری کو جزوی طور پر ری چارج کرسکتا ہے۔ اس کو بنانے کا مقصد تازہ برقی توانائی پیدا کرنا ہے۔ یہ آلہ ایک اور دل کی دھڑکن کو متحرک کرنے کے لیے درکار توانائی کا تقریباً 10 واں فی صد دوبارہ پیدا کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ پیس میکر ایک عام پیس میکر کے مقابلے میں بیٹری کی 6 سے 15 سالہ مدت کو بڑھا بھی دیتا ہے۔گزشتہ سال ماہرین نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو جسم کے بغیر دماغ کو زندہ اور فعال رکھ سکتا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تجربے کی کامیابی جسم کے دیگر وظائف کی مدخلت کے بغیر انسانی دماغ کا مطالعہ کرنے کے لیے نئی راہیں کھول سکتی ہے۔ جب کہ اس ٹیکنالوجی سے مستقبل میں دماغ کے ٹرانسپلانٹ کے امکانات کی راہیں کھولنے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔