علم ایک لامحدود اور لازوال دولت ہے فکروادراک

افتخار ساقی

آج کی دنیا بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ طے کر رہی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ہی اس نئے ماحول کو سمجھ سکتی ہے اور ایک جیتا جاگتا، محبت، الفت، ہمدردی، رواداری سے بھر پور، انسانوں کا معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عورت کے بغیر انسان نامکمل ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو حضرت آدمؑ کو تنہائی گویا کسی کی کمی محسوس کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا ؑ کو پیدا فرمایا تاکہ وہ کمی اور تنہائی دور ہو جائے۔ گویا عورت کے وجود سے تنہائی دور ہوتی ہے اور معاشرے میں سکون کا دور دورہ ہوتا ہے۔ عورت اس جہاں کا سب سے خوبصورت، انوکھا، نرالہ اور دلکش وجود ہے۔ جس کے دم سے حیات قائم ہے۔اسی کے ذریعے انسانی نسل کی نشوونما ہو رہی ہے۔اسی کی وجہ سے ایک اچھا اور عمدہ معاشرے کے قیام کا عمل وجود میں آتا ہے، ہماری جسمانی اور روحانی آسودگی عورت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ عورت کو ہم اگر ماں کے روپ میں دیکھتے ہیں تو وہ اپنے بچے سے بے لوث محبت، الفت، چاہت، شفقت، ہمدردی اور ایثار و قربانی کرنے والی انمول خزانہ ہے۔ عورت کو اگر بیوی کی صورت میں دیکھتے ہیں تو وہ دلی تعلق، اخلاص، صداقت، پاکیزگی بغیر کسی دکھاوے کے، بے لوث، بے غرض، خلوص اور چاہت کے ساتھ حقیقی محبت کرنے والی، ہر خوشی و غم کی ساتھی اور وفاداری کا ایک حسین افسانہ ہے۔ عورت کو اگر بہن کی شکل میں دیکھتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے عمدہ اور بہترین نعمت ہے اور اگر بیٹی کی شکل میں دیکھتے ہیں تو وہ خدا کی رحمت ہے۔ منجملہ اگر دیکھتے ہیں تو عورت انسانیت کی آن، بان، شان اور عزت ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی مذہب میں نہیں دیا گیا، تو تعلیم نسواں اشد ضروری ہے کیوں کہ علم ایک لامحدود اور لازوال دولت ہے جو تقسیم کرنے سے کم ہوتی نہیں بلکہ بڑھتی رہتی ہے۔ علم وہ نور ہے جو جہالت کی تاریکی کو مٹا دیتا ہے۔ علم وہ خوبصورت باغ ہے جس کے پھلوں اور پھولوں کی کوئی تعداد نہیں۔ علم وہ سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ علم وہ طاقت ہے جو انسان کو خود شناسی اور خدا شناسی سکھاتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے انسان اپنی تہذیب اور تمدن کو اپنے آنے والی نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔ اس رسم کو باقی رکھنے کے لیے انسان اسکولز، کالجز، اور یونیورسٹیاں بناتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اس کا تہذیب و تمدن بر قرار رہے اور اس میں سب سے بڑا کردار عورت کا ہوتا ہے۔ کیوں کہ عورت کا ہی زیادہ تر اولاد کی تربیت اور گھر کے ماحول کو سنوارنے میں اہم رول ہوتا ہے۔ عورت اگر تعلیم یافتہ ہے تو وہ اپنی اولاد اور خاندان کو ایک اچھا اور عمدہ ماحول دے گی ورنہ سب تباہ و برباد کر دے گی۔

اگر ہم معائنہ کریں! تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیم ہی وہ خزانہ اور زیور ہے جس سے عورت اپنے مقام و مرتبہ اور تہذیب و تمدن سے آگاہ ہوکر اپنی، اپنے گھر والوں اور معاشرے کا مقدر سنوارتی ہے۔ لیکن افسوس! کچھ لوگ ’’تعلیم نسواں‘‘ کے خلاف اور ان کے متعلق بڑی غلط فہمی رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم سے صرف لڑکوں کو آراستہ کرنا ضروری ہے۔ تعلیم صرف روزگار اور حصول دولت کے لیے ضروری ہے۔ اس میدان میں صرف مردوں کو آنے کا اختیار و حق ہے۔ عورتیں صرف بچے پیدا کرنےکے ساتھ ساتھ گھر کی دیکھ بھال ، گھریلو کاموں،باورچی خانے میں کھانا بنانے اور دسترخوان سجانے کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔ اس طرح کی خام خیالی باتیں قطعاً درست نہیں ۔ کیوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔(الذاريات: 56) اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں بھی انسانوں میں شمار ہوتی ہیں تو جب تک عورتیں تعلیم حاصل نہیں کریں گی تو کیسے ان چیزوں سے آشنا ہوں گی؟ بلکہ ماننا ہوگا کہ عورتیں بھی علم کی روشنی سے فیضیاب ہوں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایسی بے شمار مثالیں ملے گی کہ خواتین کی فہم و فراست، عقل و تدبر اور ہمت و جرأت سے بڑے بڑے انقلابات کا ظہور ہوا ہے۔ مثلاً فرعون کی بیوی حضرت آسیہ ؓ کو ہی دیکھ لیں وہ کس طرح فرعون کے ظلم و زیادتی سے بچا کر حضرت عیسٰیؑ کو اپنی آغوش میں پروان چڑھائی، اور وہ تعلیم یافتہ تھی تبھی تو اس نے فرعون کے ظلم و تشدد کے سامنے حق کا راستہ نہیں چھوڑا۔ اسی طرح زوجۂ محسنِ انسانیت ؐ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری ؓ نے اپنی تمام دولت و ثروت کو دین اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کر دیا۔ان کی وجہ سے ایک بہت بڑا انقلاب وقوع پذیر ہوا۔ اسی طرح خاتون جنت، دختر آقائے نعمتؐ نے اپنی اولاد کی ایسی تربیت فرمائی کہ ایک شہزادے نے دو گروہوں کے درمیان صلح کرا کر ملت کو خون خرابے سے بچایا اور دوسرے شہزادے نے ظالم و جابر بادشاہ کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی جان راہ خدا میں قربان کرکے اسلام کی حفاظت فرمائی۔ مفکرین کہتے ہیں کہ ’’مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم، جبکہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے۔‘‘ فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین کا قول ہے کہ ’’آپ مجھے اچھی مائیں دیں، میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔‘‘

مرد کے ساتھ ساتھ عورت کا بھی تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو دینی و دنیاوی مسائل بہت آسانی کے ساتھ حل کر لے گی۔ اپنی اولاد کی بہتر انداز میں تربیت کرے گی، گھر کا ماحول خوبصورت اور اچھے معاشرے کی تشکیل ہوگی۔ لیکن عورت اگر دین و مذہب کی تعلیم سے نا آشنا اور نابلد ہو، تو وہ اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت، گھر کا اچھا ماحول اور ایک اچھا معاشرہ نہیں دے سکتی۔ خاص کر موجودہ دور تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، گویا یہ جہاں ایک گھر کی مانند ہو گیا ہے۔ اس گھر میں وہی فرد حکمرانی کرسکتا ہے جو علم اور ٹیکنالوجی کا جانکار ہو۔ تو جو چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد کی اچھی تربیت، گھر کا ماحول خوشگوار، ایک اچھا معاشرہ اور اس کا ملک سب سے ترقی یافتہ ملک ہو تو ’’تعلیم نسواں‘‘ کو عام کرنا ہوگا! ورنہ سارے خواب تہ و بالا ہو جائیں گے۔ آج دنیا بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ اس لیے اس نئے ماحول سے ایک تعلیم یافتہ عورت ہی مطابقت، اور اپنی بات دوسرے تک آسانی کے ساتھ پہنچا سکتی ہے۔ خاص کر اپنی اولاد کو جو اس دور جدید میں جدید اشیاء کو جاننے کے خواہاں ہوتے ہیں، ان کو ان جدید اشیاء سے آشنا کرا سکے گی۔ ضروری نہیں کہ عورت پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، پروفیسر، پائلٹ یا انجینئر بنے؟ عورت کی پہلی ذمہ داری اس کا گھر ہے تو وہ تعلیم یافتہ عورت ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں اپنے فرائض و واجبات کو احسن طریقے سے نبھا سکتی ہے۔ اس لیے ’’تعلیم نسواں‘‘ کی اشد ضرورت ہے۔